بعض کشفوں اور اپنےقصور کو دیکھنے اور تمام اعمال و اقوال میں اپنے آپ کو قاصر اور تہمت زده جاننے کا مقام حاصل ہونے اور شیخ ابوسعید ابوالخیر کی کلام کے سرظاہر ہونے کے بیان میں کہ انہوں نے فرمایا ہے عین نہیں رہتا ہے اثر کہاں رہے اور بعض یاروں کے احوال کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے۔
حضور کے غلاموں میں سے عاجز غلام احمد کی یہ گزارش ہے کہ وہ مقام جہاں بندے نے پہلے اپنے آپ کو دیکھا تھا جب حضور کے بلند حکم کے موافق پھر اس کا ملاحظہ کیا ، تینوں خلفائے رضی اللہ عنہم کا عبور اس مقام میں نظر آیا لیکن چونکہ وہاں اقامت و قرار نہ رکھتا تھا پہلی دفعہ نظر میں نہ آئے۔
چنانچه امامان اہل بیت میں سے سوائے امامین الشہیدین اور امام زین العابدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے اس مقام قرار وثبات نہیں رکھتے۔ لیکن عبور اس میں واقع ہوا ہے بڑی باریک نظر سے معلوم کر سکتے ہیں اور یہ کہ اول اپنے آپ کو اس مقام سے نامناسب دیکھا تھا یہ بے مناسبتی دوقسم کی ہے۔
ایک یہ کہ طریقوں میں کوئی طریقہ ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے بے مناسبتی طاری ہو جاتی ہے اور جب اس کی طرف کوئی رستہ دکھا دیا جاتا ہے وہ بے مناسبتی دور ہو جاتی ہے۔
دوسری بے مناسبتی مطلق ہے جو کسی طرح دور ہونے کے قابل نہیں ہے اور وہ راہ جو اس مقام کی طرف پہنچانے والے ہیں صرف دو ہیں جو اپنا تیسرا نہیں رکھتے یعنی ان دورستوں کے سوانظر میں اور رستہ ظاہرنہیں ہوتا۔
ایک یہ کہ اپنانقص وقصور دیکھیں اور تمام نیک کاموں میں باوجود قدرت و جذب کے اپنی نیتوں کو قاصر تہمت زدہ خیال کریں۔
دوسرا شیخ مکمل مجذوب کی صحبت جس نے سلوک کو تمام کیا ہو۔
اللہ تعالی نے حضور کی مہربانی کی طفیل پہلا طريق استعداد کے موافق عنایت فرمایا ہے۔ نیک اعمال میں سے کوئی عمل وقوع میں نہیں آتا۔ مگر یہ کہ اپنے آپ کو اس عمل میں تہمت زده بناتا ہے بلکہ جب تک کسی نہ کسی قسم کی تہمت نہ لگانے والا بے قرار و بے آرام رہتا ہے اور اپنے نزدیک ایسا جانتا ہے کہ کوئی عمل ایسا صادر نہیں ہوتا جو دائیں طرف کے فرشتوں کے قابل ہو اور جانتا ہے کہ دائیں طرف کا نامہ اعمال نیک عملوں سے خالی ہے اور اس کے لکھنے والے معطل و بیکار ہیں بھلا پھر درگاہ الہی کے لائق کیسے ہوگا اور ہر شخص کو جو جہان میں ہے حتی کہ کافر، فرنگ اور زندیق (بے دین) ملحد کو اپنے سے کئی درجے بہتر جانتا ہے اور ان سب سے بدتر اپنے آپ کو خیال کرتا ہے اور جذبہ کی جہت اگر چہ سیر الی اللہ کے تمام ہونے سے پوری ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض لوازم اور متعلقات رہ گئے تھے جو اس فنا کے ضمن میں جو مقام سیر الی اللہ کے مرکز میں واقع ہوئے تھے۔ پورے ہوئے اور اس فنا کے احوال پہلے عریضہ میں مفصل لکھے گئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے جو اس کام کے نہایت(انتہا) کو فنا کہا ہے اس سے ان کی مراد یہی فنا ہو جوتجلی ذات اور سیر فی اللہ کی تحقق (حقیقی حصول)کے بعد ثابت ہوئی ہے اور فنائے ارادی بھی اس فنا کی قسموں میں سے ہے۔
ہیچکس را تا نگرد وفنا نیست ره در بار گاه کبریا
ترجمہ: جب تک انساں نہ ہو جائےفنا تب تک ہرگز نہیں ملتا خدا
اور اس مقام کے نا مناسب لوگ بھی جو دوگروہ ہیں، نظر میں ہیں۔
ایک گروہ کو اس مقام کی طرف متوجہ ہے اور وہاں تک پہنچنے کا طریق تلاش کر رہا ہے اور دوسرا گروہ اس مقام کی طرف کوئی التفات وتوجہ نہیں رکھتا اور حضور کی توجہ اس مقام تک پہنچنے کے راستوں میں سے دوسرے طریق کی طرف زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور اسی طریق کے ساتھ مناسبت معلوم ہوتی ہے چونکہ بندہ حضور کی جانب سے مامور ہے اس لئے حضور کے ارشاد کے موافق بعض امور میں جرأت و گستاخی کی ۔ ورنہ ع
من ہما احمد پارینہ کہ ہستم ہستم
ترجمہ: من ہوں احمد وہی پرانا غلام
دوسری عرض یہ ہے کہ دوسری دفعہ اس مقام کے ملاحظہ کے وقت اور بہت سے مقام ایک دوسرے کے اوپر ظاہر ہوئے۔ نیاز و عاجزی سے توبہ کرنے کے بعد جب اس پہلے مقام سے اوپر کے مقام پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت ذی النورین رضی اللہ عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے اور یہ مقام تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور ایسے ہی اس مقام سے اوپر کے دو مقام بھی جن کا اب ذکر ہوتا ہے۔ تکمیل و ارشاد کے مقام ہیں اور اس مقام کے اوپر ایک اور مقام نظر آیا جب اس مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کا بھی وہاں عبور واقع ہوا ہے اور اس مقام سے او پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام ظاہر ہوا۔ بندہ اس مقام پر بھی پہنچا اور اپنے مشائخ میں سے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کو ہر مقام میں اپنے ساتھ ہمراہ پاتا تھا اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے۔ سوائے عبور اور مقام اور مرور اور ثبات کے کچھ فرق نہیں ہے اور اس مقام کے اوپر سوائےآنحضرت ﷺکے اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام کے مقابل ایک اور نہایت عمدہ نورانی مقام کہ اس جيسا کبھی نظر میں نہ آیا تھا۔ ظاہر ہوا اور وہ مقام اس مقام سے تھوڑا سا بلند تھا جس طرح کہ صفہ کہ زمیں سے ذرا بلند بناتے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ مقام محبو بیت کا مقام ہے اور وہ مقام رنگین اور منقش ا پنے آپ کو بھی اس مقام کے عکس سے رنگین معلوم کیا۔
اس کے بعداسی کیفیت میں اپنے آپ کو لطیف پایا اور ہوا یا بادل کے ٹکڑے کی طرح اطراف میں پھیل گیا اور بعض اطراف کو گھیر لیا اور حضرت خواجہ بزرگ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام میں ہیں بندہ اپنے آپ کو اس کیفیت میں جو عرض کی گئی ہے اس مقام کے مقابل مقام میں پاتا ہے۔
عرض ہے کہ اس عمل یعنی ارشاد کے ساتھ مشغول ہونے کو ترک کرنا پسند نہیں ہوتا کیسے ترک کیا جائے جبکہ جہان گمراہی کے بھنور میں غرق ہوا جاتا ہے اور جو شخص اپنے آپ میں جہاں کواس بھنور سے نکالنے کی طاقت پاتا ہے وہ کس طرح اپنے آپ کو معاف رکھ سکتا ہے ہر چنداور کام در پیش ہوں ۔ اس امر میں مشغول ہونا ضروری اور پسندیدہ ہے لیکن اس شرط پر کہ بعض وسوسوں اور خواہشوں سے جو اس عمل کے اثناء میں ظاہر ہوتی ہیں توبہ و استغفارکو لازم رکھا جائے۔ اسی طرح سے رضا میں داخل ہوجاتا ہے اور اس شرط کے لحاظ کے بغیر رضا میں داخل نہیں ہوتا اور نیچےٹھہر جاتا ہے لیکن حضرت خواجہ نقشبند اور حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس سرہما کے مادہ میں اس شرط کے ملاحظہ کے بغیر یہ عمل پسندیدہ ہے اور اس خاکسار کاعمل اب اس شرط کے ملاحظہ کے بغیر کبھی رضا میں داخل ہے اورکبھی نیچے ٹھہر جاتا ہے۔
دوسری عرض یہ ہے کہ نفحات میں حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمتہ الله علیہ کی باتوں میں مذکور ہے کہ عین نہیں رہتا ہے اثر کہاں رہے۔ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُیہ سخن اول اول نظر میں مشکل ہوا کیونکہ حضرت شیخ محی الدین عربی قدس سرہ اور ان کے تابعدار یہ کہتے ہیں کہ عین کا زائل ہونا جو اللہ تعالی کے معلومات میں سے ایک معلوم ہے۔ محال ہے در نہ علم جہالت سے بدل جاتا ہے اور جب عین زائل نہ ہو۔ اثر کہاں جائے گا اور اسی طرح یہ بات ذہن میں ثابت و برقرار ہوئی تھی۔ حضرت شیخ ابوسعید قدس سرہ کا سخن کچھ حل نہیں ہوتا تھا۔ پوری توجہ کے بعد حق تعالی نے اس فن کا بھید ظاہر فرمایا اور ثابت ہوگیا کہ عین نہیں رہتا ہے نہ اثر اور اپنے آپ میں بھی ان معنوں کو معلوم کر لیا اور کچھ مشکل نہ رہی اور اس معرفت کا مقام بھی نظر آیا۔
یہ مقام اس مقام سے جو حضرت شیخ اور ان کے تابعداروں نے بیان فرمایا ہے بہت بلند ہے۔ یہ دونوں بحثیں ایک دوسرے کے ساتھ کی مخالفت و جھگڑا نہیں رکھتیں۔ ایک الگ جگہ سے ہے اور دوسری الگ مقام سے مفصل عرض کرنا درازی کلام اور رنج کا باعث ہے۔
اور نیز جو کچھ حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کے دوام کی نسبت فرمایا ہے وہ بھی ظاہر ہوا کہ حدیث کس چیز سے مراد ہے اور اس کا دوام کیا ہے اور اپنے آپ میں بھی اس حدیث کو دائمی معلوم کیا اگر چہ یہ شاذ و نادر ہے۔
اور دوسری یہ عرض ہے کہ کتاب کا دیکھنا ہرگز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر وہ کتاب جس میں ان بزرگ مشائخ کے کمالات اور مراتب کا ذکر لکھا ہوا ہے جو مقامات میں واقع ہوئے ہیں۔ اس قسم کی کتاب کا مطالعہ اچھا لگتا ہے اور متقدمیں مشائخ کے احوال بہت پسندیدہ ہیں۔ حقائق اور معارف کی کتابیں اور خاص کر توحید کی باتوں اور مراتب کے تنزلات کو مطالعہ نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ کو اس بارے میں حضرت شیخ علاء الدولہ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ بہت مناسب پاتا ہے اور ذوق و حال میں اس مسئلہ میں شیخ موصوف کے ساتھ متفق ہے لیکن سابقہ علم انکار اور شدت تک آنے نہیں دیتا۔
اور یہ عرض ہے کہ کئی دفعہ بعض امراض کے دور کرنے کے لئے توجہ کی گئی اور اس کا اثر ظاہر ہوا اور ایسے ہی بعض مردوں کے احوال جو عالم برزخ میں ظاہر ہوئے تھے۔ ان کے رنج وتكليف کے رفع کرنے کے لئے بھی توجہ کی گئی لیکن اب توجہ پر طاقت نہیں رہی کیونکہ اب فقیر کسی چیز پر اپنے آپ کو جمع نہیں کرسکتا۔ لوگوں کی طرف سے بعض تکلیفیں فقیر پرگزریں اور انہوں نے بہت ظلم وستم کیے اور اس طرف کے بہت سے متعلقین کو ناحق ویران اور جلاوطن کر دیا لیکن فقیر کے دل پر کسی قسم کا غبار اور رنج نہیں آیا۔ چہ جائیکہ ان کے ساتھ برائی کرنے کا خیال دل میں گزرتا۔
بعض یار جنہوں نے مقام جذبہ سے شہود ومعرفت حاصل کی ہے اور ابھی تک سلوک کی منزلوں میں قدم نہیں رکھا۔ ان کا تھوڑا تھوڑا حال عرض کرتا ہے۔ امید ہے کہ الله تعالی جذبہ کی جہت تمام ہو جانے کے بعدسلوک کی دولت سے مشرف فرمائے گا۔
شیخ نور اسی مقام میں بند ہے اور نقطہ فوق میں جو جذبہ کے مقام میں ہے نہیں پہنچا۔ حرکات وسکنات میں تکلیف دیتا ہے اور وہ اس قباحت و برائی کونہیں سمجھتا۔ بغیر ارادہ کے اس کا کام تو قف میں پڑ جاتا ہے اور ایسے ہی اکثر یاروں کے کام کی رعایت نہ کرنے کی وجہ توقف میں پڑ جاتے ہیں۔ اس بارے میں حیران ہے کہ اس طرف سے کوئی ارادہ ان کے توقف کا نہیں ہے۔ بلکہ ان کا ترقی کا ارادہ ہے ۔ بلا ارادہ ان کے کاموں میں دیر واقع ہوجاتی ہے۔ ورنہ راه تو بہت نزدیک ہے۔
مولانا معہوداخیر نقطے تک پہنچ گیا ہے اور اس نے جذبے کے کام کو پورا کر لیا ہے اور اس مقام کی برزخیت میں پہنچ گیا ہے اور فوق کومن وجہ نہایت تک پہنچایا ہے اول اول صفات کو بلکہ اس نور کو جس سے صفات قائم ہیں اس نے اپنے آپ سے جدا دیکھا اور اپنے آپ کو شیخ فانی معلوم کیا۔ بعد ازاں صفات کوذات سے جدا دیکھا اور اس وید میں مقام جذبہ کی احدیت (ذات پاک کے اُس مرتبہ کو کہتے ہیں جس میں کسی وہم و خیال کسی لفظ کی گنجائش نہیں جس کی تعبیر سے زبان قاصر جس کے ادراک سے عقل عاجز اس لیے اس مرتبہ کے واسطے ایسے نام مقرر ہیں ہے مرتبہ لا تعین مرتبہ مالا بشرط شیئ )تک پہنچ گیا اب اپنے آپ کو اور جہان کو ایسا گم کیا ہے کہ نہ احاطہ کا قائل ہے اور نہ معیت کا اور بطنوں کے بطن کی طرف ایسا متوجہ ہے کہ حیرت اور نادانی کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں۔
سید شاه حسین بھی مقام جذبہ سے اخیر نقطہ تک پہنچ گیا ہے اور اس کا سر نطقہ تک پہنچ گیا ہے اور ایسے ہی صفات کوذات سے جدا دیکھتا ہے لیکن خدا احد کوسب جگہ پاتا ہے اور ظہور سے محظوظ ہے اور ایسے ہی میں جعفر بھی اخیری نقطہ کے نزدیک پہنچ گیا ہے اور بہت شوق دلولہ اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ شاہ حسین کے قریب قریب ہے اور دوسرے یاروں میں بھی فرق ظاہر ہوجاتا ہے۔
میاں شیخی اور شیخ عیسی اورشیخ کمال جذ بہ میں نقطہ فوق تک پہنچ گئے ہیں اور شیخ کمال بھی نزول کی طرف متوجہ ہے اور شیخ ناگوری نقطہ فوق کی تہہ میں آیا ہوا ہے لیکن ابھی بہت سفر در پیش ہے اور یہاں کے یاروں میں سے اب تک آٹھ یا نو بلکہ دس آدمی نقطہ فوق کی تہہ میں آئے ہوئے ہیں بعض نقطہ سے واصل ہو کر نزول کی طرف متوجہ ہیں بعض دوسرےیار قریب ہیں اوربعض بید۔
میاں شیخ مزمل اپنے آپ کو گم پاتا ہے اور صفات کو اصل سے دیکھتا ہے اور مطلق کو سب جگہ پاتا ہے اور اشیاء کو سراب کی طرح بے اعتبار جانا ہے بلکہ یہ معلوم کرتا ہے۔
مولانامذکور کے بارے میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا لوگوں کو تعلیم کے لئے اجازت دینا دل پسند ہے لیکن وہ اجازت جو جذبہ کے مناسب ہے اگر چہ بعض امور باقی رہ گئے ہیں جن کا اس کو استفادہ کرنا ضروری تھا لیکن روانہ ہونے کی جلدی کی اور وقف نہ کیا۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوتا ہے جس طرح اس کے کام کی بہتری سمجھیں گے حکم فرمائیں گے ۔ جو کچھ اس کمینہ کے علم میں تھاعرض کر دیا گیا۔ والحکم عندکم اور حکم آپ ہی کا ہے) خواجہ ضیاء الدین محمد چند روز تک یہاں رہا کچھ حضور و جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا)حاصل کی تھی آخر اسباب معیشت کی کمی کی وجہ سے اپنے آپ کو خاطر جمع نہ رکھ سکا۔ اس وا سطے لشکر کی طرف متوجہ ہوا اور مولانا شیر محمد کا لڑکا بھی ملازمت کی طرف متوجہ ہے۔ قدرے حضور و جمعیت رکھتا ہے بعض رکاوٹوں کی وجہ سے زیادہ ترقی نہ کر سکا۔ زیادہ لکھنا گستاخی ہے ع
بنده باید که حد خود داند چاہئے بندہ کو اپنی حد پہنچانے
عریضہ لکھنے کے بعد ایک ایسی کیفیت ظاہر ہوئی اور ایسا حال پیش آیا جس کا بیان تحریر میں نہیں آ سکتا اور اس حال میں فناۓ ارادی ثابت ہوئی جیسا کہ پہلی مرادوں سے ارادے کاتعلق برطرف ہوا تھا ۔ لیکن اراده اصل باقی تھا جیسا کہ عریضہ میں عرض کیا گیا تھا اب ارادہ بھی دور ہوگیا ہے اور اس وقت نہ مراد باقی رہی ہے اور نہ ارادہ ۔ اور اس فناکی صورت بھی نظر آئی اور بعض علوم جو اس مقام کے مناسب ہیں۔ فائض ہوئے چونکہ ان علوم کا بار یکی اور پوشیدگی کی وجہ سے لکھنا دشوار تھا اس و اسطے قلم کی باگ ان علوم کے لکھنے سے روک لی اور اس فنا کے ثابت ہونے اور علوم کے فیضان کے وقت وحدت کے پر ے ایک خاص نظر ظاہر ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ بات ثابت ہے کہ وحدت کے ماوراء کوئی نظر بلکہ کچھ نسبت نہیں ہے لیکن بندہ جو کچھ پاتا ہے عرض کرتا ہے اور جب تک یقینی طور پر ثابت نہیں ہوا لکھنے میں جرأت نہیں کی اور اس مقام کی صورت وحدت کے پرے اس طرح دیکھتا ہے نہ اس کا ماوراء اور نہ کوئی ایسا مقام جو حقیقت کے طور پر جانے یا حق کو اس کے ماوراء جانے حیرانی اور نادانی اسی طرح صاف ہے اور اس دید سے کچھ فرق نہیں ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ کیا عرض کروں سب تناقض در تناقض ہے جو کہنے میں نہیں آتا اور حال بے شبہ ثابت ہے استغفرالله واتوب إلى الله من جميع ما كره الله قولا و فعلاخاطر اوناظرا (اللہ سے میں بخشش مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں ان تمام قول فعل و ارادہ نظر سے جس کو اللہ مکر وہ جانتا ہے۔)
اور نیز اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ پہلے جو کچھ فنائے صفات سے جانتا تھا حقیقت میں صفات کی خصوصیت اور ان کے مابه الا متیاز کی فنا تھی جو وحدت کے ضمن میں مندرج ہوئی تھی اور خصوصیتیں دور ہوگئی تھیں۔ اب اصل صفات بھی اگرچہ ایک دوسری میں ملتے رہنے کے طریق پر ہوں برطرف ہوگئی ہے اور حاکم احدیت نے کسی چیز کونہیں چھوڑا اور وہ تمیز جوعلم اجمالی یا تفصیلی کے مرتبہ سے حاصل ہوئی تھی نہ رہی اور تمام خارج پر آ گئی۔ اب كان الله ولم يكن معه شئى وھوالأن كما كان (اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی اور اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ تھا) حال کے مطابق ہوگیا ہے اور پہلے اس حدیث کے مضمون کا صرف علم ہی تھانہ کہ حال لیکن اب علم وحال دونوں جمع ہیں ۔ امید ہے کہ صحت و غلط پرآگاہ فرما دیں گے۔
دوسرا ایسا معلوم ہوا ہے کہ مولانا قاسم علی کو مقام تکمیل سے حصہ حاصل ہے ایسے ہی یہاں کے بعض یاروں کو بھی اس مقام سے حصہ حاصل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ والله سبحانہ أعلم بحقيقة الحال (اور حقیقت حال کو الله تعالی ہی جانتا ہے)۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ58 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی
“اپنے آپ کو قاصر اور تہمت زده جاننے کا مقام مکتوب نمبر 11دفتر اول” ایک تبصرہ