محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث والاربعون فی النفس الامارۃ‘‘ ہے۔
منعقده 26 رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
فلاح ونجات اللہ کی موافقت اور نفس کی مخالفت میں ہے :
اے بیٹا! تیرافلاح ونجات کا ارادہ ہے تو اللہ کی موافقت کر اورنفس کی مخالفت کر، طاعت الہی میں نفس کی موافقت کر اور معصیت الہی میں نفس کی مخالفت کر ، خلقت کی پہچان کرنے میں نفس تیرے لئے حجاب ہے، اور اللہ کی معرفت میں خلقت تیرے لئے حجاب ہے۔
جب تک خلقت کے ساتھ رہے گا ، خالق کو نہ پہچان سکے گا ، جب تک دنیا کے ساتھ رہے گا ، آخرت کو نہ پہچان سکے گا، جب تک آخرت کے ساتھ رہے گا ، رب آخرت کو نہ پہچان سکے گا۔ جیسے دنیا وآخرت یکجانہیں ہو سکتے ، ویسے ہی مالک ومملوک یکجا نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح سے خالق وخلقت کا یکجا ہونا غیر ممکن ہے، نفس بدی کی راہ چلانے والا ہے، یہ اس کی فطرت ہے، اس کی اصلاح میں کچھ وقت لگے گا، قلب کے موافق ہو جانے تک اس کی اصلاح میں لگارہ، ہر حال میں اس سے مجاہدہ کر، اسے اس ارشاد الہی سے حجت و دلیل نہ بنا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اللہ نے ہرنفس کو نیکی وبدی الہام کر دی ہے ۔ یہ ندا اللہ کی طرف سے آئے گی جبکہ نفس کدورتوں سے پاک ہو، نفس کا شر زائل ہو جائے ، قلب ، ذکر اور طاعت الہی سے پھل پھول جائے ،جب تک نفس کے لئے یہ بات حاصل نہ ہو تو اس کی کدورت اور شرارت کی وجہ سے قرب الہی کی امید نہ رکھ نفس جب تک نجاستوں سے پاک نہ ہوگا اسے بادشاہ حقیقی کا قرب کیسے حاصل ہوسکتا ہے، تو نفس کی امید کم کرتا کہ تیری مرضی کے مطابق تیری اطاعت کرے۔اسے رسول اکرم ﷺ کی نصیحت سنایا کر ، آپ ﷺ نے ارشادفرمایا إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللهِ مَا اسْمُكَ غَدًا” جب تو صبح کرے تو اپنے نفس سے شام کی بات نہ کر، اور جب شام کرے تو اپنے نفس سے صبح کی بات نہ کر۔ کیونکہ تجھے نہیں معلوم کہ کل تیرا کیا نام ہوگا ، ( زندہ یا مردہ) –
تو اپنے نفس پر غیر سے زیادہ مہربان ہے حالانکہ تو نے ہی اسے بگاڑا ہے،غیر کس لئے اس پر مہربانی کرے گا اور اس کا خیال رکھے گا تیری آرز وار حرص کی قوت نے تجھے نفس کے ضیاع کے لئے مائل کر دیا ہے، تو -آرزو کے کم کرنے، حرص کے کم کرنے موت کو یاد کرنے ، مراقبہ الہی کا ذکر کرنے ، صدیقوں کی انفاس و کلمات سے علاج کرنے ، کدورت سے پاک ذکر کرنے کے لئے کوشاں ہو۔
نفس سے کہو کہ تیری نیک کمائی تیرے فائدے کے لئے اور تیری بد کمائی تیرے نقصان کے لئے ہے، ذرا سوچ سمجھ کر عمل کر کوئی بھی تیرے ساتھ عمل نہ کرے گا ، اور نہ اپنے عمل میں سے تجھے کچھ دے گا، عمل و مجاہدہ لازی ہیں ، وہی دوست ہے جو تجھے بازرکھے ، وہی دشمن ہے جو راہ سے ہٹائے ۔
میں تجھے خلقت کے پاس دیکھتا ہوں خالق کے پاس نہیں ، تو نفس اور خلقت کے حقوق ادا کر رہا ہے جبکہ خالق کے حقوق نظر انداز کئے ہوئے ہے، نعمتیں اللہ نے دی ہیں اور شکر غیراللہ کا ادا کر رہا ہے ۔ تیرے پاس جو نعمتیں ہیں وہ کس کی عطا کردہ ہیں ،۔ کیا غیراللہ نے دی ہیں ۔ جو اس کا شکر ادا کرتا ہے۔اور اس کی عبادت کرتا ہے، جب تجھے علم ہے کہ تیرے پاس کی نعمتیں اللہ نے عنایت کی ہیں تو اللہ کا شکر کہاں ہے! –
جب تجھے علم ہے کہ اس نے پیدا کیا ہے تو اس کی فرماں برداری کرنے اور نا فرمانی سے بچنے میں تیری عبادت کہاں، اس کی بلا پرصبر کہاں ہے تو اپنے نفس سے اتنا جہاد کرتا کہ وہ راہ راست پر آ جائے ۔ ارشاد باری تعالی ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا” جولوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ، ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیتے ہیں ۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
نیز فرمایا: ”اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددکرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ تو اپنے نفس کو کھلا نہ چھوڑ ، نہ اس کی فرماں برداری کر، تجھے نجات مل جائے گی ۔ اس کے سامنےہنسی نہ کر، اس کی ہزاروں باتوں میں سے ایک کا جواب دے تا کہ اسے کچھ تہذیب آ جائے ، نفس جب تجھ سے خواہشوں اور لذتوں کی تمنا کرے تو اسے ٹالدے، کچھ دیر کرو اور اس سے کہو کہ ان کے پانے کا مقام جنت ہے ۔ نفس کو رکاوٹ کی تلخی پر صبر کرنے کی عادت ڈال یہاں تک کہ عطائے الہی نصیب ہو ۔ جب اسے صبر کی عادت ہو جائے اور وہ صبر کرنے لگے تو اللہ اس کے ساتھ ہوگا، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ– اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ نفس کی کوئی بات نہ مان ، وہ تو نافرمانی پرا کسائے گا، نفس سے دوستی ترک کر دے اور اس کے خلاف چل، اس کے خلاف چلیں تو یہ درست رہتا ہے۔
اے معرفت الہی کا دعوی کرنے والے تو اپنے دعوے میں جھوٹا ہے کیونکہ تو اپنے نفس پر قائم ہے _نفس اور حق دونوں جمع نہیں ہوتے ، دنیا اور آخرت دونوں جمع نہیں ہوتے ، جو بندہ اپنے نفس کے ساتھ ٹھہر ااس کا اللہ کے ساتھ ٹھہر نا باقی نہ رہےگا ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ”جس نے دنیا سے محبت کی اس نے آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت کی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا۔
صبر سے کام لے، جب صبر کامل ہو گا تو رضائے الہی کامل ہوگی ، جب تجھے فنا نصیب ہوگی تو ، تجھے سب کچھ علم ہو جائے گا۔ – ہر بات میں شکر گزار ہوگا۔ – دوری قرب سے بدل جائے گی، شرک، تو حید ہو جائے گا۔ تو خلقت کی طرف سے نہ فائدہ پائے گانہ نقصان ، مخالف چیزیں دکھائی نہ دیں گی۔سب دروازے اورسمتیں ایک ہو جائیں گی صرف ایک ہی جہت رہ جائے گی ۔یہ ایسی حالت ہے کہ بہت سی خلقت اسے سمجھ ہی نہیں سکتی، بلکہ یہ حالت خاص لوگوں میں لاکھوں میں سے کسی ایک کو حاصل ہوتی ہے۔
کوشش کر روح کے بدن سے نکلنے سے پہلے ہی تیرانفس مرجائے:
اے بیٹا! کوشش کر کہ تو اللہ کے سامنے یہیں مر مٹے ۔ اور یہ کوشش کر کہ روح کے بدن سے نکلنے سے پہلے ہی تیرانفس مر جائے ۔ نفس کی موت صبر کرنے اور اس کی مخالفت کرنے میں ہے، جلد ہی اس کی عاقبت نیک ہوگی۔ تیر اصبرفنا ہو جائے گا مگر اس کی جزا باقی رہنے والی ہے ۔ ( تجربے کی بات ہے میں نے صبر کیا اور صبر کی عاقبت نیک پائی ہے۔ میں مر گیا۔ پھر اس نے مجھے زندہ کیا، اس نے مجھے پھر مارا اور میں غائب ہو گیا ، غائب ہونے کے بعد پھر مجھے وجود عطا کیا ، میں اس کی معیت میں فوت ہوا اور اس کی معیت میں مالک بنا ، میں نے اختیار اور ارادہ چھوڑ دینے میں نفس سے جہاد کیا۔ حتی کہ مجھے اللہ کی معیت حاصل ہوگئی اب تقدیر الہی میرا ہاتھ تھامتی ہے، اس کا احسان میرا مددگار ہے، اس کا فعل مجھے لئے لئے پھرتا ہے، غیرت الہی میری حفاظت کرتی ہے، اور اس کی مشیت میری اطاعت کرتی ہے، سابق علم الہی مجھے آگے بڑھا تا ہے اور میرا رب مجھے بلند کئے جارہا ہے۔ تجھ پر افسوس ! تو مجھ سے بھا گتا ہے، جبکہ میں تجھ پر کوتوال ہوں ۔ میں تیرے نفس کا محافظ ہوں ، تیرا ٹھکانہ میرے پاس ہے، میرے پاس ٹھہر جاورنہ ہلاک ہو جائے گا ۔اے جاہل ، بیوقوف! پہلے میرے پاس آ ، پھر بیت اللہ شریف کا حج کرنا، میں کعبہ کا دروازہ ہوں، میرے پاس آ تا کہ میں تجھے حج کا طریقہ بتاؤں کہ حج کیسے کرتے ہیں اور میں تجھے بتاؤں کہ رب کعبہ سے کیسے بات کرنی ہے۔ جب مطلع صاف ہوگا ،غبار بیٹھ جائے گا تم پرحقیقت کھل جائے گی۔
اے سیاست دانو! میری حفاظت میں آ جاؤ، اللہ نے مجھے کامل قوت عطا فرمائی ہے ، اولیاءاللہ تمہیں وہی حکم دیتے ہیں جیسا کہ اللہ کے حکم سے میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور اس سے روکتے ہیں جس چیز سے انہیں اللہ نے روکا ہے، تمہاری خیر خواہی ان کے سپرد کی گئی ہے، وہ نصیحت کرنے میں اپنی امانت ادا کرتے ہیں ، تم دار حکمت ( دنیا ) میں عمل کرد، تا کہ دار قدرت (آخرت) تک پہنچ سکو، نیا دارحکمت ہے اور آخرت دار قدرت، حکمت کو آلات و اسباب اور اوزاروں کی ضرورت ہے جبکہ قدرت اس کی محتاج نہیں فضل الہی نے ایسا اس لئے کیا ہے کہ دار قدرت، دار حکمت سے الگ ہو جائے ، آخرت میں اشیاء کسی سبب کے بغیر وجود پائیں گی ، وہاں تمہارے اعضاء بول رہے ہوں گے۔ اللہ کی جو نافرمانیاں تم نے کی ہیں تمہارے اعضاءان کی گواہی دیں گئے تمام رات کھل جائیں گے ، اور تمام چھپی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ تم چاہو خواہ نہ چاہو تمہاری مرضی نہ چلے گی، خلقت میں سے کوئی بھی ٹھنڈے دل کے بغیر داخل نہ ہوگا اس پر حجت قائم ہوگئی جس پر کوئی عذر نہ کر سکے گا اور ٹھنڈے دل سے داخل ہو جائے گا ، اپنے نامہ اعمال کوفکر کی زبانوں سے پڑھو، پھر نافرمانیوں پر توبہ کرو اور فرماں برداریوں پر شکر ادا کرو، نافرمانیوں کے کھاتے اکٹھے کر کے دیکھو، ان کی سطروں پر تو بہ کاقلم پھیر دواور یہ سطریں کاٹ دو۔
میں تمہیں تمہارے لئے چاہتا ہوں نہ کہ اپنے لئے: ۔
اے بیٹا! تو میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور میری صحبت میں بھی رہا۔ میں نے جو بات تجھ سے کہی ،تو اسے نہ مانے تو میں کیا کہوں تجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا، حقیقت کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے تو نے ظاہر پرستی کی طرف رغبت کی۔جو شخص میری صحبت کا طالب ہو، وہ میری بات مانے اور اس پر عمل کرے، جیسے میں کروں ویسے ہی وہ کرے، درنہ میری صحبت میں نہ آئے ،ایسے میں اسے فائدے کی جگہ نقصان ہوگا۔ میں ایک مہذب دسترخوان ہوں، پھر بھی کوئی مجھ سے کھانا نہیں چاہتا ، میں کھلا ہوا دروازہ ہوں لیکن اس میں داخل کوئی نہیں ہوتا، :
میں تمہارے ساتھ کیا عمل کروں ، کتنی بار کہوں ، تم سنتے ہی نہیں ، میں تمہیں تمہارے لئے چاہتا ہوں نہ کہ اپنےلئے ، میں نہ تم سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی کوئی امید رکھتا ہوں ، نہ ویرانے اور آبادی میں کوئی فرق کرتا ہوں۔ اسی طرح زندہ اور مردہ ،امیر وفقیر، بادشاہ اور رعایا سب ایک جیسے ہیں، حکم تو تمہارے غیر کے ہاتھ میں ہے۔
میں نے جب اپنے دل سے دنیا کی محبت نکال دی تو مجھے یہ مقام حاصل ہو گیا، جب تیرا دل دنیا کی محبت سے معمور ہے تو تیرے لئے تو حید کیسے صحیح ہو سکتی ہے، کیا تم نے رسول اکرم ﷺ کا یہ مبارک ارشاد نہیں سنا: حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ’’دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے ۔‘‘ تو جب تک ابتدائی حالت میں عبادت گزار ہے، طالب اور سالک ہے، دنیا تیرے حق میں خطا کی جڑ رہے گی ،جب تیرے قلب کی سیر کی انتہا ہو جائے گی تو وہ قرب الہی سے واصل ہو جائے گا۔ تیرا دنیا کے لئے لکھا نصیب تیرے لئے محبوب بنا دیا جائے گا ، اور غیر کے نصیب کیلئے تیرے دل میں نفرت پیدا کر دی جائے گی ۔ تیرا نصیب اس لئےتیرے لئے محبوب بنایا جائے گا تا کہ تو اپنے بارے میں اللہ کے ازلی علم کو ثابت کرنے کیلئے اپنا نصیب اچھی طرح سے حاصل کر لے، اس پر قناعت کرے اور تیری غیر کی طرف توجہ نہ ہو، اور تیرادل اللہ کے حضور میں قائم ہو جائے ، دنیاوی نصیب میں اسی طرح تصرف کرے جس طرح کہ جنت والے جنت میں تصرف کریں گے ، اللہ کی طرف سے جو بھی حکم جاری ہوگا، تجھے پسند ہوگا ، کیونکہ تو اس کے ارادے سے ارادہ کرے گا ، -اس کے اختیار سے اختیار کرے گا۔ اس کی تقدیر کے ساتھ چلے گا۔ ماسوی اللہ سے تیرا دل ہٹ جائے گا، دنیا وآخرت تجھ سے دور ہو جائیں گے ۔ تیرا یہ اپنے نصیب کو حاصل کرنا اور اسے محبوب رکھنا اپنی طرف سے نہیں بلکہ حکم الہی کے تحت ہوگا۔
دکھاوے کے لئے عمل کرنے والا منافق اپنے عمل پر مغرور رہتا ہے، دن کو ہمیشہ روزے سے رہتا ہے، رات کو شب بیداری کرتا ہے، روکھی سوکھی کھا تا ہے اور موٹا لباس پہنتا ہے۔ ظاہری اور باطنی اعتبار سے تاریکی میں ہے، اپنے رب کی طرف ایک قدم بھی دل سے نہیں بڑھتا۔ وہ توفقط عمل کرنے والوں غم اٹھانے والوں العاملة الناصبہ میں سے ہے۔ اس کی اندرونی حالت صدیقین ، صالحین ، واصلان حق اور اولیاء اللہ سے ڈھکی چھپی نہیں۔خلقت میں سے خواص تو آج بھی اسے جانتے اور پہچانتے ہیں، قیامت کے دن عوام بھی اس کا اصل چہرہ دیکھ لیں گے، خواص جب بھی اسے دیکھتے ہیں ، دل ہی دل میں اس کے لئے غصہ کرتے ہیں لیکن وہ اللہ کی پردہ پوشی سے اس کی عیب پوشی کرتے ہیں ۔ اور اسے دنیا والوں پر ظاہر نہیں کرتے۔
تو اپنے نفاق کے ساتھ اولیاء اللہ میں شامل نہ ہو، جب تک تو اپنی زنارکونہ توڑ ڈالے اور نئے سرے سے اسلام نہ لائے ، توبہ کو دل کے ساتھ ثابت نہ کرے، اور اپنی عادت اور حرص اور اپنے وجود اور نفع پانے اور دفع ضرر کے گھر سے نہ نکل آئے ۔ واعظ بن کے اولیاء اللہ کے حالات نہ سنا یہ کسی کام کا نہیں جب تک کہ تو اپنے آپ سے باہر نہ نکلے ۔اپنے نفس اور حرص اور عادت کو دروازے پر نہ چھوڑے، اور دل کو دہلیز پر اور باطن کو بادشاہ کے حضور میں مقام مخلوق میں نہ چھوڑے، تیرا کلام نامسموع ہے ، زبان نہ ہلا ۔ بنیادکو پختہ کرلے، بنیاد جب مضبوط ہو جائے تو جلدی سے عمارت بنا، یہ بنیاد کیا ہے، دین اور دل کی سمجھ علم اور فقہ، زور بیان اور زبان کی فقہ نہیں ، زبان کی سمجھ خلقت اور بادشاہوں کے قریب کرتی ہے، جبکہ دل کی سمجھ قرب الہی کی مجلس کا صدر بناتی ہے اور تیرے قدم اللہ کے قریب کرتی ہے دل کی سمجھ کو اختیار کر ۔
علم کی طلب تو رکھتا ہے مگر اس پر عمل کی تڑپ نہیں رکھتا
تجھ پرافسوس تو اپنے وقت کوعلم کی طلب میں ضائع کرتا ہے، اس پرعمل نہیں کرتا۔ تو جہالت کے قدم پر حرص میں ہے ۔ اللہ کے دشمنوں کی خدمت کرتا ہے اور انہیں اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، اللہ کو تیری اور تیرے شرک کی کوئی پرواہ نہیں، اسے اپنے ساتھ کوئی شریک قبول نہیں ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ تو اس کا بندہ کہلائے گا جس کے ہاتھ میں تیری باگ ہوگی ، اگرتواپنی بھلائی چاہتا ہے:
اپنے دل کی ڈوراللہ کے ہاتھ میں دے دے ،اس کی ذات پر حقیقی بھروسہ کر،اپنے ظاہر و باطن سے اس کی خدمت کر، اس پر تہمت نہ ر کھ، کیونکہ وہ ہر تہمت سے بری ہے، وہ تیری مصلحت تجھ سے زیادہ جانتا ہے : – وہ جانتا ہے اور تو نہیں جانتا ہے، تجھ پرلازم ہے کہ اس کے سامنے گم نام، آنکھیں بند کئے سر کو جھکائے ، گونگا بنا خاموش رہے، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے تجھے بولنے کا حکم آ جائے ، اب تو اپنے ارادے سے نہیں ، اس کے ارادے سے بول، ایسے میں تیرا بولنا دلوں کے ۔ مرض کی دوا، باطن کے لئے شفا اور عقلوں کے لئے روشنی ہوگا ۔
اللهم نور قلوبنا و دلها عليك وصف أسرارنا و قربها منك واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار ”اے اللہ! ہمارے دلوں کو منور کر، انہیں اپنا راستہ بتا، اور ہمارے باطن کو صفا کر اپنی تائید سے دلوں کو قوی کرے ۔ اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے ، اور آخرت کی بھلائی عطا کرے اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھے۔“
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 291،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 160دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان