اس بیان میں کہ بدنوں کے قرب کو دلوں کے قرب میں بڑی تاثیر ہے اور اس بیان میں کہ وجد و حال کو جب تک شرع کی میزان پر نہ تولیں نیم چیتل کے برابر نہیں لیتے مرزا حسام الدین احمد کی طرف لکھا ہے:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
مدت گزری ہے کہ جناب کی اور حضرات مخدوم زادوں کی اور فرزندی میاں جمال الدین حسین اور باقی عزیزوں اور بزرگوں اور بلند بارگاہ کے خادموں بالخصوص میاں شیخ اللہ داد اور میاں شیخ اللہ دیا کی خیریت کی خبر نہیں پہنچی۔ اس کا مانع سوائے اس امر کے کچھ نہ ہوگا کہ شاید جناب نے اس دور افتادہ کو بھلا دیا ہوگا۔ ان بدنوں کے قرب کو دلوں کے قرب میں بڑی تاثیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ولی صحابہ کےمرتبہ کو نہیں پہنچتا۔ خواجہ اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کا وجود اس قدر بلند مرتبہ ہونے کے چونکہ خیر البشر ﷺکی صحبت میں حاضر نہیں ہوئے ۔ ادنی صحابی کے مرتبہ کونہیں پہنچ سکتے۔
کسی شخص نے عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ معاویہ افضل ہے یا عمر بن عبدالعز یز۔ تو جواب فرمایا کہ وہ غبار رسول اللہ ﷺکے ساتھ معاویہ کے گھوڑے کے ناک میں داخل ہوا۔ عمر بن عبد العزیز سے کئی درجے بہتر ہے۔
اس طرف کے احوال و اوضاع مع متعلقین اور تابعداروں کے بخیر و عافیت ہیں اس بات پر بلکہ تمام نعمتوں پر خاص کر اسلام اور حضرت سید الانام ﷺکی متابعت کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کیونکہ اصلی مقصودیہی ہے اور نجات کا مدار اسی پر ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت کا پانا اس پر وابستہ ہے۔
ثَبَّتَنَا اللهُ وَاِيَّاكُمْ عَلىٰ ذٰلِكَ بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَيْهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ وَعَلَیْھِمْ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسلِيمَاتُ وَ التَّحِيَّاتُ اَتَمَّهَا وَاَکْمَلُهَا الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین ﷺکےطفیل اس متابعت پر ثابت قدم رکھے۔
کار این است غیر ایں ہمہ ہیچ ۔اصل کام ہےیہی باقی سب ہیچ ہے۔
صوفیوں کی بے ہودہ باتوں سے کیا حاصل ہوتا ہے اور ان کے احوال سے کیا بڑھتا ہے۔ وہاں وجدو حال کو جب تک شرع کی میزان پر نہ تولیں نیم جیتل(آدھا پیسہ) سے نہیں خریدتے اور کشف اور الہاموں کو جب تک کتاب وسنت کی کسوٹی پر نہ پرکھ لیں نیم جو کے برابر بھی پسند نہیں کرتے۔
طریق صوفیہ پر سلوک کرنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ کا جو ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہوجائے اور فقیہ احکام کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو۔ نہ کہ اس کے سوا کچھ اور امر کیونکہ رؤیت کا وعدہ آخرت میں ہے اور دنیا میں البتہ واقع نہیں ہے ۔ وہ مشاہدات اور تجلیات(غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) جن کے ساتھ صوفیہ خوش ہیں وہ صرف ظلال سے آرام پانا اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کرنا ہے۔ حق تعالیٰ وراء الوراء ہے۔
عجب کاروبار ہے کہ اگر ان کے مشاہدات اور تجلیات کی حقیقت پوری پوری بیان کی جائے تو یہ ڈر لگتا ہے کہ اس راہ کے مبتدیوں کی طلب میں فتور اور ان کے شوق میں قصور پڑ جائے گا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر باوجودعلم کے کچھ بھی نہ کہے تو حق باطل کے ساتھ ملارہے گا۔ يَا دَلِيلَ الْمُتَحَيِّرِينَ دُلَّنِیْ بِحُرْمَةِ مَنْ جَعَلَتْهٗ رَحْمَةً الِّلْعٰلَمِيْنَ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ اے سرگشتہ اورحیرانوں کے راہ دکھانے والے ہم کو اس وجود پاک کی حرمت سے سیدھے راہ کی ہدایت کر جس کو تو نے رحمت عالمیں بنایا ہے۔ ﷺ۔
کبھی بھی اپنے احوال کی کیفیات سے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ محبت کے زیادہ ہونے کا موجب ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ أَفْضَلُهَا وَاَدْوَمَهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ73ناشر ادارہ مجددیہ کراچی