تہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ مکتوب نمبر80دفتر اول

 اس بیان میں کہ تہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ اہلسنت و جماعت کا فرقہ ہے اور بدعتی فرقوں کی برائی اور اس کے مناسب بیان میں مرزا فتح الله خاں حکیم کی طرف لکھا ہے۔

اللہ تعالی شریعت  مصطفوی ﷺکے راستہ پر استقامت بخشے۔

 کار نیست غیر ایں ہمہ  ہیچ

 تہتر فرقوں میں سے ہر ایک فرقہ شریعت کی تابعداری کا مدعی ہے اور اپنی نجات کا دعوی کرتا ہے۔ كُلُّ ‌حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ان کے حال کے شامل ہے لیکن وہ دلیل جو پیغمبر  صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے ان متعددفرقوں میں سے ایک فرقہ ناجیہ کی تمیز کیلئے بیان فرمائی ہے۔ یہ ہے۔

الذين هم على ‌مَا ‌أَنَا ‌عَلَيْهِ ‌وَأَصْحَابِي ایک فرقہ ناجیہ وہ لوگ ہیں جو اس طریق پر

ہیں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔

اصحاب کا ذکر صاحب الشریعت علیہ الصلوة والسلام نے ذکر کے کافی ہونے کے باوجود اس مقام میں اسی واسطے ہوسکتا ہے تا کہ معلوم ہو جائے کہ میرا طریق بعینہ اصحاب کا طریق ہے اور نجات کا راستہ صرف ان کے طریق کی اتباع سے وابستہ ہے جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ ‌أَطَاعَ اللَّهَ پس رسول اللہ کی اطاعت میں اللہ  کی اطاعت ہے اور ان کی مخالفت بعینہ  اللہ  تعالی کی نافرمانی ہے۔

جن لوگوں نے خدائے تعالی کی اطاعت کو رسول الله ﷺ کی اطاعت کے برخلاف تصور کیا ہے حق تعالی نے ان کے حال کی خبر دی ہے اور ان پر کفر کا حکم لگایا ہے۔حق تعالی فرماتا ہے۔

وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ارادہ کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق ڈالیں اور کہتے ہیں کہ بعض کے ساتھ ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض سے ہم انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان راستہ اختیار کرلیں۔ یہی لوگ کے کافر ہیں۔

پس مذکورہ بالا صورت میں اصحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے طریق اور تابعداری کے برخلاف حضور علیہ الصلوة والسلام کی تابعداری کا دعوی کرنا باطل اور جھوٹا ہے بلکہ حقیقت میں وہ اتباع رسول الله ﷺکی عین نا فرمانی ہے پس اس مخالف طریق میں نجات کی کیا مجال ہے ‌وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ (اور گمان کرتے ہیں یہ کہ وہ اوپر کسی چیز کے ہیں ، خبردار ہو تحقیق وہی ہیں وہ جھوٹے) ان کےحال کے موافق ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ فرقہ جس نے آنحضرت ﷺکے اصحاب کی تابعداری کو لازم پکڑا ہے۔ اہلسنت و جماعت ہی ہیں۔ خدائے تعالی ان کی کوشش کو مشکور فرمائے۔

