محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اے حرام اور سود کھانے والو!
تم میرے پاس سے نکل جاؤ، میں قاضی نہیں ہوں جو حد لگا دوں ، میں تو حید واخلاص کی تربیت دینے والا ہوں ، میں بغیر منفعت کے تمہاری کثرت کے کیا کروں گا، تمہارے اعمال تمہارے چہروں پر بھلائی یا برائی کو خود پکار رہے ہیں۔ خاموشی بہتر ہے، اس کا انتظار کیا جائے کہ شاید تیرے چہرے سےیہ حالت محو کر دی جائے ، شاید تیری خلوت متغیر ہو جائے اور تیرے چہرے سے سیاہی محو کر دی جائے ۔
اہل شہر سے ایک شخص حج کر کے واپس آیا اور میرے پاس آیا، میں نے اسے کہا کہ تو اللہ سے توبہ کر ۔ اس نےکہا: میں توحج میں تھا ۔ میں نے اسے کہا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن پھر جوز نا اور فسق و فجور ہوا، اس سے تو تو بہ نہ ہوئی ۔ لیکن اس نے توبہ نہ کی ، جب وہ مر گیا تو نماز جنازہ کے بعد میں نے اسے دیکھا، گویا وہ تابوت سے نکلا اور میرے دامن سے لپٹ گیا ۔ میں نے اسے کہا:
اسی سے تو میں نے تجھے ڈرایا تھا جس چیز کا دعوی تم کرتے ہو اس میں تمہارا جھوٹ اور مکر کس قدر زیادہ ہے، آ یا کوئی تیرا شیخ ہے اور ہوگا، پس اسے اس کے سپرد کر دے، حتی کہ وہ تجھے تیری آ زادی کا پروانہ دے دے اور تیری سیاہی کو وہ تجھ سے محو کر دے ، تا کہ تو اطاعت و بھلائی سے کمزور نہ پڑ جائے ، چنانچہ تو اسے موت کے ۔ وقت جدائی کے وقت پڑھ لے گا ، میں اس دن کے لئے تمہاری شفاعت کی امید کروں، کیونکہ یہ شرک ہے، تو حیدتو بچپن سے ہے، اس دن کیا اسے ضائع کر دوں گا ، میرے او پر دروازہ کھلا ہوا ہے، کیا اسے تمہاری وجہ سے بند کر دوں گا ، نہ کوئی دوستی ہے اور نہ کوئی بزرگی‘‘۔ اسی دوران آپ کی مجلس میں ایک شیخ نے چیخ ماری اور کہا: اللہ!‘‘ آپ نے فرمایا: عنقریب تجھ سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ کس نیت سے کہا تھا؟ ریا ءونفاق سے کہا تھا یا اخلاص سے یا شرک سے یہ دن ہتھوڑا لے کر آیا ہے، جو چا ہے بیٹھار ہے اور جس کا دل چاہے چلا جاۓ۔ یہ کہہ کر آپ نے چیخ ماری، کثیر مخلوق آپ کے گرد کھڑی ہوگئی ، سب چیخ چیخ کر روروکرتو بہ کرنے لگے، اس دوران ایک چڑیا آ گئی، وہ آ کر آپ کے سر پر بیٹھ گئی ۔ آپ نے اپنا سر اس کے لیے جھکا دیا، اور آپ اس طرح سر جھکائے بیٹھے رہے، اور وہ چڑ یا آپ کے سر پر تھی اور لوگ منبر کی سیٹرھیوں پر، چیخ و پکار آپ کے گردتھی اور وہ چڑیاہٹتی نہ تھی حتی کہ آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور وہ چڑیا اڑگئی، پھر آپ نے دعا مانگی اور لوگوں نے رونے اور دعا اور توبہ کا شور مچا دیا، اور آپ منبر سے اتر آئے ، اور اسی حالت میں جامع مسجد رصافہ کی طرف چلے گئے ، اور مخلوق کثیر تعداد میں روتی ہوئی چیختی پکار کرتی اور وجد کے عالم میں کپڑے نوچتی ہوئی آپ کے پیچھے پیچھے چلی جارہی تھی ، پھر آپ نے فرمایا: –
یہ آخری زمانہ ہے!‘‘ . اللهم إنا نعوذ بك من شره ۔ الہٰی! میں تجھ سے اس زمانے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ ایک شے ظاہر ہوتی ہے، میں اس سے بھاگنے کی تمنا کرتا ہوں ، لیکن قضا و قدر کی موافقت کرتا ہوں۔دنیا کہیں تیرے دین کو نہ لے جائے تو اپنی آبرو کی حفاظت کر کسب کر تا کہ فکر جمع ہو جائے ، کسب اللہ سے لینے کا دروازہ ہے تو کسب کر کے مخلوق سے بے نیاز ہو جا، سبب مسبب سے اور ظاہر باطن سے مخاطب ہوتا ہے، کیامشقت کرنا ایسی چیز ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے یا ہمیشہ نئی چیز کے لئے تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، اسے جواب دیا جا تا ہے۔ ” کھڑا ہو، ہمارے ساتھ چل ، ہم مسبب اور چشمہ واصل کے پاس چلیں ، قضا و قدر کی چوکھٹ پر دستک دیں علم کے دروازے پر اور وادی فضل کی چوٹی پرٹھہر یں بھری ہوئی نہر پر چلیں ، جڑ کی طرف آ ئیں‘‘۔ حتی کہ دونوں جب نہر کی جڑ پر آئے تو دیکھا کہ پانی فضل کے پہاڑ کی جڑ سے نکل رہا ہے، چنانچہ یہ دونوں وہیں بیٹھ گئے اور خیمہ ڈال دیا کفایت وعنایت متوجہ ہوئی ہدایت اور معرفت اور طرح طرح کے علم حاصل ہو گئے ، ہمارے لئے مختلف دروازے ہیں جن کے ذریعے ہم در بارالہٰی میں داخل ہوتے ہیں، تو بادب رہ۔
حضرت ابراہیم خواص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں ایک زمانہ جنگل میں رہا، وہاں میں نے کسی کو بھی نہ دیکھا ، آخر باد یہ پیمائی نے مجھے ایسی جگہ پہنچا دیا جس سے مجھ پر وحشت طاری ہو گئی وہاں اچانک میں نے ایک نوجوان کو کھڑے دیکھا، مجھے سخت تعجب ہوا ، اس سے پوچھا: ” تم کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا:ھُوَ (وہی تو ہے ) ۔ میں نے دوبارہ اس سے پوچھا:” کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘ – اس نے پھر جواب دیا: ھُوَ یہ سن کر میں نے اسے کہا: فنا کے اس مقام پر ہو کہ وہی وہ کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا، اگر تو اپنے قول میں سچا ہے تو اپنی جان کو اس پر قربان کر دے۔
یہ سن کر اس نے ایک چیخ ماری اور گر پڑا، میں نے بڑھ کر جواسے دیکھا تو وہ مر چکا تھا، اسے دفن کرنے کے لئے میں اس سے ہٹ کر آ یا تا کہ پتھر وغیرہ جمع کرلوں ، جب واپس لوٹا تو وہ غائب تھا۔ ہاتف غیبی کی آواز آئی: اے ابراہیم ! یہ وہ شخص تھا کہ ملک الموت نے اسے طلب کیا لیکن اسے نہ پایا، اسے جنت نے طلب کیا لیکن اسے نہ پایا – دوزخ نے اسے طلب کیا لیکن اسے نہ پایا‘‘۔ میں نے ہاتف سے عرض کیا: آخر وہ ہے کہاں! – ہاتف نے جواب دیا: اچھے ٹھکانے میں ،قدرت والے بادشاہ کے پاس جنتوں اورنہروں میں‘‘۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 753،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور