تنزلات مراتب
تنزلات مراتب تنزل کا لغوی معنی نیچے اترنے اور اوپر سے نیچے آنا ہے ۔
تنزل کے معنی یہ ہیں کہ شے اپنے اصلی وجود میں بعینہ باقی رہ کر ظلی طور پر ایک دوسرا وجود اختیار کرے
تنزلات کا مفہوم
جب اللہ کی ذات نے مرتبہ اولیٰ یا مرتبہ لاتعین اور وراءالوراء سے جن زینوں سے علی الترتیب نزول فرما کر باغ کائنات کی گلشن آرائی فرمائی تو اس کو صوفیاء تنزلات کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں
اصطلاح تصوف میں ذات کے ظہور کو تنزل کہتے ہیں مگر تصوف میں تنزلات مراتب سے لغوی معنی مراد نہیں بلکہ اصطلاحی معنی ملحوظ ہے یعنی وجود کا اپنی ذات و صفات کو قائم رکھتے ہوئےظہور فرمانا کیونکہ وجود جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے اس میں کسی قسم کا تغیر واقع نہیں ہوا اس کی شان الان کما کان ہے۔
صوفیائے کرام نے ذات کے چھ مراتب قرار دئیے ہیں جن مرتبوں سے علی الترتیب نزول فرما کر کائنات میں ظہور فرمایا ہے ان مرتبوں کو تنزلات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور حسب موقع ان کو تعینات ،تجلیات، اعتبارات اور تقیدات کے ناموں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے نیز یہ تمام تنزلات شہودی اور اعتباری ہیں نہ کہ وجودی اورحقیقی یعنی تمام تنزلات شہود میں واقع ہوئے ہیں نہ کہ وجود میں۔
تنزلات ستہ
حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ اور ان کے متبعین کا موقف یہ ہے کہ وجود وجود مطلق ہے اور مراتب وحدت میں یہ مرتبہ لاتعین ہے وحدت اپنے تعینات یا تنزلات میں چھ مراتب سے گذرتی ہےپہلے دو تنزلات علمی ہیں اور بعد کے تنزلات عینی یا خارجی تنزل حق کے چھ مراتب یعنی (1) احدیت، (2)وحدیت،(3)واحدیت، (4)عالم ارواح، (5)عالم مثال (6) عالم شہادت۔
پہلا تنزل مرتبہ احدیت اس کو لاتعین ذات بحت کہتے ہیں اس میں ذات کو اپنا شعوربحیثیت وجود محض حاصل ہوتا ہے اورشعور صفات اجمالی رہتا ہے۔
دوسرا تنزل مرتبہ وحدت علم عمل علم ذاتی حقیقت محمدیہ اس کو تعین اول کہتے ہیں اسی مرتبہ میں ذات نے اپنے آپ کو انا سے تعبیر فرما یا ہے اس میں ذات کو اپنا شعور بحیثیت متصف بہ صفات ہوتا ہے یہ صفات تفصیلی کا مرتبہ ہے( یعنی صفات کے بالتفصیل واضح ہونے کا )یہ دونوں تنزلات بجائے واقع ہونے کے ذہنی یا محض منطقی تنزلات کے طور پر تصور کئے گئے ہیں کیونکہ وہ غیر زمانی ہیں اور خود ذات و صفات کا امتیاز بھی صرف ذہنی ہے اس کے بعد تنزلات عینی یا خارجی شروع ہوتے ہیں۔
تیسرا تنزل مرتبہ واحدیت علم تفصیلی نفس رحمان حقیقت ادم ہے اس کو تعین ثانی کہتے ہیں اس مر تبہ میں ذات کو علم تفصیلی اپنی صفات و اسماء کا ہے ان تینوں مراتب کو مراتب باطنی اور داخلی کہتے ہیں
چوتھا تنزل رتبہ عالم ارواح یہ عالم بحر نا پیدا کنار ہے۔ ایک طرف ذات بیجوں سے بکیفیت بیچونی متصل ہے دوسری طرف عالم اجسام سے متصل ہے۔ روح مقیم اسی کو کہتے ہیں روح الروح روح اعظم اسی کا نام ہے یہ ایک عالم بسیط اور الطف ہے بے کیف ہے شش جہات سے بری ہے قرب اور بعد سے پاک ہے۔ افرادعالم میں ہر کسی کی استعداد کے موافق اس میں متصرف ہے ۔ جماد میں روح جمادی نباتات میں روح نباتی حیوان میں روح حیوانی ۔ انسان میں روح انسانی اسی کا نام ہے جب کسی قسم کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے ظاہر و باطن میں اس کے متصرف ہوتی ہے اسی کا نام حیات ہے اور جب اس کا تعلق جسم سے منقطع ہو جاتا ہے ۔ تصرف ظاہر وباطن سے اٹھ جاتا ہے وہ موت ہے ۔ اور حالت نوم میں اس کا تصرف ظاہری بند ہو جاتا ہے اور باطنی قائم رہتا ہے اسی لئے نوم کو موت کی بہن کہا جاتا ہے ۔ حدیث ( النوم اخ الموت) یہ عیون مثالی ہے جس سے عالم مثال وجود میں آتا ہے
پانچواں تنزل عالم مثال اس کو عالم برزخ اور روح جاری بھی کہتے ہیں یہ ایک لطیف حسم ہے ۔ قابل طیر وسیر ہے خواب اور مشاہدہ میں نظر آتا ہے اپنے ہا تھ سے چھوا نہیں جاتا۔ آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔ اس کی صورتوں کے مطابق عالم اجسام کا ظہور ہےتعین جسدی ہے اس سے مظاہر یا اشیاء طبعی ظاہر ہوتی ہیں۔
چھٹا تنزل ، عالم اجسام عالم شہادت اسی کو کہتے ہیں یہ قابل لمس ہے اسے ظاہری آنکھ سے دیکھا جاتا ہے عالم ذات کا انتہاء ظہورہے یہ تینوں عالم یعنی عالم ارواح عالم مثال عالم اجسام ذات کے مراتب خارجی کہلاتے ہیں واضح رہے کہ ذات کے یہ چھ مراتب ہیں ان کو نزلات ستہ کہتے ہیں اور یہ سب عین ذات میں غیرت محض اعتباری ہے اور وہ ذات مطلق با وجود ان تعینات اور تنزلات کے ویسی ہی بے چون وبے جنگون ہے اس مقدمہ کا کھل جانا توحید ذوقی ہے
ذات کے مرتبہ ظہور کو تعین کہتے ہیں جو چھ ہیں تنزلات ستہ کو تعینات ستہ اور حضرات ستہ بھی کہا جاتا ہے
“تنزلات مراتب” ایک تبصرہ