پس یہی لوگ فرقہ ناجیہ ہیں کیونکہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کو طعنہ لگانے والے ان کی اتباع سے محروم ہیں جیسا کہ شیعہ اور خارجیہ اور معتزلہ خود مذہب نیا رکھتے ہیں۔ ان کا رئیس واصل بن عطاء امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ہے جو ایمان اور کفر کے درمیان واسطہ ثابت کرنے کے باعث امام سے جدا ہو گیا اور امام نے اس کے حق میں فرمایا اعتزل عنا سے جدا ہوگیا۔ اسی طرح باقی فرقوں کو قیاس کر لو اور اصحاب کے حق میں طعن کرنا درحقیقت پیغمبر خدا ﷺکو طعنہ لگانا ہے۔ لم يُؤمن برَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم من لم ‌يوقر ‌أَصْحَابهجس نے اصحاب کی عزت و تعظیم نہیں کی ، وہ رسول اللہ پر ایمان نہیں لایا کیونکہ ان کا جسدان کے صاحب کے جسد تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالی اس برے اعتقاد سے بچائے اور نیز جو احکام قرآن و حدیث سے ہم تک پہنچتے ہیں وہ انہی کی نقل کے وسیلہ سے ہیں جب  یہ مطعون ہوں گے تو ان کی نقل بھی مطعون ہوگی کیونکہ یہ نقل ایسی نہیں کہ بعض کے سوا بعض کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ سب کے سب عدل اورصدق اورتبلیغ میں برابر   ہیں ۔ پس ان میں سے کسی ایک کا طعن دین کا طعن مستلزم ہے۔ اللہ تعالی اس سے بچائے اور  اگرطعن لگانے والے یہ کہیں کہ ہم بھی اصحاب کی متابعت کرتے ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ ہم سب اصحاب کے تابع ہوں بلکہ ان کی راؤں کے متضاد ہونے اور مذہبوں کے اختلاف کے باعث سب کی تابعداری ممکن نہیں تو اس کا جواب ہم کہتے ہیں کہ بعض کی متابعت اس وقت فائدہ مند ہوسکتی ہے جبکہ بعض کا انکار اس کے ساتھ شامل نہ ہو ورنہ بعض کا انکار کرنے سے بعض کی متابعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے ثلاثہ رضوان الله تعالی علیہم اجمعین کی عزت و تعظیم کی ہے اور ان کو اقتداء کے لائق جان کر اس سے بیعت کی ہے۔ پس خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا انکار کرنا اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی متابعت کا دعوی کرنا محض افتراء ہے بلکہ وہ انکار در حقیقت حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ کا انکار ہے اور ان کے افعال و اقوال کا صریح رد ہے اور تقیہ کے احتمال کو حضرت اسد اللہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دخل دینا بھی بے وقوفی ہے ۔ عقل صحیح ہرگز اس کو جائز نہیں سمجھتی کہ حضرت اسدالله باوجود کمال معرفت اور شجاعت کے خلفائے ثلاثہ  کے بعض کو تیس سال تک پوشیده رکھیں اور ان کے بر خلاف کچھ ظاہر نہ کریں اور منافقانہ محبت ان کے ساتھ رکھیں ۔ حالانکہ کسی ادنی مسلمان سے اس قسم کا نفاق متصور نہیں ہوسکتا۔ اس فعل کی برائی کو معلوم کرنا چاہیئے کہ حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) کی طرف کس قسم کی خرابی اور فریب منسوب ہوتا ہے اور اگر بفرض محال حضرت اسدالله کے وقت میں تقیہ جائز بھی سمجھیں تو وہ تعظیم و توقیر جو حضرت پیغمبرﷺخلفائے ثلاثہ کی کرتے تھے اور ابتداء سے انتہاء تک ان کو بزرگ جانتے رہے ہیں اس کا کیا جواب دیں گے۔ وہاں تقیہ کی گنجائش نہیں۔ اس امر کی تبلیغ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام پر واجب ہے وہاں تقی کو دخل دینا زندقہ تک پہنچا دیتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔ يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ ‌بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا ‌بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ  اے میرے رسول جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو پہنچادے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو رسالت کے حق کوادانہ کیا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ . کفار کہا کرتے تھے کہ  محمدﷺان وحی کو جو اس کے موافق ہے ظاہر  کر دیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتی ہے اسے ظاہر نہیں کرتا اور اس کو پوشیدہ رکھتا اور یہ بات ثابت ہے کہ نبی کو خطا پر مقرر رکھنا جائز نہیں ۔ ورنہ اس کی شریعت  میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ پس جب خلفائےثلاثہ کی تعظیم و توقیر کے خلاف آنحضرت ﷺسے ظاہر نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کی تعظیم خطا اور زوال سے محفوظ تھی۔

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور ان کے اعتراض کا جواب ذرا صاف طور پر کہتے ہیں کہ تمام اصحاب کی متابعت دین کے اصول میں لازم ہے اور ہرگز اصول میں اختلاف نہیں رکھتے ۔ اگر اختلاف ہے تو فروع میں ہے اور جو شخص ان میں سے بعض کوطعن کرتا ہے وہ سب کی متابعت سے محروم ہے۔ ہر چندان کا کلمہ متفق ہے ۔ مگر دین کے بزرگواروں کے انکار کی بدبختی اختلاف میں ڈال دیتی ہے اور اتفاق سے باہر نکال دیتی ہے۔ بلکہ قائل کا انکار اس کے اقوال کے انکار تک پہنچا دیتا ہے اور نیز شریعت  کے پہنچانے والے سب اصحاب ہی ہیں ۔ جیسا  کہ ذکر ہو چکا کیونکہ سب کے سب اصحاب عادل تھے۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ شریعت  ہم تک پہنچائی ہے اور ایسے ہی قرآن بھی ہر ایک سے کچھ نہ کچھ لے کر جمع کیا گیا ہے ۔ پس بعض کا انکار کرنا گویا اس کی تبلیغ سے بھی انکار کرنا ہے۔ پس تمام شریعت  کا انکار منکر کے بارہ میں ثابت ہے پھر کس طرح نجات اور خلاصی کی امید ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ أَفَتُؤْمِنُونَ ‌بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ ‌بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ اب کیا تم بعض کتابوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض انکار کرتے ہو۔ پس جو شخص تم میں سے ایسا کرتے ہیں ۔ ان کی جزا سوائے اللہ کے اور کیا ہے کہ دنیا میں خوار اور ذلیل ہوں اورآخرت میں سخت عذاب کی طرف کھینچےجائیں۔

یا ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے۔ بلکہ در حقیقت جامع حضرت صدیق حضرت فاروق اور حضرت امیر رضی اللہ عنہم کی جمع اس قرآن کے سوا ہے ۔ پس سوچنا چاہیئے کہ ان بزرگواروں کا انکار فی الحقیقت قرآن کا انکار ہے۔ نعوذاللہ۔

ایک شخص نے اہل شیعہ کے مجتہد سے سوال کیا کہ قرآن حضرت عثمان رضی الله تعالی عنہ کا جمع کیا ہوا ہے۔ آپ کا اس قرآن کے حق میں کیا اعتقاد ہے ۔ اس نے کہا میں اس کے انکار  میں مصلحت نہیں دیکھتا کہ اس کے انکار سے تمام دین درہم برہم ہو جاتا ہے۔

دیگر عاقل آدمی  ہرگز قرارنہیں دیتا کہ آنحضرت ﷺکے اصحاب حضور علیہ الصلوة والسلام کی رحلت کے روز امر باطل پر اجتماع کریں اور مقرر ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام کی رحلت کے دن 33 ہزار اصحاب حاضر تھے۔ جنہوں نے رضا و رغبت سے حضرت صدیق سے بیعت کی۔ اتنے اصحاب کا گمراہی پر جمع ہونا محال ہے۔ حالانکہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے لَا ‌تَجْتَمِعُ ‌أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ»میری امت کبھی گمراہی پرجمع نہ ہوگی۔

اور جو توقف ابتدا میں حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) سے واقع ہوا ہے وہ اس واسطے تھا کہ اس مشوره میں حضرت امیر کو بلایا نہ گیا تھا چنانچہ حضرت امیر نے فرمایا ہے۔ ‌مَا ‌غَضِبْنَا إِلَّا لِأَنَّا قَدْ أُخِّرْنَا عَنِ الْمُشَاوَرَةِ، وَإِنَّا نَرَى أَبَا بَكْرٍ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہم اس واسطے ناراض ہوئے ہیں کہ ہم کو مشورہ میں بلایا نہیں گیا ۔ ورنہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ابوبکر ہم سے بہتر ہے۔

اور ان کا نہ بلانا شاید کسی حکمت پر مبنی ہوگا مثل اس کے کہ اہل بیت کو حضرت امیر کے موجود ہونے سے مصیبت کے صدمہ اول کے وقت تسلی ہو۔ وغیرہ وغیرہ اور وہ اختلاف جو اصحاب پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے درمیان واقع ہوئے تھے۔ وہ نفسانی خواہشوں سے نہ تھے ۔ کیونکہ ان کے نفس تزکیہ   پا چکے تھے اور امارگی سے اطمینان کے درجے کوپہنچ چکے تھے اور ان کے سب ارادے شریعت  کے تابع ہو گئے تھے ۔ بلکہ وہ اختلافات حق کے بلند کرنے کیلئے اجتہاد پرمبنی تھا۔ پس ان کے خطا کار کے لئے بھی اللہ کے نزدیک ایک درجہ ہے اور مصیب کے لئے خود دو درجے ثابت ہیں۔ پس زبان کو ان کے گلہ سے روکنا چاہیئے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیئے۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔ تلک د ماه طهرالله عنها ایدینا فلنطھر عنها السنتنا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالی نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔

اور نیز امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ ‌اضْطُرَّ ‌النَّاسُ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَجِدُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ خَيْرًا مِنْ أَبِي بَكْرٍ فَوَلَّوْهُ ‌رِقَابَهُمْ رسول الله ﷺ کے بعد لوگ نا چار ہو گئے۔ پس انہوں نے آسمان کےنیچے ابو بکر سے بہتر کوئی نہ پایا ۔ پس اس کو اپنی گردنوں کا والی بنالیا۔

يہ قول تقیہ کی نفی اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر حضرت امیر رضی الله تعالی عنہ کی رضا مندی کیلئے صریح اور واضح ہے۔

باقی مقصود یہ ہے کہ میاں سیدن ولد میاں  شیخ ابوالخیر شریف خاندان سے ہے اور دکن کے سفر میں آپ کے ہمراہ بھی گیا تھا۔ آپ کی توجہ اور عنایت کا امیدوار ہے اور نیز مولانا محمد عارف طالب علم اور بزرگ زادہ ہے۔ اس کا باپ ملا آدمی  تھا۔ مددمعاش کیلئے آیا ہے اور آپ کی توجہ کا امیدوار ہے۔ والسلام والکرام۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ239ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں