تجلی افعال و تجلی صفات وتجلی  ذات مکتوب نمبر 75دفتر سوم

تجلی افعال و تجلی صفات وتجلی  ذات کے بیان میں فقیر محمد ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

برادرم محمد ہاشم کشمی کو واضح ہو کر بھی افعال سے مراد یہ ہے کہ سالک پر حق تعالیٰ کے فعل کا اس طرح ظہور ہو کہ سالک بندوں کے افعاں کو اس فعل کے ظلال دیکھے اور اس فعل کو ان افعال کا اصل معلوم کرے اور ان افعال کا قیام اس عمل واحد کے ساتھ پہچانے اس تجلی کا کمال یہ ہے کہ یہ ظلال اس کی نظر سے بالکل پوشیدہ ہو کر اپنے اصل کے ساتھ ملحق ہو جائیں اور ان افعال کے فاعل کو جماد(بے جان) کی طرح بے حس و حرکت معلوم کرے اور جو کچھ توحید وجودی والوں نے جو اشیاء کے عین ہونے کے قائل ہیں اور ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے) کہتے ہیں اس مقام میں کہا ہے اور بندوں کے بے شمار افعال کو ایک ہی فاعل جل شانہ کافعل جانا ہے وہاں افعال کا اپنے فاعلوں کی طرف منتسب ہونے کا اختفا(پوشیدہ) ہے اور ان افعال کا فاعل واحد کی طرف منتسب ہونے کا حدوث ہے نہ کہ نفس افعال کا اختفا اور ان کا اپنے اصل کے ساتھ ملحق ہونا۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا وَاَنْ يَّكَادُ أَنْ يَّخْفیٰ عَلىٰ الْبَعْضِ ان دونوں میں بہت فرق ہے اور قریب ہے کہ بعض پر پوشیدہ رہے)تجلی صفات سے مراد یہ ہے کہ سالک پرحق تعالیٰ کی صفات کا ظہور اس طرح پر ہو کہ بندوں کی صفات کو حق تعالیٰ کی صفات جانے اور ان کا قیام ان کے اصول کے ساتھ معلوم کرے علم ممکن کوعلم واجب کاظل اور اس کے ساتھ قائم جانے اسی طرح اس کی قدرت کوحق تعالیٰ کی قدرت جانے اور اس کا قیام اس کے ساتھ تصور کرے۔ اس تجلی کا کمال یہ ہے کہ ظلال صفات(مجازی صفات) سب کے سب سالک کی نظر سے منتفی(معدوم) ہوکر اپنے اصول سے مل جائیں اور اپنے آپ کو کہ ان صفات سے موصوف تھا جمادکی طرح بے حیات وبے علم جانے اور اپنے آپ میں وجود اور وجود کے تابع کمالات کا کوئی اثر نہ پائے نہ وہاں اس کا ذکر ہے نہ توجہ نے حضور نہ شہود۔ اصل سے لاحق ہونے کے بعد اگر توجہ ہے تو خود بخود متوجہ ہے اور اگر حضور ہے تو خود بخود حاضر ہے۔ اس مقام سے سالک کا نصیب یہ ہے کہ اس کو حقیقت فنا او نیستی (فنائیت) حاصل ہوجاتی ہے اور ان کمالات کا انتساب جن کو اپنے خیال میں اپنی طرف منسوب کرتا تھامنتفی ہو جاتا ہے اور اس امانت کو کہ جس کو تہمت و کذب سے اپنی طرف سے خیال کرتا تھا۔ امانت والوں کے حوالہ کر دیتا ہے اور کلمہ انا(میں) کا مورد ومحل يہاں تک زائل ہو جاتا ہے کہ اگر اس کو بقاء باللہ بھی مشرف کردیں توبھی انا کا مور نہیں ہوسکتا اور اپنے آپ کو انا کے ساتھ تعبیر نہیں کرسکتا اور اگر چہ اپنے آپ کو وہی اصل معلوم کرتا ہے لیکن پھر بھی اس اصل پر کلمہ انا کا اطلاق میسر نہیں ہوسکتا اور اپنے آپ کو اپنے اصل کا عین نہیں کہہ سکتا کیونکہ خودی اس سے برطرف اور انانیت زائل ہو چکی ہوتی ہے‌أَنَا ‌الْحَقُّ (میں خدا ہوں)   کہنا اس نسبت کے حاصل نہ ہونے کا باعث ہے اور سُبْحَانِي (میں پاک ہوں )زبان پر لانا اس دولت تک نہ پہنچنے کا سبب ہے لیکن اس قسم کے الفاظ کو جو ان بزرگواروں سے صادر ہوئے ہیں ان کے توسط احوال پر حمل کرنا چاہیئے اور ان کے کمال کو اس گفتگو کے ماوراء اعتبار کرنا چاہیئے۔ یہ دولت فناءجونیستی (فنائیت) کی حقیقت ہے اگر چہ تجلی صفات کامنتہا ہے لیکن اس کا حاصل ہوناتجلی ذات کے پرتو سے ہے۔ جب تک ذات متجلی(ظاہر یا منکشف ہونا)  نہ ہوفنا کی یہ دولت میسر نہیں ہوتی بلکہ تجلی صفات بھی انجام تک نہیں پہنچتی – تانیابی نہ رہی( جب تک تو اس کو نہ پائے گا آزادنہ ہوگا)تجلی ذات ہی کے سبب سے عارف کا وہ بقیہ بھی جو اس کی نظر میں جمادمیت یعنی جمادبےحس و بے جان کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ زائل ہو جاتا ہے اور وہ عدم ہی تھا جو ہرممکن کااصل ہے جس نے حق تعالیٰ کی صفات کاملہ کے انعكاس کے باعث امتیاز وتشخیص پیدا کی تھی اور اس آئینہ داری کے باعث دوسرے عدموں سے جدا ہوگیا تھاجب یہ ظلال منعکسہ اپنے اصول سے مل گئے تو ان اعدام میں بھی کوئی امتیاز کی صورت نہ رہی اور یہ عدم خاص بھی عدم مطلق کے ساتھ مل گیا۔ اس وقت عارف کا نام ونشان اور اسم ورسم نہیں رہتا ‌لَا ‌تُبْقِي وَلَا تَذَرُ نہ باقی رہنے دیتا ہے اور نہ چھوڑتا ہے جس طرح وجود اور توابع وجود اس سے وداع ہوگئے تھے اسی طرح عدم بھی اس سے جدا ہو کر اپنے اصل سے جاملتا ہے۔

 جاننا چاہیئے کہ وہ امتیاز جواس عدم کو دوسرے اعدام سے ظلال صفات کے حاصل ہونے کے سبب حاصل ہوا تھا تو ہم کے اعتبار پر تھا۔ درحقیقت اس میں کوئی ظل ثابت نہ تھا جس طرح کہ دوسرے آئینوں میں صورتوں کا حاصل ہونا تو ہم کے اعتبار سے ہے جب اس میں ظلال کا حاصل ہونا باعتبارتو ہم کے ہوگا اور اس کا امتیاز بھی وہمی ہوگا پس جس طرح ممکن کا وجود توہم کے اعتبار سے ہے اس کا عدم بھی توہم کے اعتبار سے ہوگا۔ دائرہ وہم کے باہرکہیں اس کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں ملی کیونکہ درحقیقت وجودبھی اپنی صرافت(خالصیت)  و اطلاق پر ہے اور عدم بھی اپنی صرافت واطلاق پر نہ وجودکو تنزل ہوا ہے نہ عدم کی ترقی ہوئی ہے یہ صانع تعالیٰ شانہ کی کمال قدرت ہے جس نے مرتبہ و ہمہ میں وجود عدم سے عالم کو پیدا فرمایا ہے اور کمال استحکام بخشا ہے اور ابدی معاملہ اور دائمی ثواب و عذاب اس پر وابستہ کیا ہےوَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ ‌بِعَزِيزٍ ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی مشکل کام نہیں ) اور یہ جو ہم نے اوپر کہا ہے کہ اس دولت فناء کا حاصل ہوناتجلی ذات کے پرتو سے ہے نفس تجلےذات کا حاصل ہونا اس دولت فنا کے حاصل ہونے کے بعد ہے کہ تانہ رہی نیابی ( جب تک تو آزادنہ ہوگا اس کو نہ پاۓ گا) پرتو تجلی اورنفس تجلی کے درمیان وہی فرق ہے جوصبح کی سفیدی اور آفتاب کے طلوع میں ہے۔ صبح کی سفیدی کا وقت تجلی آفتاب کا پرتو ہے اور طلوع کے بعد آفتاب کی نفس تجلی ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تجلی کے پرتو ڈالنے کے بعد بعض کونفس تجلے سے مشرف نہیں فرماتے اور بعض عوارض کے لاحق ہونے سے اس اعلے دولت تک نہیں پہنچاتے جس طرح ممکن ہے کہ صبح کی سفیدی کو معلوم کریں اور زمینی یا آسمانی علت کے باعث طلوع آفتاب کونہ پاسکیں اور نیز اسفار یعنی سفیدی صبح کے شہود  میں قوت باصرہ کی چنداں ضرورت نہیں لیکن شہود  آفتاب میں کمال قوت باصرہ اور بڑی تیز نظر درکار ہے۔ بچاره چمگادڑ اسفار کا ادراک کر سکتا ہے لیکن آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا۔ یہاں اورہی آنکھ چاہیئے جو آفتاب کو دیکھ سکےکبھی ایسا ہوتا ہے کہ تجلی ذات کے پرتو کی استعداد ہوتی ہے اور نفس تجلی ذات کی استعدادنہیں ہوتی ، جس طرح چمگادڑ کو تجلی آفتاب کے پرتو کی استعدادلیکن نفس تجلی آفتاب کی استعدادنہیں میں سربستہ سخن کہتا ہوں۔ شایدنفع دےتجلی صفات کے سرانجام ہونے اور صفات وذات کے فناء حاصل ہونے کے بعد عارف پرایک ایسی تجلی ظاہر ہوتی ہے جو تجلی ذات کی دہلیز ہے۔ گویا یہ تجلی تجلی صفات اور تجلی ذات کے درمیان برزخ ہے اگر کسی صاحب دولت کو اس تجلی سے اوپر لے جائیں تو اپنی استعداد کے موافق تجلےذات سے حصہ حاصل کر لیتا ہے۔ فقیر کے خیال میں یہ تجلی برزخی اس تجلی ذاتی کا اصل ہے جس کو شیخ محی الدین بن عربی قدس سرہ نے اس عبارت سے تعبیر فرمایا ہے والتجلى من الذات لا يكون إلا بصورة المتجلی له فا لمتجلی  له ماری سوی صورته في مراۃ الحق ومارى الحق ولا يمكن أن يراه ( تجلی ذات متجلی لہ (جس پر تجلی ہوتی ہے) کی صورت کے سوا نہیں ہوتی کیونکہ متجلی لہ نے اپنے آپ کو حق تعالیٰ کے آئینہ میں دیکھا ہے نہ کہ حق تعالیٰ کو اور نہ ہی اس کو دیکھ سکتا ہے) اور شیخ اس تجلی کوتمام تجلیات کا منتہا کہتا ہے اور اس سے اوپر کوئی مقام نہیں جانتا اور اس طرح کہتا ہے۔ وما بعد هذا التجلي إلا العدم المحض فلا تطمع ولا تتعب في أن ترقى من هذه الدرجة إلى التجلى الذاتی (اس تجلی کے بعد محض عدم ہے تجلی ذات سے آگے ترقی کرنے کاطمع نہ کر اورناحق اپنے آپ کو تکلف میں نہ ڈال )عجب معاملہ ہے کہ مطلوب حقیقی تک پہنچنا اسی تجلی سے آگے ہے اور شیخ وہاں سے ڈراتا ہے اور آیت کریمہ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ ‌نَفْسَهُ ( الله تعالیٰ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے)کے موافق خوف و دھمکی دیتا ہے۔ ہم آواره اگر اس میں طمع نہ کریں اور اس کے حاصل ہونے میں رنج وتعب برداشت نہ کریں اور جوہرنفیس کو چھوڑ کرنکمی ٹھیکر یوں پرتسلی کر بیٹھیں تو پھر ہم کس کام کے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جیسا مرتبہ ہوویساہی اس سے حصہ ملتا ہے ۔ وہ حصہ جوبیچون سے ملتا ہے وہ بھی بیچون ہوتا ہے کیونکہ چون کوبیچون کی طرف راستہ نہیں ۔ پس وہ معرفت بھی جو اس مرتبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اس معرفت کی طرح نہ ہوگی جو چون سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس معرفت کی وہاں گنجائش نہیں۔ اسی واسطے کہتے ہیں ۔ العلم في ذات الله سبحانه جھل الله تعالیٰ کی ذات میں علم سراسر جہل ہے یعنی اس علم کی قسم سے نہیں ہے جوممکن سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ مقولہ کیف میں سے ہے اور اس بارگاہ میں کوئی کیف نہیں اور حق تعالیٰ کی ذات میں تفکر کرنے سے اس واسطے منع کیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ فکر وتخیل سے ماوراء ہے۔ حق تعالیٰ کوحق تعالیٰ ہی سے پاسکتے ہیں نہ کہ فکر و خیال سے) رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر ۔

شیخ قدس سره کو چاہیئے تھا کہ یوں کہتا۔ وما بعد هذا التجلي إلا الوجود الصرف والنور المحض کہ اس تجلی کے بعد وجود صرف اور نورمحض ہے)

 بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تجلی کے بعد جو عدم کہا ہے اس اعتبار سے کہا ہے کہ عالم صفات کاظل ہے۔ صفات سے اوپرگزرتا اپنے عدم میں کوشش کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ عارف جو صفات سے کہ اس کا اصل ہے اوپر نہ جائے اور شیون و اعتبارات ذاتیہ سے آگے نہ گزرے تو اس نے کیا کام کیا اور کس لیے آیا ۔ اس فنا و بقاء نے جو اس کو ہر مرتبہ میں میسر ہوا ہے۔ اس کو اصل سے اوپر جانے کے لیے دلیر کیا ہے اور اصل کے بقا سے اصل سے گزر کر اصل الاصل تک جا پہنچتا ہے۔ بیت 

يَحْتَرِقُ بِالنَّارِ مَنْ يَحُسُّ بِهَا … فَمَنْ هُوَ النَّارُ ‌كَيْفَ ‌يَحْتَرِقُ

ترجمہ بیت جلاتی آگ ہے اس کو جو ہاتھ اس کو لگاتا ہے جو خود ہو آگ پھر شعلہ اسے کیونکر جلاتا ہے

شیخ قدس سرہ اگر اس ظل کے اصل تک پہنچتا تو فوق کی ترقی سے نہ خود ڈرتانہ اور وں کو ڈراتا لیکن حسن ظن اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس بزرگوار نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مقام سے ترقی کرلی ہوگی اور اصل معاملہ کومعلوم کر لیا ہوگا۔ کسی بزرگ کے حال کو اس کے قال کی ترازو پرنہ تولنا چاہیئے۔ شاید اس نے اس کلام کوتوسط و ابتدا میں کہا ہو اور پھر وہاں سے اوپر کی منزلیں ترقی کرگیا ہو۔ مَنِ اسْتَوَى يَوْمَاهُ ‌فَهُوَ ‌مَغْبُونٌ (جس کے دونوں دن برابر ہیں وہ خساره والا ہے ) وَالله سُبْحَانَهُ الْمُوَفِّقُ (اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے تجلی ذات کی نسبت کیا لکھا جائے اور کیا لکھا جا سکے کیونکہ و ہ ذوقی ہے جو وہاں پہنچ گیا۔ اس کو پائے گا۔ وَمَنْ لَّمْ يَذُقْ لَم يَدْرِ ( اور جس نے اس کا مزہ نہیں چکھا نہیں جانا)

قلم اینجا رسید وسر بشکست – ترجمہ قلم کاسر یہاں آ کرگیا ٹوٹ 

اتنا ظاہر کیا جاتا ہے کہ تجلی ذات اس عارف کے میں جس کے فناء کا ذکر اوپر ہو چکا ہے دائمی ہے اور جو کچھ دوسروں کے لیے برق کی طرح ہے اس کے لیے دائمی ہے۔ تجلی برقی درحقیقت تجلی ذاتی نہیں۔ اگر چہ بعض نے اس کو تجلےذات کہا ہے بلکہ شیون ذات میں سے کسی شان کی تجلی ہے جو سريع الاستتاریعنی جلدی پوشیدہ ہو جانے والی ہے اور جہاں تجلی ذات ہے۔ شیون و اعتبارات کے ملاحظہ کے بغیرہے جس کے لیے دوام لازم ہے۔ وہاں استار اور پوشیدگی متصور نہیں ۔ تجلیات کی تلو ینات شیون وصفات کا نشان دیتی ہیں وہ حضرت ذات تعالیٰ ہی ہے جوتلوینات سے منزہ اور مبرا ہے او استتاریعنی پوشیدگی کی وہاں گنجائش نہیں۔۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ211ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں