اٹھارواں مراقبہ نیت مراقبہ اقربیت

نیت مراقبہ اقربیت

 فیض می آید از ذات بیچون کہ اصل اسماء و صفات است کہ نزدیک تر است از من بمن واز رگ گردن من بمن بہ نزدیکی بلاکیف بمفهوم این آیۃ کریمہ. وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ. بلطیفہ نفسی من باشرکت لطائف خمسہ عالم امر من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین.

ذات باری تعالیٰ  کی طرف سے  جو کہ اصل اسماء و صفات  ہے اور اس آیہ کریمہ کے مطابق(ہم اس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ) مجھ سے  میرے زیادہ قریب  ہے اور میری شہ رگ سے بھی قریب ہے اور یہ نزدیکی بلا کیف ہے  عظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میرے پانچوں لطائف عالم امر اور لطیفہ نفسی  میں فیض  آتا ہے۔

تشریح

یہ مراقبہ آیت مذکورہ سے لیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ لطائف خمسه عالم امر اس کے موردفیض ہیں۔ اور فیض کا منشا دائرہ اولی یعنی ولایت کبری ہے۔ اور یہی ولایت، ولایت صغری کی اصل ہے اقربیت کے معنی یہ ہیں کہ ظل کی اصل ظل کے ساتھ بہ نسبت ظل کے زیادہ نزدیک ہے۔ (یعنی ظل خود اپنے آپ سے اتنا قریب نہیں ہے جتنا کہ اس کی اصل اس سے قریب ہے اور یہی حال ہے اصل کی اصل کا کہ وہ اپنے مابعد کی بہ نسبت ظل سے زیادہ قریب ہے۔ اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ ذات واجب تعالی جل جلالہ ممکن کے ساتھ، بہ نسبت شیونات کے زیادہ قریب ہے۔ اور شیونات کے ممکن کے ساتھ، بہ نسبت صفات کے زیادہ قریب ہے۔ اور صفات ، نسبت ظلال صفات کے ممکن سے زیادہ قریب ہے۔ اور ظلال صفات ممکن کے ساتھ، زیادہ قریب ہیں ۔ یہاں کے حالات بے رنگ اور بے مزہ ہیں۔ جب نفس کے حالات قوت پڑ جاتے ہیں تو حالت قلبی فراموش ہو جاتی ہے۔ اس مراقبہ کے تمام ہونے کی یہی علامت ہے۔

ولایت کبری در حقیقت انبیاء علیہ السلام کی ولایت ہے اور لطیف نفس ان کے فنا کامل اور صحو ہوشیاری کا مقام ہے ۔ اس کو ولایت انبیاء یھم السلام بھی کہتے ہیں ۔ جو مقامات عشرہ یعنی تو بہ انابت، زہد ، قناعت، ورع ، تو کل تسلیم ، رضا،صبر ،شکر کے طے ہونے کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی ۔سالک کو اس مرتبہ میں سیر وسلوک با تباع نبی کریم ﷺ بطور رفاقت وضمنیت حاصل ہوتی ہے ۔اسراء اقربیت و توحید شہودی اسی دائرہ میں سالک کے شامل حال ہوتے ہیں ۔ اس مراقبہ میں سالک کا لطیفہ نفس مع دائرہ اول ولطائف خمسہ عالم امرمورد فیض ہیں ۔ اس مراقبہ میں سالک مقام خلت ابراہیمی سے مناسبت پیدا کر کے اسماء وصفات الہی سے فیض حاصل کرتا ہے ۔ حضور ونگہداشت و جذبات وعروج ونزول وغیرہ لطیفہ قلب کے مانند اس مقام میں بھی حاصل ہوتے ہیں بلکہ تمام بدن کو بتدریج انجذاب حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے کیفیات و حالات بہ نسبت قلب کے بے رنگ و بے مزہ ہیں لیکن نسبت لطیفہ نفس قوی ہو جانے کے بعد حالات و واردات لطیفہ قلب فراموش ہو جاتے ہیں ۔ فنائے قلب میں دل سے خطرات دور ہو جاتے ہیں لیکن دماغ میں باقی رہتے ہیں جوفنائےنفس کے بعد دور ہو جاتے ہیں اور اسی دائرہ تک لطائف خمسہ عالم امر کا عروج ہوتا ہے ۔ اور وہ اپنی اصل میں جو درحقیقت اسماء وصفات وشیونات حق سبحانہ تعالی ہیں ۔ فنا و بقا حاصل کر لیتے ہیں ۔

تزکیہ امارگی کے بعد نفس جس حالت میں پہنچ جا تا ہے ۔ اس کو قرآن مجید میں نفس لوامہ سے تعبیر فرمایا گیا۔ یہاں سا لک کویہ نفس نصیب ہوتا ہے ایسے نفس والا دنیا میں کم مشغول ہوتا ہے ۔ اس مراقبہ سے تاختم سلوک ذکر تہلیل لسانی معہ شرائط ترقی بخش ہوتا ہے ۔اگر سا لک زبان خیال ہی سے ذکر تہلیل ( نفی اثبات کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن اس حالت خلوص و برکات ذکر سے زبان محروم رہ جاتی ہے ۔اس لیے تھوڑا بہت ذکر زبان سے بھی ضروری ہے ۔

مراقبہ اقربیت میں قرب ذات کے وجود کا خیال رکھے کہ وہ باعتبار ذات کے قریب اور باعتبار وجدان کے بعید ہے۔

ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں