حال ومقام

حال ومقام

حال اور مقام دو کیفییات کا نام ہے

حال(جمع احوال)

حال  سے مراد وہ کیفیت ہے  جو حق تعالیٰ کی طرف سے سالک  کے قلب پر طاری ہوتی ہے

اللہ تعالٰی کی طرف سے بندے پر جو فیوضات نازل ہوتے ہیں، جن کے ذریعہ سے اس کا باطن صاف ہوتا ہے اور یہ بندہ اپنے مولا کے قریب ہوتا ہے، ان فیوضات کے نازل ہونے کے اثرات کو احوال کہتے ہیں  

 ۔   سالک کو اس وہی کیفیت پر بذات خود کوئی قدرت حاصل نہیں۔ جب دل پر کیفیت طاری ہو جائے تو وہ اپنی کوشش اور ارادہ سے اس کو ہٹا نہیں سکتا ۔

احوال حسب ذیل ہیں :

(1) مراقبہ (2) قرب (3) محبت (4) خوف (5) رجا (6) شوق (7) انس (8) اطمینان

– یقین (10 ) مشاہدہ – (9)

مقام (جمع مقامات)

حال جب راسخ اور پختہ ہوجائے اور اس کے فنا ہونے کا امکان نہ رہے تو مقام بن جاتا ہے – اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جہاں حال عطا ہے لیکن آنے جانے والی کیفیت ہے وہاں مقام کَسبی (علم ، ہدایت اور ریاضت کے ذریعہ حاصل کردہ)ہے لیکن مستقل ہے 

سالک جب سلوک کے راستے پر سفر کرتا ہے تو اس راستے میں منازل آتی ہیں۔ ان منازل کو مقامات کہا جاتا ہے ۔ یہ مقامات حسب ذیل ہیں:

(1) تو بہ (2) ورع (3) زہد 4) فقر (5) صبر (6) تو کل (7) رضا۔

حال و مقام (ان کی جمع احوال و مقامات )ان واردات کو کہتے ہیں جو سالک کے دل پر نازل ہوتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ حال کو استقرار نہیں بلکہ بدلتا رہتا ہے اور مقام کو استقرار ہے جب تک اس کے آگے کا مقام حاصل نہ ہو اس مقام میں سالک کو قرار رہتا ہے

حال کی کئی اقسام ہیں

وہبی

کسبی

نسبتی

مجازی

سالک کے دل پر جو کیفیات بلا کوشش محض اللہ کریم کی طرف سے وہبی طور پر وارد ہوں اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ کہ بوجہ صفات نفسی کے زائل ہو جائے اور کوئی کیفیت باقی نہ رہےدوسری یہ کہ کیفیت ہمیشہ کیلئے قائم رہےاول کو حال اور دوسری کو مقام کہتے ہیں

سالک کے دل پر جو واردات مثلا قبض و بسط ،حزن و طرب،ہیبت و انس اورمستی و بے خودی اچانک وارد ہونے کو حال کہتے ہیں اور سالک کی بے عملی اسے زائل کر دیتی ہے۔ یہی حال جب دائمی ہو اسے مقام کہتے ہیں۔

حال اور مقام کی مثال

حال اور مقام کی مثال چاند اور سورج سے دی جاتی ہے چاند سے حال کیطرف اشارہ ہے کیونکہ حال چاند کیطرح بدلتا رہتا ۔ اور صاحب مقام سورج کی طرح اپنی حالت پر قائم رہتا ہے اسلیئے اہل حال مرتبہ تلوین میں اور ابل مقام مرتبہ تمکین میں ہوتے ہیں سالک جب تک رستے میں ہے صاحب تلوین ہے کیونکہ وہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف نقل کرتا رہتا ہے اور جب واصل ہوتا ہے تو صاحب تمکین ہو جاتا ہے 

  سورج سے ولایت شمسیہ اور چاند سے ولایت قمریہ مراد ہے   تمام انبیاء نور نبوت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشکوۃ سے حاصل کرتے ہیں اسی طرح تمام اولیاء نور ولایت خاتم الاولیاء(حضرت علی کرم اللہ وجہ) کے آفتاپ ولایت سے لیتے ہیں، اس لئے خاتم  الاولیا کی ولایت کا نام ولایت شمسیہ ہے اور تمام اولیاء کی ولایت کا نام ولایت قمریہ ہے پس تمام اولیاء  نور ولایت  خاتم الاولیاء کی ولایت مطلقہ ے لیتے ہیں جیسا کہ چاند سورج سے نور حاصل کرتا ہے

حال آتا اور جاتا ہے مقام میں استقلال ہے حال سے سابقہ اصحاب تلوین کو اور مقام اصحاب تمکین کا حصہ ہےاس لیئے حال سے مقام اعلیٰ ہے۔

صاحبِ حال ہونا اچھی بات ہے مگر حال کے خطرات سے بچنا چاہیے اور اِن سے ادب ہی بچا سکتا ہے – شرعی قانون کا ادب، اخلاقی قوانین کا ادب، مرشد کا ادب اور حلقۂ درویشاں میں اخوان کے طور طریق کا ادب لازمی ہے

صوفی ابن الوقت ہوتا ہے یعنی تابع وقت وحال ہوتا ہے جیسا کہ بیٹا باپ کے تابع ہوتا ہے پس اس قسم کا صوفی وقت وحال کا مغلوب ہوتا ہے اور صافی وہ ہے جو وقت اور حال سے فارغ ہے بلکہ ابوالوقت ہوتا ہے کیونکہ وہ وقت اور حال پر غالب ہوتا ہے

احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں