محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والثلاثون فی اداء الاوامر واجتناب النواھی ‘‘ ہے۔
منعقدہ 21/ جمادی الآ خر 545 بوقت صبح جمعتہ المبارک
امر بالمعروف و نہی عن المنکر :
حکم الہی کی تعمیل کر جس چیز سے روکا ہے، اس سے منع رہ- ان آفتوں پر صبر کر ، اور نوافل کے ذریعے قرب الہی حاصل کر، تیرا نام بیدار اور کارگزار رکھا جائے گا۔ اللہ تعالی سے توفیق طلب کرنے کے لئے عمل کر ، عمل کے دروازے میں حاضری میں کوشش کر کے تکلف برتنا چھوڑ دے۔ حضوری عمل کا دروازہ ہے ، وہی تیرے لئے استعمال کرنے والا ہے، اس سے سوال کر اور اس کے سامنے عاجزی کرتا کہ وہ تیرے لئے فرماں برداری کے اسباب فراہم کر دے، کیونکہ جب اس نے تجھ سے کوئی کام لینا ہوگا تو تیرے لئے تیار کر دے گا۔ تیری حیثیت کے لائق جلدی کا امر کر دیا ہے، اپنی طرف سے توفیق کو تیرے لئے متوجہ کر دیا ہے۔ امر ظاہر ہے اور توفیق باطن ہے۔- گناہوں سے منع کرنا ، بازرہنا ظاہر ہے، اوران سے پر ہیز کرنا باطن ۔ اس کی توفیق سے تعمیل احکام کیجا تی ہے، اس کی نگہبانی و حفاظت سے گناہوں کو چھوڑا جا تا ہے ۔ اللہ کی قوت و مدد سے صبر کرتا ہے ۔ میرے پاس عقل اور ثابت قدمی نیت اور پختہ ارادے سے آؤ، مجھ پر تہمت لگانے کو ترک کر کے اور میرے بارے میں نیک گمان کر کے حاضر ہو، اس وقت میں جو کچھ کہوں گا تمہیں فائدہ دے گا ، اور تم اس کا مفہوم بھی سمجھ سکو گے۔
اسے مجھ پر تہمت لگانے والے! جس حال پر میں ہوں ، قیامت کے دن تجھ پر سب ظاہر ہو جائے گا۔ میں جس حال میں ہوں ، مجھ سے مزاحمت یا جھگڑا نہ کر ، تیرے دل کوصدمہ ہوگا اور وہ مغلوب ہوگا ۔دنیا کے بوجھ میرے سر پر ہیں ، اور آخرت کے میرے دل پر ، اور حق تعالی کے بوجھ (اس کی معرفت اور قرب ) میرے باطن پر ہیں ، ہے کوئی جو میرا مددگار بنے جرات اور بہادری کر کے مجھ سے آگے بڑھے اور اپنے سرکو خطرے میں ڈالے۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ اس کی ذات کے سوا مجھے کسی کی احتیاج نہیں تم عقل سے کام لو اور اولیاء اللہ کا ادب واحترام کرو، کہ وہ قوموں میں سے گنے چنے ہیں اور بزرگی والے ہیں ، شہروں اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے والے ہیں، انہی کے دم سے زمین کی نگہبانی ہے ، ورنہ تمہاری منافقت اور شرک اور ریا کاری کے باوجودکون ہے جو حفاظت کرے ۔اے منافقو! اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنو! – اے دوزخ کا ایندھن بننے والو!!
اللهم تب على وعليهم ، اللهم ايقظنى وايقظهم وارحمني وارحمهم فرغ قلوبنا وجوار حنا لك وإن كان ولا بد فا الجوارح للعيال في أمور الدنيا والنفس للأخرى والقلب والسر لك . آمین
الہی! مجھ پر اور ان پر تو جہ ڈال! – مجھے اور ان سب کو بیدار کر ، مجھ پر اوران پر رحم فرما! – ہمارے دلوں اور اعضاء کو اپنے لئے خالی کر۔ اگر مصروفیت کے سوا چارہ نہ ہو تو اعضاء کو اہل خانہ کے لئے دنیا کے کاموں میں ، نفس کو آخرت کے لئے اور قلب و باطن کو اپنے لئے وقف کر دے۔آمین!‘‘
عمل کے دروازے پر ثابت قدمی سے کھڑارہ:
بیٹا! تجھ سے کچھ نہیں ہونے کا ، حالانکہ کچھ کئے بغیر چارہ نہیں تجھ سے اکیلے کچھ نہ ہو پائے گا، تیرا حاضر ہونا ضروری ہے۔ عمل کے دروازے پر ثابت قدمی سے کھڑارہ ۔ تا کہ مالک تجھے تعمیر کے کام میں لگالے۔ تیری اور توفیق کی مثال اس طرح سے ہے کہ تو مزدور ہے اور توفیق کام لینے والی ، اور کام کا مالک اللہ کی ذات ہے۔ تجھے تابعداری جلدی اور تیزی سے کرنے کا حکم دیا۔ اس کی طرف سے یہی توفیق ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کہ خلقت کے خوف سے اور اس سے امید لگا کے تو نےاپنے نفس کو قید کررکھا ہے اپنے پاؤں سے یہ زنجیریں کاٹ دے۔ تا کہ اللہ کی خدمت میں کمر بستہ ہو جائے ۔ اور اللہ کے سامنے مطمئن ہو جائے تو دنیا اور اس کی خواہشوں اور عورتوں اور دنیاوی چیزوں سے بے رغبت کر اگر سابقہ علم الہی میں ان چیزوں میں سے تجھے کچھ ملنا ہے، تو وہ تیرے امر اور طلب کے بغیر تجھے مل جائے گا۔ اللہ کے ہاں تجھے زاہد کا نام دیا جائے گا۔ اگر تجھے نگاہ عنایت سے دیکھے گا توتیرے نصیب کا لکھا جانے کا نہیں۔ جب تک تو اپنے ہاتھوں کی چیز یں اور اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کرے گا ، اس وقت تیرے پاس غیب سے کچھ نہ ملے گا ۔
اللهم إنا نعوذ بك من الاتكال على الأسباب والوقوف مع الهوس والهوية والعادات تعوذبك من الشر في سائر الأحوال ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ” الہی ہم اسباب اورحرص اور خواہشوں اور عادتوں پر بھروسہ کرنے سے پناہ مانگتے ہیں، اور سب حالتوں کی سب برائی سے تیری پناہ کے طالب ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 233،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 132دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان