نیت مراقبہ حقیقت قرآن مجید
فیض می آید از وسعت بیچون حضرت ذات کہ منشاء حقیقت قرآن مجید است بہ ہیئت وحدانی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے جو حقیقت قرآن مجید کی منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میری ہیئت وحدانی میں فیض آتا ہے۔
تشریح
اس مقام پرقرآن مجید کے اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ قرآن پاک کا ایک ایک حرف مطالب و معانی کا دریا نظر آتا ہے۔ بسا اوقات تمام قالب انسانی مثل زبان بن جاتا ہے۔ لذت تلاوت حاصل ہوتی ہے۔ خداوند قدوس سے راز ونیا کی باتیں ہوتی ہیں۔
حقیقت قرآن مجید ذات تبارک و تعالی کے صفت العلم سے تعلق رکھتی ہے ۔ جو ظہور عالم سے خدائے تعالی کو حاصل تھا۔ حقیقت کعبہ کی سیر ختم ہونے کے بعد سالک اس مقام مقدسہ کی سیر سے مشرف ہوتا ہے۔ حقیقت قرآن مجید سے مراد حضرت ذات کی بے چونی و بے کیفی کی وسعت وفراخی کا ابتدائی مرحلہ ہے ۔اور حضرت ذات سبحانہ تعالی کی وسعت اس مقام سے مشہود ہوتی ہے ۔ یعنی وہ حالات و کیفیات ظاہر ہوتے ہیں جو وسعت سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ قرآن مجید کے مخفی راز اس مقام سے آشکار ہوتے ہیں ۔ کلام اللہ کا ہر حرف معرفت اور علم وفضل کا بحر بے کنار معلوم ہوتا ہے ۔ جو کعبہ مقصود کا موصل ہے ہر حرف سے بجلی کی چمک عرش مجید تک پہنچتی ہے اور اس بجلی کے نور سے سالک کو عالم ملکوت، عالم جبروت اور عالم لاہوت کی سیر نصیب ہوتی ہے ۔ اور اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں سے کلام فرماتے ہیں اور سالک کو بھی شرف تکلم نصیب ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت سے اس مقام پر سالک کے لیے عجیب وغریب اسرار و رموز کا کشف ہوتا ہے ۔مختلف واقعات کی حقیقت اور اوامر و نواہی کے محل وقوع ظاہر ہوتے ہیں ۔حق سبحانہ تعالی کی قدرت و حکمت کے گوہر ہائے گرانمایہ آشکار ہوتے ہیں بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پند و نصائح اورقصص و حکایات انبیاء علیھم السلام اور احکام شریعت کے ارشادات کے معارف اور حقائق سالک پر منکشف ہوتے ہیں ۔ بوقت تلاوت قرآن مجید سالک کی زبان شجرہ موسوی کا حکم رکھتی ہے ۔ سالک کا تمام قالب زبان کے مثل ہو جا تا ہے۔ گویا زبان قاری سے حق سبحانہ تعالی کلام فرماتے ہیں اور یہاں قدرت کاملہ اور اسرار بالغہ ظہور میں آتے ہیں ۔ اس مقام میں سالک کو اس درجہ بلندی نصیب ہوتی ہے کہ حقیقت قرآن کی نسبت سب پر غالب رہتی ہے ۔ اور کمالات نبوت(بہت سے کمالات میں سےمعصوم ہونا وحی الہی اور علوم غیب کمالات نبوت ہیں) و رسالت اولوالعزم(اولو العزم رسول پانچ ہیں وہ یہ ہیں۔1: حضرت نوح علیہ السلام2: حضرت ابراہیم علیہ السلام3: حضرت موسی علیہ السلام4: حضرت عیسی علیہ السلام5: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ ) اور نسبت حقیقت کعبہ سب نیچے رہ جاتے ہیں ۔
قرآن مجید عالم بالا میں کہیں نور اور کہیں نور علی نور ہے ۔ اس کی موجودہ صورت حالات عالم ناسوت کی ضرورت کے تحت ہے ۔ انوار قرآن مجید کے انکشاف کی علامت یہ ہے کہ سالک کے باطن پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے ۔ اور اس پر احکام الہی کے اسرار و رموز اورا وامرونواہی ظاہر ہوتے ہیں ۔
حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ مرتبہ علیا حقیقیت کعبہ ربانی کے بعد ہر مقام پر حقیقت قرآن کا بیان ہے ۔ کعبہ معظمہ بحکم قرآن مجید قبلہ آفاق ہوکر دولت مسجودیت سے مشرف ہوا ہے۔
انسان جس طرح علم الہی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اسی طرح قرآن مجید کے رموز و مطالب کے احاطہ کرنے سے معذور ہے۔ اس لیے اس مراقبہ میں سالک پران باطنی کیفیات کے وارد کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس مرتبہ مقدسہ میں حروف مقطعات متشابہات قرآنی کے اسرار سا لک پر کھلتے ہیں ۔ اگر چہ یہ مرتبہ آنحضرت ﷺ کے لیے مختص ہے لیکن آپ ﷺ کی اتباع کامل کے باعث آپ ﷺ کے پس خودرہ میں سے سالک کو بھی کچھ حصہ مل جا تا ہے ۔ جو اس کی انتہائی خوش بختی کا موجب ہے۔