تسویف اور تاخیر سے منع کرنے اور جھڑ کنے اور شریعت کی متابعت پر ترغیب دینے اور اس کے مناسب بیان میں محمد شریف کی صادر فرمایا ہے۔
اے فرزند! آج فرصت کا وقت ہے اور جمعیت (اطمینان)کے اسباب سب مہیا ہیں تسویف(آج کا کام کل پر ڈالنے) اور تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ بہتر وقت کو جو جوانی کا وقت ہے بہتر عملوں میں جو مولی کی اطاعت و عبادت ہے صرف کرنا چاہیئے اورمحرمات ومشتبہات سے بچ کر پنج وقتی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے نصاب کے ہونے پر زکوة کا ادا کرنا ضروریات اسلام سے ہے۔ اس کو بھی رغبت اور منت سے ادا کرنا چاہیئے ۔ حق تعالی نے اپنے کمال کرم سے تمام دن رات میں پنج وقت عبادت کے لئے مقرر کئے ہیں اور بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے چار پاؤں سے چالیسواں حصہ تحقیقاً اور تقریبا ًفقراء کے لئے مقرر فرمایا ہے اور مباحات خر چوں کا میدان فراخ کردیا ہے تو پھر کس قدر نا انصافی ہے کہ دن رات کی ساٹھ گھڑیوں میں سے دو گھڑی بھی حق تعالی کی بندگی میں صرف نہ ہوں اور چالیس حصوں میں سے ایک حصہ بھی فقراء کو ادا نہ کیا جائے اور مباحات کے وسیع دائرہ سے نکل کر محرمات اور مشتبہات میں جاپڑیں جوانی کے وقت جبکہ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) اور شیطان لعین کا غلبہ ہے تھوڑے عمل کو بہت سے اجر کے عوض قبول کرتے ہیں اور جبکہ بڑھاپے کی عمر تک بچ جائیں گے اور حواس اور قوتیں سست ہوجائیں گی اور جمعیت کے اسباب پراگندہ ہو جائیں گے تو سوائے ندامت و پشیمانی کے کچھ حاصل نہ ہو گا اورممکن ہے کہ کل تک مہلت نہ دیں اور ندامت و پشیمانی کا موقع بھی جو ایک قسم کی توبہ ہے ہاتھ نہ آئے اور ہمیشہ کا عذاب جس کی نسبت پیغمبر صادق علیہ السلام نے خبر دی ہے اور گنہگاروں کو اس سے ڈرایا ہے۔ درپیش ہے اس میں کچھ خلاف نہیں ہے۔ آج شیطان خدا کے کرم پر مغرور کر کے سستی میں ڈالتا ہے اور اس کی عفو کا بہانہ بنا کر گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
جاننا چاہے کہ دنیا آزمائش اور ابتلا کا مقام ہے اس میں دشمن و دوست دونوں کا ملایا ہوا ہے اور دونوں کو رحمت میں شامل کیا ہے وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ( میری رحمت نے سب چیزوں کو گھیر لیا ہے اس بات پر شامل ہے۔ لیکن قیامت کے دن دشمن کو دوست سے جدا کر دیں گے۔ وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (اے مجرمو الگ ہو جاؤ) اسی مضمون کی خبر دیتی ہے۔ اس وقت رحمت کا قر عہ دوستوں کے نام ڈالیں گے اور دشمنوں کومحروم مطلق اور لعنت کامستحق فرمائیں گے۔ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (میں اس کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور میری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں) اسی مطلب کا گواہ ہے۔ یعنی میں رحمت کو ان لوگوں کے لئے ثابت کروں گا جو کفرو معاصی سے بچتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ پس کرم و رحمت آخرت میں نیکوکار اور پرہیز گار مسلمانوں کے لئے ہاں مطلق اہل اسلام کے لئے بھی خاتمہ بالخیر ہونے پر رحمت کا کچھ حصہ ہے اگر چہ بے شمار زمانوں کے بعد دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں گے لیکن گناہوں کی سیاسی اور آسمانی نازل ہوئے ہوئے احکام کی پروا نہ کرنا نور ایمان کو کب سلامت لے جانے دیتا ہے۔
علماء نے فرمایا ہے کہ صغیرہ(گناہ) پر اصرار کرنا کبیرہ تک پہنچا دیتا ہے اور کبیر ہ پر اصرار کرنا کفر تک لے جاتا ہے۔ اللہ تعالی بچائے۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ دل آزرده شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ: غم دل اس لئے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے مشفق کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا
حق تعالی حضرت محمدﷺکے طفیل اپنی مرضیات و پسندیدہ کاموں کی توفیق دے۔
بقیہ مقصود یہ ہے کہ حال رقیمہ ہذا مولانا اسحاق فقیر کا مخلص اور آشنا ہے اور قدیم سے ہمسائیگی کا حق بھی رکھتا ہے اگر مدد و اعانت طلب کرے تو اس کے حال پر توجہ فرمائیں۔ موصوف کتابت اور انشاء (تحریر)میں اچھی مہارت رکھتا ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ262ناشر ادارہ مجددیہ کراچی