ان واقعات کے حاصل ہونے کے بیان میں جو اثنائے راہ میں ظاہر ہوئے تھے ۔ اور بعض مسترشدوں یعنی طالبوں کے احوال کے بیان میں اپنے پیر بزرگوار قدس سرہ کی طرف لکھا ہے۔
کمترین خادم عرض کرتا ہے کہ وہ تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) جومراتب کونی میں ظاہر ہوئی تھیں ۔ ان میں سے بعض کا بیان سابقہ عریضہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرتبہ وجوب جو صفات کلیہ کا جامع ہے ظاہر ہوا ۔ اور بدصورت سیاه رنگ عورت کی صورت میں متمثل ہوا اور اس کے بعد مرتبہ احدیت دراز قد مرد کی صورت میں کہ بار یک دیوار پر کھڑا ہے جلوہ گر ہوا اور یہ دونوں تجلیات حقانیت کے طور پر ظاہر ہوئیں۔ برخلاف پہلی تجلیوں کے کہ وہ اس طور پر ظاہر نہ ہوئی تھیں اور اسی اثناء میں موت کی خواہش پیدا ہوئی اور ایسا نظر آیا کہ گویا میں شخص ہوں جو دریائے محیط کے کنارے پر کھڑا ہے۔ اس ارادے پر کہ اپنے آپ کو دریا میں ڈالے لیکن پیچھے سے اس کو رسی کے ساتھ ایسا مضبوط باندھا ہے کہ وہ دریا میں جا نہیں سکتا اور اس رسی سے مراد میں اپنے بدن عنصری کے تعلقات سمجھتا تھا۔ اور آرزو کرتا تھا کہ وہ رسی ٹوٹ جائے اور نیز ایک ایک خاص کیفیت طاری ہوئی کہ اس وقت بطریق ذوق معلوم ہوا کہ دل کی کوئی خواہش حق تعالی کے سوا نہیں رہی۔
اس کے بعد صفات کلیہ وجوبیہ ہے کہ جنہوں نے با اعتبار محلوں اور مظہروں کے مختلف خصوصیتیں پیدا کی تھیں نظر آئیں ۔ اس کے بعد وہ خصوصیتیں سب کی سب اپنے اپنے محلوں اور مظہروں سے گر گئیں اور باقی نہ ر ہیں ۔ مگر کلیہ وجوبیہ کے طور پر اور خصوصیتوں سے ان کے الگ ہونے کی صورت بھی نظر آئی اور اس وقت معلوم ہوا کہ اب تو نے حقیقی طور پر صفات کو اصل کے ساتھ جان لیا اور خصوصیات سے الگ ہونے سے پہلے صفات کو اصل سے جاننا کچھ معنی نہیں رکھتا تھا۔ مگر یہ کہ جواز کے طریق پر ہو جیسا کہ تجلی صوری (سالک کو فنائے حقیقی سے پہلے حاصل ہوتی ہے)والوں کا حال ہے اور حقیقی اس وقت ثابت ہوگئی۔
اس حالت کے ثابت ہونے کے بعد صفات جو اپنے آپ میں اور اپنے غیر میں تھیں ایک ہی طرز پر پائیں اورمحل وجگہ کی تمیز اٹھ گئی۔ اس وقت شرک خفی(ریاکاری ،نفسانی خواہشات) کی کئی قسم کے بار یک امور سے خلاصی میسر ہوئی اور اس وقت تک نہ عرش رہا اور نہ فرش نہ زمان نہ مکان نہ جہات نہ حدود ۔ اگر بالفرض کئی سال تک فکر کروں ہرگز علم میں نہ آئے کہ جہاں کا ایک ذرہ بھی پیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد اپنا تعین اور اپنی وجہ خاص بھی نظر کی اور اپنے تعین کو اس پھٹے ہوئے پرانے کپڑے کی طرح معلوم کیا جس کو کسی شخص نے پہنا ہوا ہو اور اس شخص کو میں نے اپنی وجہ خاص جانا لیکن حقانیت کے طور پر پر متصور نہ ہوا۔
اس کے بعد اس شخص کے اوپر نزدیک ہی پوست رقیق نظر آیا اور اپنے آپ کو اس پوست عین معلوم کیا اور اس تعین کے جامہ کو اپنے سے بیگانہ دیکھا اور وہ نور جو اس پوست میں تھا دکھائی دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نورنظر سے غائب ہوگیا اور یہ پوست اور جامہ بھی نظر سے دور گئے اور وہی پہلی جہالت ره گئی۔
اس واقع مذکورہ کی تعبیر جس طرح علم میں آتی ہے عرض کرتا ہے تا کہ اس کی صحت وغلطی معلوم ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ یہ صورت مذکورہ عین ثابتہ ہے جو وجوب و امکان کے درمیان منزلہ برزخ کے ہے جس کی دونوں طرفین ایک دوسری سے جدا ہوگئی ہیں اور کمال فرق کے ساتھ متحقق ہیں اور وہ پوست جو اس پرانے کپڑے اور نور کے درمیان واقع ہوا ہے۔ وجود اورعد م کے درمیان برزخ ہے اور اپنے آپ کو جو آخر کار وہی پوست معلوم کیا۔ برزخیت میں پہنچنے کی طرف اشارہ ہے اور پہلے بھی واقعات میں اپنے آپ کو وجود اور عدم کے درمیان برزخ معلوم کرتا تھا لیکن ظاہر اًوه آفاق کی نسبت سے تھا اور اب نفس کی طرف نظر ہے اور ایک اور فرق بھی اس وقت ظاہر ہوا تھا لیکن لکھنے کے وقت بھول گیا جو کچھ ہمیشہ حاصل ہے حیرت ونادانی ہے اورکبھی کبھی اسی طرح عجیب و غریب حال ظاہر ہوتے ہیں اور دور ہو جاتے ہیں اور ان کی معرفت رہ جاتی ہے اور بعض واقعات کی تعبیر میں عاجز رہ جاتا ہے اور اگر کچھ میں آتا تو اس پر بھروسہ نہیں کرتا۔ اسی واسطے عریضوں کے ارسال کرنے میں گستاخی کرتا ہے تا کہ حضور کے جتلانے سے کسی امر کا یقینی علم حاصل ہو جائے۔ امید ہے کہ حضور کی بلند توجہوں سے دنیائے کمینی کے تعلقات کی گرفتاری سے نجات میسر ہو جائے گی ورنہ کام بہت مشکل ہے۔
بے عنایات حق و خاصان حق گر ملک باشد سیاه ہستش ورق
ترجمہ اہل حق اور حق تعالی کی عنایت کے سوا ہے عمل نامہ سیاه گر چہ فرشتہ ہی ہوا
شیخ عبداللہ نیازی کا بیٹا شیخ طٰہٰ جو سرہند کے مشہور مشائخ میں سے ہے اورحاجی عبدالعزیز اس سے واقف ہے ۔ قدم بوسی اور نیاز مندی عرض کرتا ہے ۔ اس کواس طریقہ علیہ میں داخل ہونے کی خواہش پیدا ہوئی اور بڑے صدق و نیاز سے التجا کرتا ہے میں نے اس کو کہا ہے کہ استخارہ کرے ۔ بظاہر مناسبت رکھتا ہے اور جن یاروں نے یہاں کی ذکر تعلیم حاصل کی ہے اکثر ان میں سے طریق رابط میں مشغول ہیں اور اور بعض ان میں سے واقعات میں دیکھ کر رابطہ حاصل کر کے ہمراہ آتے ہیں اور بعض دہلی سے واپس آنے سے پہلے رابطہ رکھتے تھے اور اول حضور و استغراق میں جاتے ہیں ۔ ان میں سے بعض صفات کو اصل سے دیکھتے ہیں اور بعض نہیں دیکھتے لیکن کوئی بھی توحید اور انوار اور کشوف کے راہ پرنہیں جاتا۔
ملا قاسم علی اور ملا مودود محمد اور عبدالمومن ظا ہراً مقام جذبہ سے نقطہ فوق تک پہنچے ہوئے لیکن ملا قاسم علی نزول کی طرف توجہ رکھتا ہے اور ان دونوں کی نسبت معلوم نہیں کہ نزول کی طرف آ ئیں اورشیخ نوربھی نقطہ کے نزدیک ہے لیکن ابھی تک وہاں نہیں پہنچا۔
ملا عبدالرحمن بھی نقطہ کے نزدیک ہے لیکن ابھی تھوڑی سی مسافت درمیان ہے۔ ملا عبدالہادی نے حضور میں استغراق حاصل کیا ہے اور نیز کہتا ہے کہ پاک مطلق یعنی اللہ تعالی کو اشیاء میں تنزیہی صفت سے دیکھتا ہوں اور افعال کو اس سے جانتا ہوں حضور کی دولت ہے جو طالبوں اور مستعدوں کوپہنچ رہی ہے اور اس کمینہ کو اس کے پہنچانے میں کچھ حصہ نہیں ۔ع
من ہماں احمد احمد پارینہ کہ ہستم ہستم ترجمہ میں ہوں احمد وہی پرانا غلام
حضور نے ایک دن واقعات میں سے کسی واقع میں فرمایا تھا کہ اگر خاکسار میں محبوبیت کے معنی نہ ہوتے تو مقصود تک پہنچنے میں بہت توقف واقع ہوتا اور اس نسبت کو بھی جو خاکسار کی محبوبیت کو حضور کی عنایت کے ساتھ ہے بیان فرمایا تھا۔ اس بات سے بڑی بھاری امید لگ رہی ہے اور یہ جرأت و گستاخی بھی اسی وجہ سے ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ32 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی