محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اڑتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن والثلاثون فی فضل لا الہ الا اللہ ‘‘ ہے۔
منعقدہ 7ر جب 545 بروز اتوار بوقت صبح بمقام خانقاہ شریف
افضل الذکر کی کثرت شیطان کو بلا کر دیتی ہے:
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: أضعفوا شياطينكم يقول لا إله إلا الله محمد رسول الله فإن الشيطان يضعف بها كما يضعف -أخذكم بعيره بكثرة ركوبه وشيل أحماله عليه و ( أفضل الذكر لا إله إلا الله محمد رسول اللہ سے شیطانوں کو دبلا کرو، کیونکہ شیطان اس سے دبلا ہو جا تا ہے۔ جیسے کوئی اپنے شریر اونٹ کو بکثرت سوار ہونے اور بکثرت بوجھ لادنے سےد بلا کرتا ہے ۔“ اے لوگو! تم محض لا اله الا اللہ ہی کہنے سے اپنے شیطان کود بلا نہ کرو بلکہ یہ الفاظ اخلاص کے ساتھ ادا کر کے شیطان کو د بلا کرو، توحید الہی انسان اور جن کے شیطانوں کو جلا ڈالتی ہے، کیونکہ توحید شیطانوں کے لئے آگ اور توحید والوں کے لئے نور ہے تو کس زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہے جبکہ تو اپنے دل میں بے شمار معبودر کھے ہوئے ہے ذات الہی کے علاوہ تو جس پر بھروسہ یا اعتماد کرتا ہے، وہی بت ترا معبود ہے، زبان سے توحید کا اقرار تجھے دل کے شرک کی ساتھ کچھ فائدہ نہ دے گا دل میں نجاست ہو تو جسم کی پاکی بے کار ہے ۔توحید والا اپنے شیطان کود بلا کرتا ہے، جبکہ مشرک کو اس کا شیطان دبلا کرتا ہے ۔ سب باتوں اور سب کاموں کی جان اور مغز اخلاص ہے، کیونکہ اخلاص سے خالی دل ایسے ہی ہے جیسے کوئی پوست مغز کے بغیر ہو، چھلکا تو صرف جلانے ہی کے کام آتا ہے ۔ اے مخاطب ! میری بات سنو، اور اس پر عمل کرو، ایسا کرنے سے تمہاری طبعی آگ سرد ہوگی ، اور تمہارے نفس کی شان کو توڑ ڈالے گا ۔ ایسی جگہ نہ جا جہاں تیرے تن کی آگ بھڑک اٹھے، اور تمہارے دین اور ایمان کا گھر برباد ہو جائے ، طمع ، اور حرص اور شیطان بھڑک اٹھے تو تمہارے دین اور یقین اور ایمان کو برباد کر دیں گے، ان منافقوں، بناوٹ کرنے والوں ، اورملمع سازوں کی باتوں پر کان مت دھرو کیونکہ طبیعت ملمع کی ہوئی ،حرص والی اور بناوٹی باتوں کی طرف کھینچتی ہے، جس طرح کہ نمک کے بغیرخمیرے آٹے کی روٹی پیٹ میں تکلیف کرتی ہے اور خانہ جسم کو تباہ کر دیتی ہے۔
علم کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا ، کامل مردان خدا کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، یہ کامل مردکون ہیں ، مردان خدا ہیں! – پر ہیز گار، دنیا سے رغبت نہ کرنے والے، نبیوں کے وارث ، عارف ، عامل اورمخلص، تقوی کے سواسب کچھ حرص اور بے کار ہے۔ دنیا اور آخرت میں ولایت پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔ دنیا اور آخرت میں بنیاد اور عمارت انہی کے لئے ہے ۔ ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے پر ہیز گاروں ،توحید والوں اور صابروں کوہی پیار کرتا ہے۔ اگرتیرادل صحیح ہوتا تو ان مردان حق کو پہچان لیتا اور ان سے پیار کرتا، ان کی صحبت میں بیٹھتادل اگر اللہ کی معرفت سے روشن اور منور ہو، توہی طبیعت درست ہو سکتی ہے۔ دلی سکون اس وقت تک میسر نہ ہو گا تاوقتیکہ اللہ کی معرفت صحیح نہ ہو جائے ، اور اس کی طرف سے صحت اور بھلائی نہ آ جائے ، حرام چیزوں سے آنکھیں بند کر اور نفس کو شہوتوں سے روکے رکھے۔ نفس کو حلال لقمے کی عادت ڈال، مراقبہ الہی سے اپنے باطن کی حفاظت کر ، اور سنت نبوی ﷺ سے ظاہر کی حفاظت کرے ۔ اس حالت میں تیری خاطر صحیح ثواب والی ہوگی ، اور اللہ کی معرفت بھی صیح طرح سے حاصل ہوگی ، ۔ میں تو عقلوں اور دلوں کی تربیت کرتا ہوں نفسوں طبیعتوں اور عادتوں سے مجھے کچھ غرض نہیں ، نہ ہی ان کی کوئی خوبی والی بات ہے ۔
ایمان کا ایک حصہ مہر میں اور دوسرا شکر میں ہے:
اسے بیٹا علم سیکھ اور مخلص بن! تا کہ نفاق کی قید اور جال سے رہائی ملے تو علم کو خلقت اور دنیا کے لئے نہ حاصل کر، بلکہ اللہ کے لئے حاصل کر ۔ اللہ کے لئے علم سیکھنے کی علامت یہ ہے کہ امر ونہی کے وقت تجھے اللہ کا ڈراوراسی کا خوف ہو، اللہ کی طرف متوجہ رہ اور اس کے لئے اپنے نفس کو ذلیل کر بغیرکسی لالچ اور طمع کے خلقت کی تواضع کر اللہ ہی کے لئے دوستی کر اس کے لئے دشمنی کرغیر اللہ کے لئے جو دوستی ہو وہی دشمنی ہے۔ غیر اللہ کے لئے استقامت زوال کا موجب ہے۔ غیر اللہ کے لئے دینا محرومی کا باعث ہے،رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
الْإِيمَانُ نِصْفَانِ نِصْفٌ شُكْرٌ، وَنِصْفٌ صَبْرٌایمان کے دو حصے ہیں: ایک حصہ صبر اور ایک حصہ شکر ہے ۔“ مصیبت میں صبر اورنعمت پر شکر نہیں تو ایمان والا نہیں ، اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے اگراس کی رضا پر راضی رہے۔ اللهم أحيي قلوبنا بالتوكل عليك بالطاعة لك بالذكر لك بالموافقة لك بالتوحيده ” الہی! ہمارے دلوں کو اپنے توکل اور اپنی اطاعت اور اپنے ذکر اور اپنی موافقت اور اپنی توحید کے ساتھ زندہ کر اللہ کے ایسے خاص بندے کہ جن کے دلوں میں ایسی زندگی ہے ، اگر روئے زمین پر نہ پھیلے ہوئے ہوتے تو تم سب کا ہلاک ہو جانایقینی تھا۔ کیونکہ ان کی دعا کی بدولت اللہ تعالی زمین والوں سے عذاب ٹال دیتا ہے ۔ ظاہری طور پر نبوت اٹھ گئی ہے مگر اس کے معنی قیامت تک باقی رہیں گے ورنہ زمین کس طرح سے اور کیونکر ہاتی رہتی ۔ زمین پر چالیس ابدال ( ہر وقت موجود رہتے ہیں ، ان میں سے بعض وہ ہیں جن میں نبوت کے معنی میں سے معنی موجود ہیں ، ان کے دل نبیوں کے دلوں جیسے ہیں ۔ انہیں میں سے اللہ اور اس کے رسولوں کے خلیفے زمین پر ہیں۔ اللہ تعالی نے علماء کو نیابت میں استادوں کا قائم مقام بنادیا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَا (باعمل ) علماء ( ہی ) نبیوں کے وارث ہیں۔‘‘
وہ حفاظت اور عمل اور قول و فعل میں نبیوں کے سچے وارث ہیں ۔ فعل کے بغیر قول کے کچھ معنی نہیں ، اور گواہوں کے بغیر دعوی سننے کے لائق نہیں ۔
اے بیٹا! قرآن وسنت دونوں تیرے گواہ ہیں ، ان دونوں پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنالے۔ میں تمہارے عالموں کو جاہل اور زاہدوں کو دنیا کی طلب کرنے والے، دنیا میں رغبت کرنے والے خلقت پر بھروسہ کرنےوالے اور اللہ کوبھول جانے والے دیکھ رہا ہوں ۔ اللہ کے سوا اوروں پر بھروسہ کر نالعنت کا باعث ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: لعنتی ہے لعنتی ہے جو اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ کرے۔ من تعزز بمخلوق فقد ذل و – ملعون ملعون من كانت ثقته بتخله
جومخلوق سے عزت چاہے، دو ذلیل ہے ۔‘‘
مصائب پر بے صبری سے نہ دین رہے نہ ایمان:
تجھ پر افسوس ہے جب تو خلقت سے نکلے گا تو خالق کے ساتھ رہے گا ،اپنے نفع اور نقصان کو جان لے گا ، اپنے اور بیگانے کے فائدے کی تمیز ہوگی ، اللہ کے دروازے پر ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ رہو، اپنے دل سے اسباب کو دور کر دے، دنیا و آخرت کی بھلائی دیکھ لے گا ۔ جب تک خلقت یا آخرت اور ماسوی اللہ اور ریاکاری کو دل سے نکال نہ دے، اور ان میں سے کسی کا ایک ذرہ بھی دل میں نہ ر ہے ، تب تک یہ مقام نہیں پاسکتا، جب تو مصائب پر صبر نہ کرے گا ، نہ تیرادین رہے گا۔ نہ ایمان، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِصبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ‘‘
صبر کے معنی ہیں کہ تو کسی سے گلہ شکوہ نہ کرے۔ کسی سبب سے واسطہ نہ رکھے ،کسی مصیبت کے آنے کو نا پسند نہ کرے،ان کے زوال کو پسند نہ کرے
فقر اور فاقے کی حالت میں جب بندہ اللہ کے لئے تواضع کرے، اپنی مراد پر اس کے ساتھ صبر کرے، کسی مباح معاش سے عاروانکار نہ کرے، عبادت اور کسب میں رات دن ایک کر دے ایسےشخص کو اللہ تعالی نظر رحمت سے دیکھتا ہے، اس کے اہل خانہ کواس طرح سے غنی کر دیتا ہے کہ جس کا اسےکبھی خیال بھی نہ آیا ہو، ارشاد باری تعالی ہے : ، وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (٢) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ” جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کشائش کر دیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جس کا بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا ۔ تیری مثال پچھنے لگانے والے کی ہے جو دوسرے کی بیماری کو خارج کرتا ہے اور جو بیماری اس کے اندر ہے اسے نہیں نکالتا، میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ تو ظاہری علم میں ترقی کر رہا ہے جبکہ باطن میں صرف جاہل ہے۔ توریت میں لکھا ہے کہ
من ازداد علما فليزدد وجعان جوعلم میں ترقی کرے، اس کا درد بھی بڑھنا چاہئے ۔یہ درد کیا ہے! – اللہ تعالی سے خوف اور اللہ اوراس کے بندوں کے لئے عاجزی کرنا، اگر تجھے علم نہیں تو علم سیکھے۔ جب تجھے علم نہیں تو عمل کیسے ہوگا ، جب اخلاص اور ادب اور مشائخ کے ساتھ حسن ظن نہیں، تو تجھے کچھ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے، تو نے دنیا اور اس کے مال کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے۔ جلد ہی تیرے اور دنیا کے بیچ میں حجاب آ جائے گا ، اولیاء اللہ سے تجھے کیا نسبت!
وہ اپنے باطن اور ظاہر میں صرف اللہ کا مراقبہ کرتے ہیں، دلوں کو مہذب بناتے ہیں جیسے ظاہری اعضاء کو تہذیب سکھاتے ہیں۔ ان کی یہ حالت جب کامل ہو جائے تو انہیں سب خواہشوں سے کفایت کرتی ہے پھر ان کے دل میں صرف ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے اور وہ ہے صرف اللہ کی طلب اور اس کی قربت ومحبت!
مسکینوں کو راضی کرنے میں اللہ کی رضا پنہاں ہے:
حکایت ہے کہ بنی اسرائیل پر ایک بار کوئی آفت آئی ۔ تمام قوم اپنے اس وقت کے نبی کے پاس آئی اور کہنے گی ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جس پر ہمارے عمل کرنے سے اللہ کی ذات ہم سے راضی ہو جائے ، اور ہم پر آئی ہوئی آفت ٹل جائے ۔“ اللہ کے اس نبی نے اللہ تعالی سے اس بارے میں دریافت کیا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس نبی پروحی بھیجی: بنی اسرائیل سے کہہ دیں کہ اگر میری رضا چاہتے ہو تو مسکینوں کو راضی کرو ۔ اگر انہیں راضی کرلو گے تو میں تم سے راضی ہو جاؤں گا ، ۔ اگر انہیں ناراض کیا تو میں بھی ناراض ہو جاؤں گا ۔‘‘ اے غافلوسنو! تم ہمیشہ مسکینوں کو ناراض کرتے ہو، اور اللہ کو راضی بھی کرنا چاہتے ہو، ایسی حالت میں وہ تم سے راضی نہ ہوگا، بلکہ اس کی ناراضی میں کروٹیں لیتے رہو گے، نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری سخت کلامی پر ثابت قدم رہو، ثابت قدم رہنا ہی ثمر بار ہے، یہ مشائخ کے کلام اور ان کی سختی اور تندی سے بھی نہ بھا گتا تھا بلکہ اندھا اور گونگا بن جایا کرتا، ان کی سختیوں پر خاموش رہتا تھا، تو ان کی باتوں پر بھی صبر نہ کرتا اور یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح کی نجات مل جائے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے والا ، نہ ہی اس میں کوئی عزت ہے۔ جب تک اپنے نفع و نقصان کے معاملے میں تقدیر الہی کی موافقت نہ کرے گا۔ جب تک اپنے حصے اور نصیب کی تہمتوں سے خلاصی نہ پائے گا۔ جب تک مشائخ کی صحبت اختیار کر کے ان کی اتباع اور موافقت نہ کرے گا۔ تجھے فلاح نہ ملے گی ، جیسا کرنے کے لئے تمہیں کہا ہے، اس پر عمل کر کے ہی دنیا و آخرت کی فلاح مل سکے گی ۔ جو کچھ میں تم سے کہ رہا ہوں ، اسے سمجھو اور اس پرعمل کر و عمل کے بغیر کسی بات کا سمجھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اخلاص کے بغیر عمل لالچ کے سوا کچھ نہیں ملمع کے سارے حرف خالی ہیں ، ان میں کوئی نقظہ نہیں عام لوگوں کو تیرے کھوٹ کی پہچان نہیں ، سنار ہی تیرے کھوٹ سے لوگوں کو آگاہ کرے گا تا کہ تیرے شر سے بچے رہیں ۔ اگر تو اللہ کے ساتھ صبر کرتا تو اس کے عجیب عجیب لطف کے نظارے کرتا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب گرفتاری اور غلام اور اسیری اور ذلت پر صبر کیا ، اور اپنے رب کے فعل کے موافق رہے تو آپ کی شرافت اور نجابت صحیح ثابت ہوئی تو آپ بادشاہ بن گئے ۔ ذلت سے عزت کی طرف اور موت سے زندگی کی طرف لوٹائے گئے ، اسی طرح اگر تم شریعت کی تابعداری کرو، – اللہ کے ساتھ صبر کرو،اس سے ڈرو، اس سے امید رکھو، اپنے نفس اور خواہش اور شیطان کی مخالفت کرو، تو جس حالت میں ہو، اس سے دوسری حالت میں بدلے جاؤ جس چیز کو نا پسند کرتے ہو، اس کی جگہ پسند کی چیز عطا کی جائے گی ، کوشش کر اور مشقت اٹھا، تجھ سے کچھ نہیں ہوتا ، جبکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے ، کوشش کرنے سے بھلائی ۔ حاصل ہو جائے گی ، جسے طلب ہوتی ہےوہ کوشش کرے تو مطلوب کو پا سکتا ہے حلال کا لقمہ کھانے کی کوشش کر یہ دل کو روشن کرتا ہے، دل کی تاریکیاں دور کرتا ہے، جوعقل: – اللہ کی نعمتوں کی پہچان کرائے، ان کے شکر کی توفیق دلائے ، اس کی نعمتوں کا اقرار کرائے ، نعمتوں کی قدر پر مدد کرے، وہ عقل فائدہ کرنے والی ہے۔
اللہ نے سب چیزیں بانٹ دی ہیں:
بیٹا! جس نے یقین کی آنکھ سے پہچان لیا کہ اللہ تعالی نے سب چیز یں بانٹ دی ہیں اور ان سے فارغ ہو چکا ہے، تو وہ حیا کرتے ہوئے اس سے کچھ نہیں مانگتا ۔ اپنے مطالبے کو چھوڑ کر اس کے ذکر میں لگ جاتا ہے، نہ اپنے نصیب کے لئے سوال کرتا ہے نہ ہی دوسروں کے نصیب کے لئے سوال کرتا ہے۔ وہ گمنامی میں سکون پاتا ہے ، حسن ادب کو اپنا کر اعتراض اٹھانا چھوڑ دیتا ہے، کم یا زیادہ کے بارے میں خلقت سے گلہ نہیں کرتا ۔ خلقت سے گدا گری دل کے ساتھ ایسے ہے جیسے زبان سے ہو ۔ دراصل میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ تجھ پرافسوس! اللہ کے غیر سے سوال کرتے ہوئے ذرا شرم نہیں کرتا ، حالانکہ اوروں کی نسبت وہ تجھ سے زیادہ قریب ہے ، خلقت سے اس شے کا طالب ہے جس کی تجھے کوئی حاجت نہیں ۔ تیرے پاس بڑاخزانہ ہے ، پھر بھی ایک دانے اور ایک ذرے پر فقیروں سے الجھتا ہے، مرنے پر تیری رسوائی ہوگی تیرے پیچھے عیب کھل جائیں گے ، ہر طرف سے پھٹکار پڑے گی۔ اگرتجھے عقل ہوتی تو ایمان کا ایک ذرہ حاصل کر لیتا، اور اس کے ذریعے اللہ سے مل جاتا ۔ نیک لوگوں کی صحبت میں رہتا اور ان کے اقوال اور افعال سے ادب سیکھتا۔ حتی کہ تیرا ایمان قوی اور یقین کامل ہو جا تا ،اللہ تعالی تجھے اپنا مخلص بنالیتا۔ ادب اور امر و نہی پر تیرا جوعمل دل سے ہوتا ، اس کا والی وکارساز بن جا تا ۔ اے ریا کاری کے بت کو پوجنے والے! تو دنیا و آخرت میں قرب الہی کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا، اے خلقت کو اللہ کا شریک سمجھنے والے! دلی طور پر اس کو چاہنے والے ! ، تو خلقت سے منہ پھیر لے کیونکہ ان سے نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان ، نہ کوئی عطا ہے نہ کوئی محرومی ! دل میں رچے ہوئے شرک کے ساتھ اللہ کی توحید کا کوئی ذکر ، اس سے تیرے ہاتھ کچھ نہ آئے گا، ایسا دعوی کرناکسی کام کا نہیں۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 260،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 145دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان