اس بیان میں کہ آ دمی اپنی نادانی سے اپنی ظاہری مرضی کے دور کرنے کی فکر میں لگا ہے اور باطنی مرضی سے جو دل کی گرفتاری سے مراد ہے،غافل پڑا ہے اور اس کے مناسب بیان میں میرزاایرج کی طرف لکھا ہے
عَصَمَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهٗ عَمَّا يَعْصِمُكُمْ وَصَانَکُمْ عَمَّا شَانَکُمْ بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخَرِیْنَ عَلَيْهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ اَجْمَعِيْنَ مِنَ الصَّلَواتُ اَتَمُّهَا وَمِنَ التَّسْلِيمَاتُ اَکْمَلُهَا حق تعالیٰ سید الاولین و آخرین ﷺکے طفیل آپ کو اس چیز سے بچائے جو آپ کو داغدار کرے اور اس چیز سے محفوظ رکھے جو آپ کو عیب لگائے۔
اے سعادت و شرافت کے نشان والے آدمی کو جب کوئی ظاہری مرض لگ جاتی ہے اور اس کے کسی عضو کو آفت پہنچتی ہے تو بہت کوشش اور مبالغہ کرتا ہے تا کہ وہ مرض دفع ہو جائے اور وہ آفت دور ہوجائے لیکن مرض قلبی نے جو ماسوا ئےحق کی گرفتاری سے مراد ہے اس پر اس طرح غلبہ پایا ہوا ہے جو نزدیک ہے کہ اس کو ہمیشہ کی موت تک پہنچا دے اور ہمیشہ کے عذاب میں اس کو گرفتار کردے۔ اس کے دور کرنے کا ذکر نہیں کرتا اور اس کے دفع کرنے میں کوشش نہیں کرتا اور اگر اس گرفتاری کو مرض نہیں جانتا تو پرلے درہنے کااحمق ہے اور اگر جانتا ہے اور پھر فکر نہیں کرتا تو بڑاہی پلید ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس مرض کےسمجھنے کے لئے عقل معاد(آخرت) درکار ہے کیونکہ عقل معاش اپنی کوتاہ اندیشی سے ظاہربینی پر لگی ہوئی ہے اور عقل معاش جس طرح باطنی امراض کو فانی عیش وعشرت کے باعث مرض خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح عقل معاد بھی ظاہری امراض کو عاقبت کے ثوابوں کی وجہ سے مرض نہیں جانتی۔ عقل معاش کی نظر کوتاہ ہے اورعقل معاد کی نظر تیز۔
عقل معاد انبیاء و اولیاءعلیہم الصلوۃ والسلام کے نصیب ہے اور عقل معاش دولت مندوں اور دنیا داروں کا حصہ ہے اور ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ اسباب جو عقل معاد کو برانگیختہ کرنے والے ہیں ، موت کا ذکر۔ آخرت کے احوال کا یاد کرنا اور ان لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا ہے جو دار آخرت کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔
دادیم تراز گنج مقصود نشاںماگرنرسیدم تو شاید برسی
ترجمہ تجھے گنج مقصود بتلایا ہم نے ملاگرنہیں ہم کو شاید تو پالے
جاننا چاہیئے کہ جس طرح ظاہری مرض احکام شرعیہ کے بمشکل ادا ہونے کا باعث ہے۔ مرض باطن بھی اسی دشواری کو مستلزم ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے بہت بھاری ہے اور فرماتا ہے
وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ بیشک نماز بھاری ہے مگر خاشعین پر۔ ظاہری(جسمانی) مرض میں قوی اور اعضاء کی کمزوری اس دشواری کو مستلزم اور مرض باطنی میں یقین کا ضعف اور ایمان کی کمی اس دشواری کا موجب ہےورنہ تکالیف شرعی (شرعی احکام)میں سراسر آسانی اور سہولت ہے۔ آیت کریمہ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اورتنگی نہیں چاہتا اور آیت کر یمہ يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا اللہ تم سے تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعف پیدا کیا گیا ہے، دونوں اس مطلب پر گواہ ہیں۔ ع
خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست ترجمہ: اگر کوئی ہے خوداندها گناه خورشید کا کیا ہے ۔
پس اس مرض کے دور کرنے کا ذکر ضروری ہے اور حاذق طبیبوں کی طرف التجا کرنا فرض عین ہے مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ قاصد کا کام تک پہنچا دیا ہے۔ ۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ106ناشر ادارہ مجددیہ کراچی