تجلی کا مفہوم

تجلی کا مفہوم

لغت میں ظاہر ہونے ، روشن ہونے اور جلوہ کرنے کو تجلی کہتے ہیں ۔  مراد ذات و صفات ِ خداوندی کا ظہور ہے ذات مطلق کا اظہار لباس تعین ہی میں ممکن ہے ۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسی وجہ سے لباس تعین کو تجلی کہتے ہیں۔ ہر وہ شان وہ کیفیت اور وہ حالت جس میں حق تعالٰی یا اس کی کسی صفت یا فعل کا اظہار ہو تجلی  ہے۔

التجلی کے معنی ہیں ظاہر ہونا اور ہو یدا ہونا اور جلوہ بار ہونا اور یہ ( تجلی ) کبھی بالذات ہوتی ہے جیسے وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى [ اللیل/ 2] اور دن کی جب نمایاں طور پر روشنی ہوجائے۔ اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ [ الأعراف/ 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ افروز ہوا ۔

 تجلى الشئ تکشف وبان وظهر  – یعنی تجلی کسی شے کے منکشف اور ظاہر ہونے کا نام ہے۔

 تجلی کے معنی ہیں چمکنا، ظاہر ہونا منکشف ہونا صوفیاء کے نزدیک تجلی کا تصور یہ ہے کہ ذات حق تعالی نورہے یہ نور گویا جب صورتوں پرجلوہ گر ہوکرچمکتا ہے تو وہ اسی تجلی کو ظہور(ظاہر ہونا) سریان(سرایت) اور مظہر(ظاہر ہونے کی جگہ) سے تعبیر کرتے ہیں حضرت سید شریف علی بن محمد الجرجانی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ اصطلاحات صوفیاء کے بیان میں تحریر کرتے ہیں

التجلی  ماینکشف للقلوب من انوار الغیوب ( کتاب التعریفات ص 117، علامہ شريف الجرجاني،دار الكتب العلمية بيروت -لبنان )

یعنی غیبی انوار کے دلوں پر منکشف ہونے کا نام تجلی ہے

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی مجددی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

التجلی ظہور الشی فی المرتبہ الثانیہ  کا لظہور زید فی المرأۃ

کسی شے کے دوسرے مرتبے میں ظہور کو تجلی کہتے ہیں جیسے زید کی صورت کا آئینہ میں ظاہر ہونا۔

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز تجلی کا مفہوم یوں واضح فرماتے ہیں  

یعنی کسی شے کے دوسرے یا تیسرے یا چوتھے مرتبے میں جہاں تک اللہ تعالی چاہے ظاہر ہونے کو تجلی کہتے ہیں۔

تجلی کی دو قسمیں ہیں:

تجلی ظہوری

تجلی ظہوری  جیسے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نور الہی کا غلبہ ظاہر ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے۔

تجلی اظهاری

تجلی اظہاری یہ ہے کہ اصطلاح میں ہر لباس تعین کو تجلی کہتے ہیں جیسے وحدت کو تجلی اول. واحدیت کو تجلی ثانی اور اسی ترتیب سے تمام تعینات کو تجلی کہتے ہیں۔

مراتب سلوک میں ترقی کی ابتدا تجلی ذاتی سے ہوتی ہے یہی وہ تجلی ہے جس کو حضرت ابن عربی علیہ الرحمہ اپنے ساتھ مخصوص جانتے ہیں امام ربانی کے نزدیک تجلی ذاتی سرور عالم ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے حق میں دائمی ہیں اور اولیائے محبوبین محمدی المشرب ( محمدی المشرب تمام مراتب کا جامع ہے اس میں سالک متخلق باخلاق اللہ ہو جاتا ہے اس ولایت کو ولایت حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سالک کو محمدی المشرب کہتے ہیں )بھی بواسطہ متابعات ومناسبت سرور عالم ﷺ تجلی ذاتی سے مشرف ہوتے ہیں۔

اکثر مشائخ کے نزدیک یہ تجلی برقی ہے یعنی برق مانند تھوڑے سے وقت کے لئے حجابات اٹھتے ہیں اور پھر اسماء و صفات کے پردے ڈال دئیے جاتے ہیں لیکن اکابر نقشبندیہ کے نزدیک یہ تجلی ذاتی دائمی ہے کبھی زائل اور غائب نہیں ہوتی یہی ان بزرگوں کی نسبت خاصہ ہے یعنی دوام الحضورمع اللہ اسی لئے فرمایا یا ۔

اِنَّ نِسْبَتَنَا فَوْقَ جَمِيْعِ النِّسَبِ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بالاتر ہے

تجلی ذاتی

تجلی ذاتی وہ ہے جس کا مبدأ ذات ہو اور اس کے ساتھ صفات میں سے کسی صفت کا اعتبار نہ ہو اگرچہ وہ تجلی اسماء و صفات کے واسطے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی کیونکہ حق تعالی موجودات پر اپنی ذات کی حیثیت سے تجلی نہیں فرماتا بلکہ اسماءکے پردوں میں سے کسی پردے کے پیچھے سے تجلی فرماتا ہے۔ تجلی ذاتی سالک کو فانی مطلق(بقا باللہ)  بناتی ہے۔

جب دل کا آئینہ ماسواللہ کی کدورت سے پاک صاف ہو جاتا ہے تو تجلی حق کے قابل سمجھا جاتا ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ جس کا دل صفا ہو اس کو تجلی کی سعادت بھی حاصل ہو تجلی کیلئے دل صفا ضروری ہے لیکن دل صفا پر تجلی ہونا ضروری نہیں

تجلی صفاتی

تجلی صفاتی وہ ہے جس کا مبداء حق تعالی کی صفات میں سے کوئی صفت ہوں اپنے تعین اور ذات سے امتیاز کے اعتبار سے
اس تجلی میں سالک حق تعالی کو امہات صفات( صفات ثمانیہ) میں متجلی پاتا ہے۔

تجلی ذاتی کے مفہوم

تجلی ذاتی کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں

پہلا مفہوم صوفیہ وجودیہ کے نزدیک ذات بحت احدیت کے مرتبہ ظہور کو تعین اول اور تجلی ذاتی کہا جاتا ہے ۔

دوسرا مفہوم صوفیاء شہودیہ کے نزدیک سالکین کے دلوں پر انوار الہی کے بیرنگ اور بے جہت تجلی کو تجلی ذاتی کہا جاتا ہے ۔

سالکین راہ طریقت حضرت حق سبحانہ و تعالی کو تجلیات صوری کے ساتھ دیکھتے ہیں یہ آثار کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں

اور تجلیات نوری سے دیکھتے ہیں وہ افعال کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں

اور تجلیات معنوی کے ساتھ دیکھتے ہیں وہ صفات کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں

اور تجلیات ذوقی سے دیکھتے ہیں وہ ذات سے تعلق رکھتی ہیں

اور صوری میں جو کہ آثار کے ساتھ نسبت رکھتی ہے حق تعالیٰ تمام اشیاء کی صورت میں بندہ پر تجلی فرماتا ہے۔


ٹیگز

تجلی کا مفہوم” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں