بارہویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بارہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثانی عشر فیی النھی عن الطلب من غیر اللہ ‘‘ ہے۔

 منعقدہ 2  ذیقعدہ 545 بروز اتوار بوقت صبح ، بمقام : خانقاہ شریف

 دنیا کے طالب کثیر ہیں ، آخرت کے طالب قلیل :

اے بیٹا! اللہ کے لئے نہ تیری ارادت صحیح ہے، اور نہ ہی تیرا حقیقت میں کچھ اس کا ارادہ ہے ۔ کیونکہ جو بندہ اللہ کی محبت کا دعوے دار ہو اور اس کے غیر کا بھی طالب ہو، اس کا دعوی باطل ہے ، خلقت میں دنیا کے طالب کثیر ہیں اور آخرت کے طالب قلیل ، – اللہ کے حقیقی ارادے والے مرید تھوڑے سے بھی تھوڑے ہیں، وہ اپنی قلت اور نایابی میں کبریت احمر( کبریت احمر سرخ گندھک جو پارے کو خالص سونا بناتی ہے ۔) کی طرح ہیں ، بلکہ شاذ و نادر ، اور ایک آدھ ہی بازیاب ہے، وہ قبائل کے جھگڑے مٹانے والے ،زمین کے معدن اور اس میں حکومت کر نیوالے ہیں ، شہروں اور ان میں بسنے والوں کے کوتوال ہیں ۔ ان کے ذریعے خلقت سے بلا دور ہوتی ہے،  انہیں کے طفیل اللہ تعالی آسمان سے بارش برساتا ہے، ۔ انہیں کے سبب سے زمین سبزہ زار رہتی ہے۔

وہ اپنے حال میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی طرف ، ایک شہرسے دوسرے شہر کی طرف، ایک ویرانے سے   دوسرے ویرانے کی طرف بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جو کبھی مشہور ہو جاتے ہیں، جہاں پہچان لئے جائیں وہاں سے چل دیتے ہیں، سب سے منہ موڑ لیتے ہیں، دنیا کی کنجیاں ، دنیا والوں کو سونپ دیتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے گرد خدائی قلعے بن جاتے ہیں ۔ الطاف ربانی کی نہریں ان کے دلوں کی طرف جاری ہوتی ہیں، لشکر الہی حفاظت کے لئے ان کو گھیرے میں لے لیتا ہے، ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ نگہبانی کی جاتی  ہے سب کا اعزاز واکرام کیا جا تا ہے ۔ انہیں خلقت پر حاکم بنا دیا جاتا ہے، یہ سب باتیں ان کی عقلوں سے باہر ہیں۔ایسے میں ان پر خلقت کی طرف توجہ کرنا فرض ہو جاتا ہے، وہ طبیب ہیں، باقی مخلوق مریض بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو دعوی کرتا ہے کہ میں ان میں سے ہوں ، بتا

تجھ میں ان کی کیا علامت ہے،  اللہ کے قرب ولطف کی کیا علامت ہے۔ اللہ کے پاس تیرا کیا مقام اور منزل ہے۔ عالم بالا میں تیرا کیا نام اور لقب ہے۔تیرا دروازہ کس حال پر بند کیا جا تا ہے۔ تیرا کھانا پینا مباح ہے یا خالص حلال ،  تیری خواب گاہ دنیا ہے یا آخرت ،یا قرب الہی، تیری رات کہاں گزرتی ہے، وحدت میں تیرا ہم نشیں کون ہے،خلوت میں تیراغم خوارکون ہے، اے جھوٹے ،وحدت میں تیرا ہم نشین تیر انفس اور شیطان اور حرص اور دنیا کی فکر ہے ، اور بزم میں انسانی صورت والے شیطان غم خوار ہیں، وہ برے دوست ہیں ، بہت بکواس کرنے والے تیرے دوست ہیں ، یہ مقام ومرتبہ ولایت محض دعوی کرنے سے اور فضول باتوں سے حاصل نہیں ہوتا، اس بارے میں تمہاری گفتگومحض حرص ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ، اللہ کے حضور خاموش اور گمنام رہو، اس کے سامنے کسی طرح کی بے ادبی سے گریز کر و، اگر اس بارے میں تم کوئی بات کرنا ضروری سمجھتے ہو تو تیری بات اللہ اور اللہ والوں کے ذکر سے برکت حاصل کرنے کے انداز پر ہو، کیونکہ تیرا دعوی تو ظاہری طور پر ہے اور تیرادل معرفت سے خالی ہے ۔ ہر ظاہر جس کی باطن سےیگا نگت نہ ہو ، وہ ظاہری وضع قطع جھوٹی اور بکواس ہے، کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ‌مَا ‌صَامَ ‌مَنْ ‌ظَلَّ ‌يَأْكُلُ ‌لُحُومَ ‌النَّاسِ-’’اس نے روزہ نہیں رکھا جو روزے میں لوگوں کا گوشت کھائے ۔ حالانکہ رسول اللہ  ﷺ نے واضح طور پر ارشاد فر مایا کہ روزہ، کھانے پینے اور ترک جماع کا نام نہیں ، بلکہ روزے میں گناہوں سے بچنا ضروری ہے ۔

غیبت سے بچو! کیونکہ غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے لکڑی کو آ گ جلاتی ہے ۔ اس کے نصیب میں فلاح ونجات ہے جس نے غیبت کو چھوڑ دیا ، اور جو غیبت کرنے میں مشہور ہو جائے ، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتاہے شہوت کی نظر سے نہ دیکھو، کیونکہ وہ دلوں میں گناہ کابیج بوتی ہے، ایسی نظر والے کا انجام نہ دنیا میں اچھا ہے نہ آخرت میں –

جھوٹی قسم سے بچو! کیونکہ وہ اپنے گھر ویران کر دیتی ہے، جھوٹی قسم سے مال اور دین کی برکت ختم ہو جاتی ہے

تجھ پرافسوس ہے کہ جھوٹی  قسم کھا کر اپنا  مال بیچتاہے اور اپنے دین کا نقصان کرتا ہے، اگرتجھے سمجھ ہوتی تو سمجھتا کہ اصل نقصان یہی ہے اور تو کہتا ہے: خدا کی قسم! میرے مال جیسا مال سارے شہر میں نہیں ہے، اور نہ کسی اور کے پاس موجود ہے۔ خدا کی قسم یہ اتنی اتنی قیمت کا ہے اور مجھے اتنے میں پڑا ہے ۔حالانکہ تم اپنی سب باتوں میں جھوٹے ہو، اور پھر جھوٹا گواہ بھی لاتے ہو، اور خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ میں سچا ہوں، عنقریب تجھ پر مصیبت آئے گی ، تو اندھا اورا پاہچ ہو جائے ،  اللہ تم پر رحم فرمائے اللہ کے حضور با دب رہو ۔ جس نے شرعی آداب سے ادب نہ سیکھا  قیامت کے دن دوزخ کی آگ اسے ادب سکھائے گی۔ یہ بیان سن کر آپ ( حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ) سے کسی نے پوچھا جس شخص میں یہ پانچوں بد خصائل ہوں ، یا ان میں سے بعض ہوں ، کیا اس کے روزے اور وضو کے باطل ہونےکا حکم لگایا جائے گا ؟‘‘ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا: ’’اس کا روزہ اور وضوتو باطل نہ ہوگا لیکن ہمارا وعظ نصیحت کے انداز میں ڈرانے اور خوف دلانے کے لئے ۔

کل کا کیا بھروسہ، پھر یہ غفلت کیسی اور کیوں ہے

 اے بیٹا! شائدکل کا دن اس حال میں آئے کہ تو سطح زمین سے گم ہو جائے ، اور زمین کے نیچے قبر میں جاسوئے ۔یا شائد دوسری گھڑی میں ہی ایسا ہو جائے   کل کا بھی کیا بھروسہ، پھر یہ غفلت کیسی اور کیوں ہے؟ کس چیز نے تمہارے دل کو سخت کردیا ہے  تم پتھر ہو تم کون ہو؟ ۔ میں بھی تم سے کہہ رہا ہوں اور  دوسرے بھی  مگر تم ایک ہی جگہ پر ٹکے ہو  تم پر قرآن بھی پڑھا جاتا ہے اگلے لوگوں کے قصے سنائے جاتے ہیں ،  رسول پاک کی حدیثیں سنائی جاتی  ہیں مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ، نہ ہی تم بدلتے ہو اور نہ ہی ڈ ر تے ہو اور نہ ہی تمہارے عمل بدلتے ہیں ، جوشخص مجلس وعظ میں حاضر ہواور : – غیرت حاصل نہ کرے، نصیحت قبول نہ کرے جان لو! وہ ایک بہترین جگہ پر تو ہے مگر اچھی جگہ والوں میں سب سے برا ہے۔

اولیاء اللہ کوحقارت سے دیکھنا تیری کم نگاہی ہے:

اسے بیٹا! اولیاء اللہ کو حقارت سے دیکھنا تیری کم نگاہی ہے ۔تجھے معرفت الہی حاصل ہوتی تو ان کے مقام کوسمجھتا اور مرتبہ سے واقف ہوتا ۔ تجھے اعتراض ہے کہ یہ لوگ تہمت لگائے گئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ کیوں نہیں ملتے جلتے ، ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے ،  

تیرا یہ کہنا اس لئے ہے کہ تو خود اپنے ہی نفس سے جاہل ہے، جب تجھے اپنے نفس کی پہچان کم ہے تولوگوں کے مرتبہ کی پہچان بھی کم ہوگی ، اس لئے تو غافل ہے، تجھے دنیا اور اس کے انجام کی معرفت جس قدر کم ہوگی ، اس قد رآ خرت کےانجام کی معرفت کم ہوگی ، اور آخرت کی معرفت جس قدر کم ہوگی ،اسی قد رذات الہی سے جاہل رہے گا ۔ اے دنیا میں مشغول ہونے والے! – عنقریب قیامت کے دن تیرا نقصان اور ندامتیں تجھ پر ظاہر ہو جائیں گی ۔ قیامت کا دن، ہار جیت کا دن ہے، رسوائی اور شرمندگی کا دن ہے۔ نقصان اور خسارے کا دن ہے، قیامت کے دن سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے، تجھ پر اللہ کا جو کرم ہے اور نرم رویہ ہے، اس سے کچھ گمان نہ کر خطاؤں اور نافرمانیوں سے تمہاری بہت بری حالت ہے، گناہ اور نافرمانیاں بندے کو کفر تک لے جاتے ہیں، جیسے بیماری موت کا پیغام لاتی ہے۔ تجھے چاہئے کہ موت کے آنے سے پہلے تو بہ کرے، موت کے فرشتے کے آنے سے پہلے اللہ سے رجوع کر لے۔

اولیاءاللہ کی آزمائش بلندی درجات کے لئے ہے:

 اے جوانو ! توبہ کرو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی کسی مصیبت میں ڈال کر تمہیں آزماتا ہے، تا کہ تم اس کی طرف رجوع کرو مگر تم کچھ سمجھے نہیں ، اپنے گناہوں پر برابر اصرار کر رہے ہو، ان دنوں چند ایک مخصوص بندوں کے علاوہ جو بھی کسی مصیبت میں ہے، اسے آزمایا جارہا ہے ۔ اس کے لئے آزمائش عذاب ہے نعمت نہیں، گناہوں کی سزا ہے، در جات اور مقامات کا بڑھنا نہیں ۔ اولیاء اللہ کی آزمائش اس لئے ہے تا کہ اللہ کے ہاں ان کے درجات بلند ہوں ، وہ آزمائش پر صبر کرتے ہیں ، کیونکہ ان کا مقصوداللہ کی ذات ہے، اس آزمائش پر جب وہ پورے اترتے ہیں تو ان کی حکومت کامل ہو جاتی ہے، جب تک یہ مقام حاصل نہ ہوان کا اعتقاد ہی رہتا ہے کہ وہ ہلاکت میں ہیں۔

یہی التجا ہے: اللهم لا هلک نسئلک القرب منك والنظر اليك في الدنيا والأخرة في الدنيا بقلوبنا وفي الأخرة باعيننا، الہی ہمیں ہلاک نہ کر ہم دنیا اور آخرت میں تجھ سے تیرے قرب اور تیری نظر رحمت کا سوال کرتے ہیں دنیامیں تیراد یدار دل کی آنکھوں سے کریں اور آخرت میں تیراد یدارسر کی آنکھوں سے کریں ۔

صبر کے ساتھ بلا ہر نیکی کی بنیاد اور جڑ ہے:

اے لوگو اللہ کی رحمت اور کشاکش سے نا امید نہ ہو کہ کشائش قریب ہے ۔ نا امید نہ ہو، کہ بنانے والا (صانع ) تو اللہ کی ذات ہے، مایوس نہیں ہونا چاہئے ،تمہیں نہیں معلوم کہ وہ اس خستہ حال کے بعد کوئی بہتر حالت پیدا کر دے، بلا سے مت بھا گو، بلا پرصبر کرد، صبر کے ساتھ بلا ہر نیکی کی بنیاد اور جڑ ہے، نبوت اور رسالت، ولایت اور معرفت الہی ، اور محبت کی جڑ بلاہی ہے، جب تک بلا پر صبر نہ کرو گے تمہارے لئے کوئی بنیادن ہیں ، بنیاد ہی سے عمارت کی بقا ہوتی ہے ، کیا تو نے کوئی ایسا گھر دیکھا ہے جس کی بنیاد نہ ہواور ریت کے ٹیلے پر واقع ہو، تو بلا اور آفتوں سے اس لئے بھا گتا ہے کہ ولایت اور معرفت اور قرب الہی کی ضرورت نہیں ، صبر کرو اور عمل کرتے رہو، تا کہ تم اپنے دل اور باطن اور روح کے ساتھ قرب الہی کے دروزاے تک پہنچ سکو ،۔

علماء اور ولی اور ابدال نبیوں کے وارث ہیں، جو کہ رہبر ورہنما ہیں، اور پیغام کے پہنچانے والے ہیں ، اور اللہ کے ولی ان کے آگے آگے ان کی خبر دینے والے ہیں ، ایمان والا اللہ کے سوا نہ کسی سے ڈرتا ہے، اور نہ اس کے غیر سے کوئی توقع یا امید رکھتا ہے ۔ اس کے دل اور باطن میں اعلی درجہ کی قوت رکھی گئی ہے، ایمان والوں کے دل اللہ کے ساتھ ہوتے ہوئے قوت والے کیسے نہ ہوں ، حالانکہ وہ اس کی طرف پہنچے ہوئے ہیں ، اور ہمیشہ اس کے پاس رہتے ہیں۔ ان کا جسم ( قالب ) زمین پر ہے ، جبکہ دل ( قلوب ) اللہ سے وابستہ ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ ‌الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ

” بے شک وہ ہمارے ہاں برگزیدہ اور عزت والوں میں سے ہیں ۔ وہ اپنے اہل خانہ اور اہل زمانہ سے عزت والے اور ممتاز ہوتے ہیں، ان کے باطن متمیز اور جسم روشن ہیں ، اس لئے وہ خلقت سے الگ رہتے ہیں، خواہشوں سے کنارہ کش ہیں۔یہ آ کے قدم رکھتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے سبزہ اگتا ہے۔ ان کا واپسی کا ارادہ ہی نہیں ، تنہائی سے پیار کرتے ہیں، ویرانوں، جنگلوں ،چٹیل میدانوں اور دریا کے کناروں کو آبادی پر ترجیح دیتے ہیں ، جنگل کی سبزیاں کھاتے ہیں ۔ جنگل کے تالابوں سے پانی پیتے ہیں ، جنگلی وحشیوں کی مانند ہو جاتے ہیں ،

اس عالم میں اللہ تعالی ان کے دلوں کو قرب عطا کرتا ہے، انہیں اپنامونس بنالیتا ہے، ان کے ظاہری جسم رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ قائم ہیں، ان کے باطن اللہ سے جڑے ہیں ، وہ خدمت الہی میں رات دن خلوت میں کھڑے ہیں، مشتاقوں کی راحت اور ان کے انس کی خوشی اللہ کی معیت میں ہے ۔

معرفت الہی کا دارو مدار قلب و باطن کی صحت و صفائی پر ہے:

اے بیٹا مٹھاس کے لئے کر واہٹ ، سدھار کے لئے بگاڑ ، اور صفائی کے لئے میلا لازم ہے، اگر تو مکمل صفائی چاہتا ہے تو خلقت کو دل سے جدا کر دے، اور دل کوحق سے ملادے، دنیا سے منہ موڑ لے اہل وعیال کو چھوڑ دے، انہیں اللہ کے سپردکر دے، اپنے دل سے ان سب کو نکال دے اور ان سے الگ ہو جا، آخرت کے دروازے کے قریب ہو، اور اس کے اندر چلے جا، اگر اللہ کو وہاں نہ پائے تو الٹے پاؤں بھاگ آ ، اور اس کا قرب طلب کر ، اگر وہ مل جائے تو اس کے ہاں ہر طرح کی صفائی ہو جائے گی ، اللہ کے چاہنے والے کو اس کے غیر سے کچھ سروکار نہیں ہوتا ، ۔۔ جنت، راحت کے ان طلب گاروں اور ان تاجروں کا گھر ہے جنھوں نے دنیا کو جنت کے بدلے بیچ دیا ہے، اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَفِيهَا مَا ‌تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ’’اور جنت میں تو وہی چیزیں ہیں جنہیں نفس مانگتے ہیں اور آنکھوں کی لذتیں ہیں ۔‘‘ یہاں دل کی خواہش، باطن کی طلب، باطن الباطن کی مانگ کا کوئی ذکر نہیں ، جنت روزہ داروں کے لئے ہے، ۔ شب بیداروں کے لئے ہے،جنہوں نے شہوات دنیا کو چھوڑ دیا ہے، اور اخروی لذتوں کے تمنائی ہیں ۔ جنھوں نے کھانے کے بدلے کھانے کو، باغ کے بدلے باغ کو۔ گھر کے بدلے گھر کو بیچ دیا ہے، میں تم سے(نیک)  اعمال کا طالب ہوں باتوں کا نہیں۔   وہ عارف جو خاص طور سے اللہ ہی کے لئے عمل کرنے والا ہے، اس کی مثال اہرن( سندان) کی سی ہے، کہ جس پر ہر وقت ضرب پر ضرب لگائی جاتی ہے، لوہا گرم کر کے کوٹا جا تا ہے۔ اور وہ بولتا تک نہیں – اوراس عارف کی مثال زمین کی طرح ہے، کہ جس پر لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ طرح طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ -تمام تصرفات ہوتے ہیں، اور اس کے ہونٹ سلے رہتے ہیں، اللہ والے اللہ کے سوا کسی کو نہیں دیکھتے، اور نہ کسی کی سنتے ہیں ، ان کے دل زبان نہیں رکھتے ۔ وہ اپنے آپ سے اور غیروں سے مٹ چکے، ان کا رہن سہن سدا سے ایسا ہے، اللہ جب چاہتا ہے ان کے ظاہر ہونے کے اسباب کر دیتا ہے۔ ان کے دلوں کو زبان بخش دیتا ہے، جیسے وہ اپنے آپ میں نہ ہوں ،  شہنشاحقیقی اپنے رافت اور رحمت کے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔ ہے، انہیں اپنے لئے بنا تا ہے اور وجودعطا کرتا ہے، -ان کا ہونا اس کے لئے ہے، اس کے غیر کے لئے نہیں ،جیسا کہ اس نے موسی علیہ السلام کو بنایا تھا ، اوران سے ارشادفرمایا:

وَاصْطَنَعْتُكَ ‌لِنَفْسِي ۔ میں نے تمہیں خاص اپنے لئے بنایا‘‘۔ اور اپنے لئے فرمایا:

لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ’’اس کی مثل کوئی شے نہیں ، وہ سننے والا ہے ، دیکھنے والا ہے ۔ انس بغیر وحشت کے- راحت بغیر مشقت کے نعمت بغیر رنج کے – خوشی بغیرغم کےمٹھاس بغیرتلخی کے

شاہی بنا تباہی ،حاصل ہوتی ہے ۔ هُنَالِكَ ‌الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ۔ وہاں تو صرف حق تعالی ہی کی سلطنت ہے۔ جواس حال کو پہنچا، اسے بہت جلد راحت حاصل ہوتی ہے،آرام ملتا ہے۔ اب جس حالت میں تم ہو، دنیا میں اس حالت میں ہرگز راحت نہیں پا سکتا ۔د نیا تو آفتوں اور جھوٹ کا گھر ہے، تجھے اس سے نکل جانا چاہئے ، ضروری ہے کہ تم اسے اپنے ہاتھ سے اپنے دل سے نکال پھینکو، اگر ایسا کرنے کی تجھ میں  قدرت نہ ہوتو دنیا کو اپنے ہاتھ میں چھوڑ دے، اور اسے اپنے دل سے نکال ڈال، جب تجھے قوت مل جائے تب دنیا سے الگ ہو جا، دنیا کو ہاتھ سے چھوڑ دے اورفقیروں اور مسکینوں کو جو خدا کا کنبہ ہے، دے دے ۔ اس کے باوجود جو تیرا نصیب ہے ، تجھے ضرور ملے گا،  تیرے مقدر کا لکھا ضائع نہ ہوگا ، خواہ تو غنی ہے یا فقیر، چھوڑ دینے والا ہے یا رغبت کرنے والا ۔ معرفت الہی کا دار و مدار قلب اور باطن کی صحت و صفائی پر ہے، قلب و باطن کی صفائی علم سیکھنے، اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور اللہ کی سچی طلب سے ہوتی ہے۔

 ظاہری اور باطنی فقہ کا حصول:

ائے بیٹا! کیا تم نےسنانہیں پہلے سمجھ پیدا کر، پھر گوشہ نشین ہو، پہلے ظاہری فقہ حاصل کر، پھر باطنی فقہ کی طرف توجہ کر  ۔ پہلے ظاہری فقہ پرعمل کر تا کہ ایسے علم پرعمل کا قرب حاصل ہو جس سے تم واقف نہیں (یعنی باطنی علم ) — یہ ظاہری علم ، ظاہر کی روشنی ہے، اور باطنی علم ، باطن کی روشنی ہے، یہ روشنی تیرے اور تیرے رب کے بیچ ایک نور ہے ۔ ( علم پرعمل کرنے سے تمہارا راستہ تمہیں اللہ کے قریب کر دے گا ، ) تم میں اور اللہ تعالی کے درمیان جو دروازہ ہے، کشادہ ہو گا ، اور دروازہ جو تمہارے لئے خاص ہے ، کھول دیا جائے گا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا کرے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 85،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 58دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں