ایک بیان میں کہ حق تعالی کا وجود اور اس کی وحدت اور محمد رسول اللہ ﷺکی نبوت بلکہ تمام جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں سب بدیہی ہیں اور کسی فکر اور دلیل کے محتاج نہیں ہیں ۔ اور اس مضمون کے واضح کرنے میں بہت دلائل بیان کیے ہیں ۔ یہ کتاب بھی سرداری اور شرافت کی پناہ والے شخ فرید کی طرف لکھا ہے:۔ ثبتکم الله على جادۃ ابائکم الكرام على أؤلهم و أفضلهم أولا و على بواقيهم ثانيا الصلوة والسلام . الله تعالی آپ کو اپنے بزرگ باپ دادوں کے راستہ پر ثابت قدم رکھے اول ان سب میں سے اول اور افضل پر اور پھر ان میں سے باقیوں پر صلوة وسلام ہو۔
حق تعالی کا وجود اور ایسے ہی ان کی وحدت بلکہ حضرت محمد رسول الله ﷺکی نبوت بلکہ جو کچھ آپ الله تعالی کی طرف سے لائے ہیں سب بدیہی(جس کے سمجھنے یا سمجھانے میں غور و فکر نہ کرنا پڑے) ہیں اور کسی فکر اور دلیل کے محتاج نہیں ہیں ۔ بشرطیکہ قوت مدر کہ(فہم و ادراک کے متعلق قوت) ردی آفتوں اور باطنی مرضوں سے سلامت اور تندرست ہو ۔
کیونکہ ان امور میں نظر وفکر سے کام لینا قوت مدر کہ میں کسی علت و آفت کے موجود ہونے سے ہے لیکن مرض قلبی سے نجات پانے اور باطنی آنکھوں کے آگے سے پردہ دور ہو جانے کے بعد بداہت ہی بداہت ہے۔
مثلا صفراوی آدمی جب تک مرض صفرا میں گرفتار ہے قند اور مصری کی شیرینی اس کے نزدیک دلیل کی محتاج ہے لیکن اس بیماری سے خلاصی پا جانے کے بعد کسی دلیل کی حاجت نہیں اور یہ احتياج جس کا مبداء و بیماری کا ہونا ہے بداہت کے مخالف نہیں ہے۔
بیچارہ احول (بھینگا)جو ایک شخص کو دو دیکھتا ہے اور اس شخص کے ایک نہ ہونے کا حکم کرتا ہے معذور ہے اور میں بیماری کا ہونا اس شخص کے ایک ہونے کو بداہت سے خارج نہیں کرتا اور نہ ہی دلیل کی طرف محتاج کرتا ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ استدلال کا میدان بہت تنگ ہے اور دلیل کے ذریعے یقین کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے ۔ پس یقینی ایمان حاصل کرنے کیلئے دلی امراض کا دور کرنا ضروری ہے۔ صفراوی مزاج والے کو مصری و قندکی شیرینی کے یقین حاصل کرنے کیلئے صفراوی مرض کا دور کرنا اس بات سے نہایت ضروری ہے کہ مصری و قند کی شیرینی کے یقین پر دلیل قائم کرے۔
بھلا دلیل سے اس کو کس طرح یقین حاصل ہوسکتا ہے جب کہ اس کا وجدان اور ذوق صفراوی بیماری کے باعث مصری کے کڑوا ہونے کا حکم کرتا ہے اور ایسے ہی حال ہے جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں کیونکہ نفس اماره بالذات احکام شرعیہ کا منکر ہے اور بالطبع ان کے برخلاف حکم کرنے والا ہے ۔ پس ان سچے احکام کے ساتھ بذریعہ دلیل کے یقین حاصل کرنا جب کہ استدلالی (دلیل سے حاصل ہو)وجدان ان کے انکار کا حکم کرتا ہے۔ بہت دشوار ہے ۔ پس نفس کا پاک کرنا نہایت ضروری ہے۔ بغیر تزکیہ (رذائل سے پاک) کے یقین حاصل ہونا مشکل ہے۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا َقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا تحقیق خلاص ہوگیا جس نے اس کو پاک کیا اورمحروم رہا جس نے اس کو آلودہ کیا۔
پس ثابت ہوا کہ اس روشن شریعت اور ظاہر ملت کا منکر مصری کی مٹھاس کے منکر کی طرح ہے ۔
خورشید نه مجرم ار کسے بینا نیست ترجمہ: اگر کوئی ہے خود اندھا گناه خورشید کا کیا ہے۔
پس سیر و سلوک اور تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے مقصود یہ ہے کہ باطنی آفتیں اور دلی امراض کہ جن کی نسبت في قلوبهم مرض میں ارشاد کیا گیا ہے کہ دور ہو جائیں تا کہ ایمان کی حقیقت حاصل ہو جائے اور ان امراض و آفات کے باوجود اگر ایمان ہے تو صرف ظاہری اور رسمی طور پر ہے کیونکہ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کا وجدان اس کے بر خلاف حکم کرتا ہے اور اپنے کفر کی حقیقت پراڑا ہوا ہے ۔ اس قسم کے ایمان اور ظاہری تصدیق کی مثال ایسی ہے ۔ جیسے قندو مصری کی مٹھاس کے ساتھ صفراوی مزاج والے کا ایمان کے اس کا وجدان اس کے برخلاف گواہ ہے ۔ شکر کی شیرینی کے ساتھ حقیقی یقین کا حاصل ہونا مرض کی صفراوی کے دور ہو جانے کے بعد متصور ہے پس تزکیہ نفس اور اس کے اطمینان کے بعد ایمان حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور اس قسم کا ایمان زوال سے محفوظ ہے أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ایسے ایمان والے لوگوں کےحق میں صادق ہے۔
شرفنا الله سبحانه بشرف هذا الإيمان الكامل الحقيقى بحرمة النبي الأمي القمرين عليه و على اله من الصلوات افضلها و من التسلیمات اکملها – اللہ تعالی اپنے نبی امی قریشی ﷺ کے طفیل ہم کو اس قسم کے کامل اور حقیقی ایمان سے مشرف فرمائے ۔ آمین۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ170 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی