اولیاء کی گردنوں پر قدم کی بحث مکتوب نمبر293دفتر اول

 چند سوالوں کے جواب میں شیخ محمدخیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔ سوال اول پوچھا گیا تھا کہ حدیث نبوی ﷺمیں لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ  وَقْتٌ آیا ہے اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ سوال دوم پوچھا گیا تھا کہ حضرت شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے۔ قدمی هذا علی رقبة کل ولی اللہ( میرا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے) اور ایک اور شیخ نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ سوال سوم پوچھا گیا تھا کہ ان اولیاء سے جن کی گردنوں پر قدم رکھا تھا، مراد اسی وقت کے اولیاء ہیں یا مطلق اور عام طور پر مراد ہیں۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)صحیفہ شریفہ جو آپ نے ارسال کیا ۔ اس کے آنے سے بڑی خوشی حاصل ہوئی ۔ یہ کس قد راعلی نعمت ہے کہ حق تعالیٰ کے دوست دورافتادوں کو یاد کر یں۔ . 

آپ نے لکھا تھا کہ حضرت رسالت پناہ ﷺنے فرمایا ہے لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ  وَقْتٌ (میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ہے) اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا ہے اور حضرت میراں محی الدین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ میرا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ہے اور ایک شیخ نے بھی یہی کہا ہے۔ کبھی کبھی ان دونوں لفظوں پر براغوغا مچ جاتا ہے۔ مہربانی کر کے فرمائیں کہ ان دونوں کلاموں کے کیا معنی ہیں اور ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ غور کے ساتھ سب کو واضح کر کے جو اس غریب کے فہم کے موافق ہو لکھ کر ارسال فرمائیں۔ 

میرے مخدوم ! اس فقیر نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺکو باوجود استمرار(دائمی) وقت کے ایک خاص اورنادر وقت بھی حاصل تھا اور وہ وقت ادائے نماز کا وقت تھا۔ ۔ ‌الصَّلَاةُ ‌مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ (نماز مومنوں کی معراج ہے آپ نے سنا ہوگا اور ۔ ‌اَرِحْنِيْ ‌يَا ‌بِلَال (اے بلال مجھے آرام دے) اس مطلب کے ثبوت کے لئے عادل گواہ ہے اور ابوذر غفاری بھی وراثت اور تبعیت (اتباع کے طور پر)کے طور پراس دولت سے مشرف ہوا ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺکے کامل حصہ تابعداروں کو آنحضرت ﷺکے تمام کمالات سے وراثت کے طور پر کمال حاصل ہوتا ہے۔ 

اور یہ جو حضرت شیخ عبدالقادر رحمتہ الله علیہ نے فرمایا ہے قدمی هذا علی رقبة کل ولی اللہ او جميع أولياء (میرا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے۔)

عوارف المعارف والا جو شیخ ابوالنحبیب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ(  جو حضرت شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کےرازداروں اور مصاحبوں سے ہے) کا مرید اور تربیت یافتہ ہے اس کلمہ کو ان کلمات سے بیان کرتا ہے جوعُجب(خود بینی) پرمشتمل ہے جو ابتدائے احوال میں بقیہ سکر کے باعث مشائخ سے سرزد ہوتے ہیں اور نفحات میں شیخ حماددباس سے جوحضرت شیخ کے مشائخ میں سے ہیں منقول ہے کہ انہوں نے بطریق فراست فرمایا تھا کہ اس عجمی(عبد القادر ) کا ایک ایسا قدم ہے کہ اس کے وقت میں تمام اولیاء کی گردنوں پر ہوگا اور اس بات کے کہنے پر مامور ہوگا کہ قدمی هذا علی رقبة کل ولی اللہاور جس وقت یہ بات کہے گا تمام اولیاء اپنی گردنیں جھکا دیں گے۔ بہر صورت شیخ  اس کلام میں سچے ہیں ۔ خواہ یہ کلام ان سے بقید سکر کے باعث سرزد ہوا ہو خواہ اس کلام کے اظہار پر مامور ہوئے ہوں کیونکہ ان کا قدم اس وقت کے تمام اولیاء کی گردنوں پر ہوا ہے اور اس وقت کے تمام اولیاء ان کے قدم کے نیچے ہوئے ہیں لیکن جاننا چا ہیئے کہ حکم اس وقت کے اولیاء کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ اولیائے متقدمین اور متاخرین(پہلے اور بعد) اس حکم سے خارج ہیں جیسا کہ شیخ حماد کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس کا قدم اس کے وقت میں تمام اولیاء کے گردنوں پر ہوگا۔ 

اور نیز ایک غوث نے جو بغداد میں ہوا ہے اور حضرت شیخ عبدالقادر اور ابن سقا اور عبداللہ رحمتہ الله علیہم اجمعین اس کی زیارت کے لئے گئے تھے۔ بطریق فراست شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے حق میں کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو بغداد میں منبر پر چڑھا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے۔ قدمی هذا علی رقبة کل ولی اللہاور میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت کے تمام اولیاء نے تیرے اجلال و اکرام کے باعث اپنی گردنوں کو پست کیا ہوا ہے۔ 

اس بزرگ کے کلام سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے ساتھ ہی مخصوص تھا۔ اس وقت بھی اگر خدائے تعالیٰ کسی کو چشم بصیرت عطا فرمائے تو دیکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ اس غوث نے دیکھا تھا کہ اس وقت کے اولیاء کی گردنیں اس کے قدم کے نیچے ہیں اور یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے علاوہ اور وقت کے اولیاء تک نہیں پہنچا۔ اولیائے متقدمین کے حق میں یہ حکم کیسے جائز ہوسکتا ہے جن میں اصحاب کرام بھی شامل ہیں جو یقینا حضرت سے افضل ہیں اور اولیائے متاخرین میں بھی کیسے جائز ہوسکتا ہے جن میں حضرت مہدی شامل ہیں جن کے آنے کی نسبت آنحضرت ﷺنے بشارت دی ہے اور امت کو ان کے وجود کی خوشخبری دی ہے اور ان کے حق میں خلیفہ اللہ فرمایا ہے۔ ایسے ہی حضرت عیسی علیہ الصلوة والسلام جو اولوالعزم نبی ہیں ان کے اصحاب سابقین میں سے ہیں اور اس شریعت کی متابعت کے باعث حضرت خاتم الرسل کے اصحاب سے ملحق ہیں ۔ متاخرین کی اس بزرگی کے باعث ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو۔ ‌لَا ‌يُدْرَى أَوَّلُهُ ‌خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ نہیں معلوم ان کے اول بہتر ہیں یا آخیر کے) غرض حضرت شیخ عبدالقادر قدس سره ولایت میں شان عظیم اور درجہ بلند رکھتے ہیں۔ ولایت خاصہ محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیۃ کوسیر کی راہ سے آخر نقطہ تک پہنچا دیا ہے اور اس دائر ہ کے سرحلقہ ہوئے ہیں۔ 

اس بیان سے کوئی یہ وہم نہ کر لے کہ جب حضرت شیخ دائرہ ولایت محمدیہ کے سرحلقہ ہیں تو چاہیئے کہ سب اولیاء سے افضل ہوں کیونکہ ولایت محمدی تمام انبیاء کی ولایت سے برتر ہے کیونکہ میں کہتا ہوں کہ اس ولایت محمدی کے سرحلقہ ہیں جو راہ سیر سے حاصل ہوئی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ نہ کہ مطلق اس ولایت کے سرحلقہ ہیں جس سے افضلیت لازم آئے یا دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ مطلق ولایت محمدیہ کا سر حلقہ ہونا افضلیت کومستلزم نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور بھی کمالات نبوت محمدیہ میں تبعیت اور وراثت کے طریق پر قدم آگے رکھتا ہو اور ان کمالات کی راہ سے افضلیت اس کے لئے ثابت ہو۔ 

حضرت شیخ عبدالقادر رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے اکثر مریدین  شیخ کے حق میں بہت غلو کرتے ہیں اور محبت کی جانب افراط سے کام لیتے ہیں جیسا کہ حضرت امیر(علی) کرم اللہ وجہہ کےمحب ان کی محبت میں افراط کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ لوگ شیخ کوتمام اگلے پچھلے اولیاء سے افضل جانتے ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے سوا معلوم نہیں کہ کسی اور کو حضرت شیخ سے افضل جانتے ہوں۔یہ کلام افراد محبت سے ہے۔ 

اگر کہیں کہ جس قدر خوارق و کرامات  شیخ سے ظاہر ہوئے ہیں اور کسی ولی سے ظاہرنہیں ہوئے اس لحاظ سے فضیلت انہی کے لئے ہے تو میں کہتا ہوں کہ خوارق و کرامات کا بکثرت ظاہر ہونا افضیلت پر دلالت نہیں کرتا ممکن ہے کہ کوئی شخص جس سے کوئی بھی خرق عادت ظاہر نہ ہوئی ہو، اس شخص سے کہ جس سے خوارق و کرامات بکثرت ظاہر ہوتے ہوں، افضل ہو۔ 

 شیخ الشیوخ نے عوارف میں خوارق و کرامات کے ذکر کے بعد فرمایا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بخششیں اور مہربانیاں ہیں جو بعض لوگوں کو عطا فرماتا ہے اور ان کے ساتھ ان کی عزت بڑھاتا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رتبہ اور فضیلت میں ان سے بڑھ کر ہوتے ہیں لیکن ان کرامات میں سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ کرامات یقین کی تقویت کا باعث ہیں اور جس کو صرف یقین عطا کیا گیا ہو۔ اس کو ذکرقلبی اور ذکرذات کے سوا ان کرامات کی کچھ بھی حاجت نہیں ہے۔ خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کو افضلیت کی دلیل بنانا ایسا ہے جیسا کہ حضرت امیر(علی) کرم اللہ وجہہ کے بکثرت فضائل و مناقب کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ان کو افضل ہونے کی دلیل بنائیں کیونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدرفضائل ومناقب ظہور میں نہیں آئے ہیں جس قدر کہ حضرت علی  کرم اللہ وجہ سے۔ 

اے برادر : غور سے سن کے خرق عادات دوقسم پر ہیں۔

 نوع اول: وہ علوم و معارف الہی جل شانہ ہیں جو تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ عقل کے ماسوائے اور متعارف معتاد کے برخلاف ہیں جن کے ساتھ اپنے خاص بندوں کو ممتاز کرتا ہے۔

 نوع دوم: مخلوقات کی صورتوں کا کشف ہونا اور پوشیدہ چیزوں پر اطلاع پانا اور ان کی خبر دینا جو اس عالم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ 

نوع اول اہل حق اور ارباب معرفت کے ساتھ مخصوص ہے اورنوع ثانی محقق اور مبطل 

یعنی جھوٹے اورسچے میں شامل ہے کیونکہ استدراج (شعبدہ بازی) والوں کو بھی نوع ثانی حاصل ہے۔ 

نوع اول حق تعالیٰ کے نزدیک شرافت و اعتبار رکھتی ہے کیونکہ اس کو اپنے دوستوں ہی سے مخصوص کیا ہے اور دشمنوں کو اس میں شریک نہیں کیا اور نوع دوم عام مخلوقات کے نزدیک معتبر ہے اور ان کی نظروں میں بہت معزز و محترم ہے۔ یہی باتیں اگر استدراج (شعبدہ بازی) والوں سے ظاہر ہوں تو عجب نہیں کہ نادانی کے باعث اس کی پرستش کرنے لگ جائیں اور رطب و یابس پر کہ ان کو تکلیف دے اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو جائیں بلکہ  محجوب نوع اول کو خوارق و کرامات سے نہیں جانتے ان کے نزدیک خوارق نوع دوم میں منحصر ہیں اور کرامات ان محجوبوں کے خیال میں مخلوقات کی صورتوں کے کشف اور پوشیدہ چیزوں کی خبر دینے پرمخصوص ہیں۔ یہ لوگ عجب بیوقوف ہیں ۔ اتنانہیں جانتے کہ وہ علم جو حاضر یا غائب مخلوقات کے احوال سے تعلق رکھتا ہے اس میں کوئی شرافت وکرامت حاصل ہے بلکہ یہ علم تو اس بات کے لائق ہے کہ جہالت سے بدل جائے تا کہ مخلوقات اور ان کے احوال بھول جائیں۔ وہ حق تعالیٰ کی معرفت ہی ہے جو شرافت، کرامت اور اعزاز و احترام کے لائق ہے ۔ 

پری نہفتہ رو و دیو در کرشمہ و ناز بسوخت عقل زحيرت کہ ایں چہ بوالعجبی است ترجمہ: چھپائے رخ کو پری اوردیوناز کرے الٹامعاملہ سن کر بجا نہ ہوش ہے 

شیخ السلام ہروی اور امام الانصاری نے سائرین اور سالکین کی منازل اور ان کے بیان میں جو کچھ فرمایا ہے۔ وہ ہمارے مذکورہ بیان کے قریب قریب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تجر بہ سے مجھے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اہل معرفت کی فراست یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ تمیز کر لیتے ہیں کہ کونسا شخص حق تعالیٰ کی بارگاہ کے لائق ہے اور کونسا نہیں اور اہل استعداد کو پہچان لیتے ہیں جو الله تعالیٰ کے ساتھ اشتغال رکھتے ہیں اور حق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف واصل ہوتے ہیں یہ تو اہل معرفت کی فراست ہے لیکن اہل ریاضت کی فراست بھوک اور خلوت اور تصفیہ باطن سے ہوتی ہے۔ بغیر اس امر کے کہ جناب حق تعالیٰ تک واصل ہوں۔یہ لوگ مخلوقات کی صورتوں کا کشف کرتے اور پوشیدہ امور کی خبر دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ حق تعالیٰ کی طرف سےمحجوب ہوتے ہیں اور چونکہ اہل معرفت حق تعالیٰ کے ان علوم و معارف میں مشغول رہتے ہیں جوان پر وارد ہوتے رہتے ہیں اس لئے یہ لوگ جو خبر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دیتے ہیں اور چونکہ اہل علم کو حق تعالیٰ سے الگ اور دنیا میں ہمہ تن مشغول ہو تے ہیں ۔ اس لئے ان کے دل ان لوگوں کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں جو مخلوق کی صورتوں کو ظاہر کریں اور مخلوقات کے غائبانہ احوال کی خبریں دیں۔ یہ لوگ ان کو بڑا بزرگ جانتے ہیں اور اعتقاد کرتے ہیں کہ خاص اہل اللہ یہی لوگ ہیں اور اہل حقیقت کے کشف سے اعراض کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے کے باعث ان پرتہمتیں لگاتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل حق اور ولی ہوتے تو ہم کو ہمارے اورمخلوقات کے احوال کی نسبت خبر میں بتلاتے اور جب مخلوقات کے احوال کے کشف پرقدرت نہیں رکھتے تو اس سے بڑھ کر اعلی امور کے کشف پر کیسے طاقت رکھتے ہیں اور اس قیاس فاسد سے ان کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ خود اخبارصحیحہ سے اندھے ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اہل حق کو الله تعالیٰ نے خلق کے ملاحظہ سے محفوظ رکھا ہے اور ان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے اور ماسوائے اللہ سے ان کو ہٹا رکھا ہے اور اگر یہ بھی ان لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو خلق کے احوال کے درپے ہوتے ہیں تو بارگاہ حق کے لائق نہ ہوتے اور ہم نے اکثر اہل حق کو دیکھا ہے کہ جب وہ کشف صدر کی طرف ادنی توجہ کرتے تھے تو اس فراست کے ساتھ جس کو اہل معرفت ثابت کرتے ہیں اور یہ وہ فراست ہے جوحق تعالیٰ اور اس کے قرب سے تعلق رکھتی ہے، جھٹ معلوم کر لیا کرتے تھے جن کے ادراک پران کے غیر طاقت نہ رکھتے تھے لیکن وہ اہل صفا جو اس بحث سے خارج اورخلقت کے ساتھ متعلق ہیں ۔ وہ حق تعالیٰ اور اس کے قرب کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے اس میں مسلمان اور نصاری اوریہود باقی گروہ میں شامل ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شریف نہیں ہیں۔ یہ اپنے اہل کے ساتھ ہی خصوصیت رکھتے ہیں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ437ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں