اس حدیث نبوی علیہ الصلوة والسلام کے بیان میں جو حضورﷺنے اپنے بعض یاروں کو جنہوں نے اپنے برے خطرات(وساوس) کی شکایت بیان کی تھی۔ فرمایا تھا کہ ذٰلِکَ مِنْ كَمَالِ الْإِيْمَانِ – یہ کمال ایمان سے ہے اور اس کے مناسب بیان میں ملا صالح کولابی کی طرف لکھا ہے:۔
درویشوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی۔(اتفاق سے) طالبوں کے شیطانی خطروں اور وسوسوں کی نسبت گفتگو شروع ہوئی ۔ اس اثنا میں حدیث کے معنی بھی بیان کیے گئے کہ ایک دن حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے بعض اصحاب رضوان الله تعالیٰ علیہم نے آنحضرت ﷺکی خدمت میں اپنے برے خطرات (وساوس) کی شکایت کی ۔آنحضرت علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ ذٰلِکَ مِنْ كَمَالِ الْإِيْمَانِ یہ کمال ایمان سے ہے اس وقت اس حدیث کے معنی اس فقیر کے دل میں اس طرح گزرے۔ وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے )کہ کمال ایمان مراد ہے کمال یقین سے ہے اور کمال یقین کمال قرب پر مترتب ہے اور قلب اور اس سے اوپر کے لطا ئف( روح، سر ،خفی اور اخفیٰ) کو جس قدر قرب الہی زیادہ حاصل ہوگا اس قدر کمال و یقین بھی زیادہ ہوگا اور قالب(جسم) کے ساتھ اس کی بے تعلقی زیادہ ہوگی۔ اس وقت خطرات قالب میں زیادہ تر ہونگے اور وسوسے بہت نا مناسب ظاہر ہونگے ۔ پس نا چار بڑے خطروں کا سبب کمال ایمان ہوگا۔
پس نہایت النہایت کے منتہی کو جس قدر خطرات زیادہ اور نامناسب ہونگے ۔ اسی قدر ایمان کی اکملیت زیادہ تر ہوگی۔ کیونکہ کمال ایمان اس امر کامقتضی ہے کہ الطف لطائف(سب سے بڑی مہربانی) کو لطیفہ قلب کے ساتھ زیاده بے مناسبتی ہو اور یہ بے مناسبتی جس قدر زیادہ ہوگی ۔ اسی قدر قالب زیاده خالی اور ظلمت و کدورت کے زیادہ نزدیک اور خطرے اور وسوسے اس میں زیادہ ہو نگے۔ برخلاف مبتدی اور متوسط کے کہ اس قسم کے خطرات ان کے لئے زہر قاتل ہیں اور باطن کو نقصان دینے والے ہیں ۔ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الُقَاصِرِيْنَ پس تو کم ہمت نہ ہو۔ یہ معرفت اس درویش کے پوشیدہ معارف میں سے ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ36ناشر ادارہ مجددیہ کراچی