ایمان حقیقی

ایمان حقیقی کا حاصل ہونا آفاقی اور انفسی دونوں قسم کے معبودوں کی نفی پر وابستہ ہے لیکن ظاہر شریعت کے حکم میں صرف آفاقی معبودوں یعنی کافروں اور فاجروں کے معبودوں کی نفی کرنے سے ایمان ثابت ہو جاتاہے یہ ایمان کی صورت ہے ہےلیکن ایمان کی حقیقت انفسی معبودوں یعنی خواہشات نفسانی کی نفی پر موقوف ہے صورت ایمان ان کے لیئے تو زائل ہونے کا احتمال ہے ہے لیکن حقیقت ایمان اس احتمال سے محفوظ ہے

حضرات صوفیاء کرام کے نزدیک صورت ایمان ، تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان ہے ، اور حقیقت ایمان اطمینان نفس ہے اطمینان نفس سے مراد یہ ہے کہ مقتضائے شریعت مقتضائے طبیعت بن جائے یعنی نفس اس درجہ کا مطمئن ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہر حکم اس کو لذیذ اور شیریں معلوم ہونے لگے ، اور اس کی معصیت اور نافرمانی کا ادنی سا خیال اور معمولی سا وسوسہ بھی آگ میں جلنے سے بدرجہا زیادہ شاق وگراں نظر آنے لگے۔ مندرجہ ذیل نصوص سے حقیقت ایمان مراد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا امنوا “۔ (سورة النساء آیت : ١٣٦)
(آیت) ” یایتھا النفس المطمئنۃ “۔ الفجر : ٢٧) ترجمہ (ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح ۔
(آیت) ” ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم “۔ (سورة الحجرات آیت : ٧) ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں اچھا کر دکھایا ہے۔
مدار نجات :۔ مدار نجات کے لیے ایمان صوری ضروری ہے نہ کہ حقیقی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں