خلفائے راشدین کے فضائل اور حضرت شیخین کی فضیلت اور حضرت امیر(علی کرم اللہ وجہ )کے بعض خاصوں اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی تعظیم وتوقیر اور ان کے درمیان جھگڑوں اور لڑائیوں کو محمل(کسی معنی کے سچا ہونے کی جگہ) صحیح پرحمل کرنے اور اس کے متعلق بیان میں مولانامحمد اشرف کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد میرے سعادت مند بھائی محمد اشرف کو معلوم ہو کہ بعض غریب اور اسرار عجیبہ اور مواہب لطیفہ اور معارف شریفہ جن میں سے اکثر حضرات شیخین وذی النورین و حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتے ہیں اپنی سمجھ کے موافق لکھتا ہے، گوش ہوش سے سنیں۔
حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہما کمالات محمدی کے حاصل ہونے اورولایت مصطفوی علیہ وعلی آلہ الصلوات والسلام کے درجوں کے ہونے کے باوجود گزشتہ انبیاء کےدرمیان ولایت کی طرف میں حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتےہیں اور دعوت کی طرف میں جو مقام نبوت کے مناسب ہے۔ حضرت موسی علی نبینا علیہ ة والسلام سے مناسبت رکھتے ہیں اور حضرت ذی النورین رضی اللہ عنہ دونوں طرف (نبوت و ولایت)میں حضرت نوح علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور حضرت امیر رضی اللہ دونوں طرف میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور چونکہ حضرت عیسیٰ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اس لئے نبوت کی جانب سے ولایت کی طرف ان میں ہے اور حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) میں بھی اس مناسبت کے باعث ولایت کی طرف غالب ہے اور خلفائے اربعہ کے تعینات کے مبادی جہالت کے اختلاف کے بموجب اجمالی اورتفصیلی طور پرصفت العلم ہے اور وہ صفت باعتبار اجمال حضرت محمدﷺکا رب ہے اور باعتبارتفصیل کے حضرت خلیل علیہ السلام کا رب اور اجمال و تفصیل کی برزخیت (درمیانی حیثیت)کے اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام کا رب ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کا رب صفت الكلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کارب صفت القدرت اور حضرت آدم علیہ السلام کارب صفت التکو ین ہے۔
اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہما مراتب کے اختلاف کے موافق نبوت محمدی ﷺکے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں اور حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) حضرت عیسی علیہ السلام کی مناسبت اور جانب ولایت کے غلبہ کے باعث ولایت محمدی ﷺکے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں اور حضرت ذی النورین کو برزخیت کے اعتبار سے ہر دوطرف کے بوجھ اٹھانے والا فرمایا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس اعتبار سے بھی ان کوذی النورین کہیں اور چونکہ شیخین بار نبوت کے اٹھانے والے ہیں اس لئے حضرت موسی علیہ السلام سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں کیونکہ مقام دعوت جو مرتبہ نبوت سے پیدا ہوا ہے ہمارے پیغمبر ﷺکے بعد باقی تمام انبیاء کے درمیان ان میں اتم(اعلیٰ درجہ کی) و اکمل ہے اور ان کی کتاب قرآن مجید تمام نازل شدہ کتابوں سے بہتر ہے۔ اسی واسطے ان کی امت گزشتہ امتوں کی نسبت زیادہ بہشت میں جائے گی۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ملت تمام شریعتوں اورملتوں سے افضل و اکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے افضل پیغمبر کو اس کی ملت کی متابعت کا امر کیا گیا ہے۔ آیت کریمہ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (پھر ہم نے تیری طرف دحی بھیجی کہ ملت ابراہیم کی تابعداری کر کے وہ راہ راست پر چلنے والا ہے) اس مضمون کی شاہد ہے اور حضرت مہدی موعود کہ اس کا رب بھی صفت العلم ہے۔ حضرت امیر(علی کرم اللہ وجہ) کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام سے مناسبت رکھتے ہیں گویا ایک قدم حضرت عیسٰی علیہ السلام کا حضرت امیر رضی الله عنہ کے سر پر ہے اور دوسرا قدم حضرت مہدی رضی الله تعالیٰ عنہ کے سر پر۔
اور جاننا چاہیئے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی ولایت، ولایت محمدی ﷺکے دائیں طرف واقع ہوئی ہے اور ولایت عیسوی(عیسوی المشرب میں سالک حق سبحانہ کو جمیع مظاہر سے منفرد پاتا ہے اس ولایت کو ولایت حضرت عیسی علیہ سلام کہتے ہیں اور سالک کو عیسوی المشرب کہتے ہیں) اس ولایت کے بائیں طرف اور چونکہ حضرت امیر ولایت محمدی ﷺکے حاصل ہیں اس لئے مشائخ و اولیاء کے اکثرسلسلے ان سے منتسب ہوئے ہیں اورحضرت امیر کے کمالات حضرات شیخین کے کمالات کی نسبت اکثر اولیائے عظام پر جو کمالات ولایت سے مخصوص ہیں۔ زیادہ تر ظاہر ہوئے ہیں۔ اگرشیخین کی فضیلت پر اہل سنت کا اجماع نہ ہوتا تو اکثر اولیائے عظام کا کشف حضرت امیر کی افضلیت کا حکم کردیتا کیونکہ حضرات شیخین کے کمالات انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے کمالات کے مشابہ ہیں اور صاحبان ولایت کا ہاتھ ان کے کمالات کے دامن سے کوتاہ ہے اور اہل کشف کاکشف ان کے کمالات کے درجوں کی بلندی کے باعث نصف راہ میں ہے۔ ولایت کے کمالات ان کے کمالات کے مقابلہ میں کَالْمَطْرُوْحُ فِي الطَّرِيْقِ (راہ میں پھینکے ہوئے ) کی طرح ہیں ۔ کمالات ولایت کمالات نبوت پر چڑھنے کے لئے بمنزلہ زینہ کے ہیں۔ پس مقدمات کو مقاصد کی خبر ہے اور مطالب کو مبادی سے کیا شعور۔ آج یہ بات عہد نبوت کے بُعد باعث اکثر لوگوں کو نا گوار اور قبول سے دور معلوم ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے۔
در پس آئینہ طوطی صفتم داشته اندہر چه استاد ازل گفت ہماں میگویم
ترجمہ: مثل طوطی مجھےآئینے کے پیچھے ر کھا میں وہی کہتا ہوں جو کہ استاد ازل نے کہا ہے لیکن الله تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ اس گفتگو میں علمائے سنت شکر اللہ تعالیٰ سعیھم کے ساتھ موافق ہوں اور ان کے اجتماع سے متفق ہوں۔ ان کے استدلالی علم کو بھی کشفی اور اجمالی کو بھی تفصیلی کیا ہے۔
اس فقیر کو جب تک کہ مقام نبوت کے کمالات تک نہ پہنچایا اور ان کے کمالات سے کامل حصہ نہ دیا۔ تب تک شیخین کے فضائل پر کشف کے طور پر اطلاع نہ بخشی تھی اور تقلید کے سوائے کو ئی راہ نہ دکھایا تھا۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ایک دن کسی شخص نے بیان کیا کہ لکھا ہے کہ حضرت امیر کا نام بہشت کے دروازہ پرلکھا ہوا ہے۔ دل میں گزرا کہ حضرات شیخین کے لئے اس مقام کی کیا خصوصیتیں ہوں گی۔ توجہ تام کے بعد ظاہر ہوا کہ بہشت میں اس امت کا داخل ہونا ان دو بزرگواروں کی رائے اور تجویز سے ہوگا۔ گویا حضرت صدیق بہشت کے دروازے پر کھڑے ہیں اور لوگوں کے داخل ہونے کی تجویز فرماتے ہیں اور حضرت فاروق ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا تمام بہشت حضرت صدیق کے نور سے بھرا ہوا ہے۔
اس حقیر کی نظر میں حضرات شیخین کے لئے تمام صحابہ کے درمیان علیحدہ و شان اور الگ درجہ ہے۔ گویا یہ دونوں کسی کے ساتھ مشارکت نہیں رکھتے ۔ حضرت صدیق حضرت پیغمبر کے ساتھ گویا ہم خانہ ہیں ۔ اگر فرق ہے تو صرف علووسفل یعنی بلندی اور پستی کا ہے اور حضرت فاروق بھی حضرت صدیق کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں اور تمام صحابہ کرام آنحضرت کے ساتھ ہمسرائی یا ہم شہر ہونے کی نسبت رکھتے ہیں۔ پھر اولیائے امت کا وہاں کیادخل ہے۔
ایں بس کہ رسد زدور بانگ جرسم ترجمہ: ہے یہی کافی ہے کے دور سے بانگ جرس آئے
یہ لوگ کمالات شیخین سے کیا حاصل کریں۔ یہ دونوں بزرگوار اپنی بزرگی و برتری کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوة والسلام میں معدود اور ان کے فضائل کے ساتھ موصوف ہیں۔
حضرت نبی ﷺنے فرمایا ہے لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ (اگرمیرے پیچھے کوئی نبی ہوتا تو البتہ عمر بن خطاب ہوتا۔) امام غزالی نے لکھا ہے کہ حضرت فاروق کی ماتم پرسی کے دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر نے صحابہ کی مجلس میں کہا کہ مَاتَ تِسْعَةُ أَعْشَارِ الْعِلْمِ آج نوحصے علم فوت ہو گیا۔
جب بعض میں اس معنی کے سمجھنے میں توقف دیکھا تو کہا کہ میری مرادعلم سے علم باللہ(معرفت) نہ کہ حیض و نفاس(احکام شرعیہ) ہے۔
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت کیا بیان کیا جائے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمام ان کی ایک نیکی کے برابر ہیں جیسا کہ مخبرصادق ﷺنے اس کی نسبت خبردی ہے اور وہ انحطاط یعنی کمی جوحضرت فاروق کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ہے۔ اس انحطاط و کمی سے زیادہ ہے جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوةو السلام سے ہے۔ پھر قیاس کرنا چاہیئے کہ دوسروں کا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے انحطاط کس ہوگا اور حضرات شیخين موت کے بعد بھی پیغمبر خداﷺسے جدا نہ ہوئے اور حشربھی یکجا ہوگا۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ پس ان کی فضیلت ا قربیت کے باعث ہوگی۔یہ قلیل البضاعت یعنی بے سروسامان ان کے کمالات کو کیا بیان کرے اور ان کے فضائل ظاہر کرے ۔ذرہ کی کیا طاقت کے آسمان کی نسبت گفتگوکرے اور قطرہ کیا مجال کہ بحرعمان (دریائے محیط)کی زبان لائے۔
ان اولیاء نے جو دعوت خلق کی طرف راجع ہیں اور ولایت و دعوت کی دونوں طرفوں سے حصہ رکھتے ہیں اور تابعین اور تبع تابعین میں سے علمائے مجتہدین نے کشف صحیح کے نور اور اخبار صادقہ اور آثارمتتابعہ سے شیخین کے کمالات کو دریافت کیا ہے اور ان کے فضائل کو پہچان کر ان کے افضل ہونے کا حکم دیا ہے اور اس پر اجماع کیا ہے اور اس کشف کو جو اس اجماع کے برخلاف ظاہر ہو غلط خیال کر کے اس کا کچھ اعتبار نہیں کیا ہے اور کس طرح ایسے کشف کا اعتبار کیا جائے جبکہ صدر اول میں ان کی افضلیت صحیح ہو چکی ہے چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔
كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لاَ نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی کے زمانہ میں کسی کو ابوبکر پھر عمر پھرعثمان کے برابر نہیں سمجھتے تھے۔ پھر ہم نبی ﷺکے اصحاب کو چھوڑ دیتے تھے یعنی ان کے درمیان ایک دوسرے کو فضیلت نہ دیتے تھے۔
اور ابوداود رحمتہ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے۔ كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول الله ﷺ کی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ نبی ﷺکے بعد سب امت میں نے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ ۔
اور جنہوں نے کہا ہے کہ ولایت نبوت سے افضل ہے وہ ارباب سکر(مستی) اور اولیائے غیر مرجوع میں سے ہیں جن کو کمالات نبوت سے زیادہ حصہ حاصل نہیں ہے اور آپ کی نظر میں آیا ہوگا کہ فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں تحقیق کی ہے کہ نبوت ولایت سے افضل ہے۔ اگرچہ اسی نبی کی ولایت ہو اور یہی حق ہے اور جس نے اس کے برخلاف کہا وہ مقام نبوت کے کمالات سے جاہل ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔
اور آپ کو معلوم ہے کہ اولیاء کے تمام سلسلوں کے درمیان سلسلہ علیہ نقشبندیہ حضرت صدیق کی طرف منسوب ہے۔ پس صحو (ہوشیاری) کی نسبت ان میں غالب ہوگی اور ان کی دعوت اتم ہوگئی اور حضرت صدیق کے کمالات ان پر ظاہر ہوں گے۔ناچاران کی نسبت تمام سلسلوں کی نسبتوں سے بڑھ کر ہوگی۔ دوسروں کو ان کے کمالات کا کیا پتہ اور ان کے معاملہ کی حقیقت کی کیا خبر میں نہیں کہتا کہ تمام مشائخ نقشبندیہ اس معاملہ میں برابر ہیں۔ ہرگز ایسانہیں ہے بلکہ اگر ہزاروں میں سے ایک بھی اس صفت کا ملجا ہے تو غنیمت ہے میرا خیال ہے کہ حضرت مہدی موعود جولایت کی اکملیت کے لئے مقرر ہیں ان کو یہ نسبت حاصل ہوگی اور اس سلسلہ علیہ کی تتمیم وتکمیل فرمائیں گے کیونکہ تمام ولایتوں کی نسبت اس نسبت علیہ سے نیچے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب ولایتوں کو مرتبہ نبوت کے کمالات سے بہت کم حصہ حاصل ہے اور یہ ولایت حضرت صدیق کی طرف منسوب ہونے کے باعث ان کمالات سے وافر حصہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا۔
بہ بیں تفاوت راه از کجا ست تا بکجا دیکھو ا یک رستہ کا فرق ہے دوسرے سے کس قدر ہے۔
اے بھائی ! چونکہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ ولایت محمدی علی صاحبها الصلوة والسلام کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب و ابدال و اوتاد (جو اولیائے عزلت میں سے ہیں اور کمالات ولایت کی جانب ان میں غالب ہے) کے مقام کی تربیت آنحضرت ﷺکی امداد واعانت کے سپردہے۔
قطب الاقطاب یعنی قطب مدار کا سر آنحضرت ﷺکے قدم کے نیچے ہے۔ قطب مدار انہی کی حمایت و رعایت سے اپنے ضروری امور کو سرانجام کرتا اور مداریت سے عہدہ برا ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شریک ہیں۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہم سب کے سب بزرگ ہیں اور سب کو بزرگی سے یاد کرنا چاہیئے۔
خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے إِنَّ اللهَ تَعَالَى اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا وَجَعَلَ مِنْهُمْ أَصْهَارًا وَأَنْصَارًا وَوُزَرَاءَ فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا الله تعالیٰ نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لئے اصحاب کو پسند کیا اور ان میں سے بعض کو میرے لئے رشتہ دار اور مددگار پسند کیا۔ پس جس شخص نے ان کے حق میں مجھے محفوظ رکھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور جس نے ان کے حق میں مجھے ایذادی، اس کو اللہ تعالیٰ نے ایذا دی۔
طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ فرمایا رسول الله ﷺنے کہ مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ جس نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر الله تعالیٰ اور فرشتوں اور عام آدمیوں کی لعنت ہے۔
اور ابن عدی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّ أَشْرَارَ أُمَّتِي أَجْرَؤُهُمْ عَلَى صَحَابَتِي میری امت میں سے برے وہ لوگ ہیں جو میرے اصحاب پر دلیر ہیں۔
اور ان لڑائی جھگڑوں کو جوان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک عمل پرمحمول کرنا چاہیئے اور ہواو تعصب سے دورسمجھنا چاہیئے کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد مبنی تھیں، نہ ہوا ہوس پر یہی اہلسنت کامذہب ہے۔
لیکن جاننا چاہیئے کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے خطا پر تھے اورحق حضرت امیر کی طرف تھی لیکن چونکہ یہ خطا، خطائے اجتہادی کی طرح تھا۔ اس لئے ملامت سے دور ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ شارح مواقف، آمدی سے نقل کرتا ہے کہ جمل وصفین کے واقعات اجتہادے سے ہیں۔
اورشیخ ابوشکورسلمی نے تمہید میں تصریح کی ہے کہ اہلسنت و جماعت اس بات پر ہیں کہ معاویہ بمع ان کے تمام اصحاب کے جو ان کے ہمراہ تھے، سب خطا پر تھے لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی۔
اور شیخ ابن حجر نے صواعق میں کہا ہے کہ حضرت معاویہ اور امیر کے درمیان جھگڑے از روئے اجتہاد کے ہوئے ہیں اور اس قول کو اہلسنت کے معتقدات سے فرمایا ہے۔
اور شارح مواقف نے جو یہ کہا ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب اس بات پر ہیں کہ وہ منازعات از روئے اجتہاد کے نہیں ہے ۔
معلوم نہیں اصحاب سے اس کی مراد کونسا گروہ ہے جبکہ اہلسنت اس کے برخلاف حکم دیتے ہیں جیساکہ گزر چکا اور قوم کی کتابیں خطائے اجتہادی سے بھری پڑی ہیں جیسا کہ امام غزالی اور قاضی ابوبکر وغیرہ نے تصریح کی ہے۔ پس حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کے حق میں فسق وضلال کا گمان جائز نہیں ہے۔
قاضی نے شفاء میں بیان کیا ہے۔ قال مالك رضي الله عنه من شتم أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وآله وسلم ا بابكر وعمرعثمان وعمر وابن العاص فان قال كانوا على ضلال وكفر أو إن شتم بغير ھذا من مشاتمۃ الناس نکل نکالا شديدا فلا يكون محاربو على کفرة کما زعمت الغلاة من الرفضة ولا فسقۃ كما زعم البعض ونبه شارفح المواقف إلى كثير ممن أصحابه كيف وقد كانت الصديقة وطلحة والزبير وكثير ممن أصحاب الكرام منهم وقد قتل الطلحۃ والزبير في قتال الجمل قبل خروج معاوية مع ثلثة عشر ألفا من القتلى فتضليلهم وتفسیقهم ما لا يجر ءعليه المسلم إلا أن يكون في قلبه مرض وفى باطنہ خبث
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ جس نے نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو یعنی ابوبکر و عمر عثمان وعمرو بن العاص کو گالی دی اور کہا کہ وہ کفر اور گمراہی پر تھے یا اس کے سوا اور کوئی اور گالی نکالی جس طرح لوگ ایک دوسرے کو گالی نکالتے ہیں تو وہ سخت عذاب کا مستحق ہوا کیونکہ حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والے کفر پر نہ تھے۔ جیساکہ بعض غالی رافضیوں کا خیال ہے اور نہ ہی فسق پر تھے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے اور بہت سے اصحاب کی طرف ان کو منسوب کیا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ حضرت صدیقہ اور طلحہ اور زبیر اور بہت سے اصحاب کرام انہی میں سے تھے اور طلحہ اور زبیر جمل کی لڑائی میں معاویہ کے خروج سے پہلے تیرہ ہزارمقتولوں کے ساتھ قتل ہوئے۔ پس ان کو ضلالت اورفسق کی طرف منسوب کرنے پر سوائے اس شخص کے کہ جس کے دل میں مرض اور اس کے باطن میں خبث ہو، کوئی مسلمان دلیری نہیں کرتا رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
اور یہ جو بعض فقہاء کی عبارتوں میں جور کا لفظ معاویہ کے حق میں واقعہ ہوا ہے اور کہا ہے کہ معاویہ جور کرنے والا امام تھا تو اس جور سے مراد یہ ہے کہ حضرت امیر کی خلافت کے زمانہ میں وہ خلافت کا حق دار نہ تھا۔ نہ کہ وہ جور جس کا انجام فسق و ضلالت ہے تا کہ اہلسنت کے اقوال کے موافق ہو اور نیز استقامت والے لوگ ایسے الفاظ بولنے سے جن سے مقصود کے برخلاف وہم پیدا ہو، پرہیز کرتے ہیں اور خطا سے زیادہ کہنا پسند نہیں کرتے اور کس طرح جائز ہو سکے جبکہ صحیح وتحقیق ہو چکا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور مسلمانوں کے حقوق میں امام عادل تھا جیسا کہ صواعق میں ہے اور حضرت مولانا جامی نے جو خطائے منکر کہا ہے اس نے بھی زیادتی کی ہے خطاء جو کچھ زیادہ کریں خطاہے اور جو کچھ اس کے بعد کہا ہے کہ اگر وہ لعنت کا مستحق ہے الخ۔ یہ بھی نامناسب کہا ہے۔ اس کی تردید کی کیا حاجت ہے اور اس میں کونسا اشتباه ہے۔ اگر یہ بات یزید کے حق میں کہتا تو بیشک جائز تھا لیکن حضرت معاویہ کے حق میں کہنا برا ہے اور احادیث نبوی میں معتبر اور ثقات کی اسناد سے مروی ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے معاویہ کے حق میں دعا کی ہے۔
اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ يا الله تو اس کو کتاب و حساب سکھا اور عذاب سے بچا اور دوسری جگہ دعا میں فرمایا۔ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ ھَادِيًا وَّمَهْدِيًّا يااللہ تو اس کو ہادی اور مہدی بنا اور آنحضرت ﷺکی دعا مقبول ہے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مولانا سے سہو ونسیان کے طور پر سرزد ہوئی ہو اور نیز مولانا نے انہی ابیات میں نام کی تصریح نہ کر کے کہا ہے کہ وہ صحابی اور ہے اور یہ عبارت بھی ناخوشی سے خبر دیتی ہے رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا یا اللہ ہم کو بھول چوک پر مواخذہ نہ کر۔
اور وہ جو بعض نے امام شعبی سے معاویہ کی مذمت میں نقل کیا ہے اور اس کی برائی کوفسق سے برتر بیان کی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اگر بالفرض اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے تو امام اعظم رحمتہ الله علیہ جو اس کے شاگردوں میں سے ہیں۔ اس نقل کے زیادہ مستحق تھے اور امام مالک نے جو تابعین میں سے ہیں اور اس کے ہمعصر اور علمائے مدینہ میں سے زیادہ عالم ہیں۔ معاویہ اور عمرو بن العاص کے گالی دینے والےقتل کا حکم دیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ اگر وہ گالی کا مستحق ہوتا تو اس کے گالی دینے والے کو قتل کاحکم کیوں دیتے۔ پس معلوم ہوا کہ اس کو گالی نکالنا کبیرہ گناہ جان کر اس کے گالی نکالنے والے کو قتل کا حکم دیا ہے اور نیز اس کو گالی دینا ابوبکر وعمر وعثمان رضی الد عنہم کو گالی د ینے کی طرح خیال کیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ پس معاویہ برائی کا مستحق نہیں ہے۔
اے بھائی ! معاویہ تنہا اس معاملہ میں نہیں ہے۔ کم و بیش آدھے اصحاب کرام اس کے ساتھ اس معاملہ میں شریک ہیں۔ پس اگر حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والے کافر یا فاسق ہوں تو نصف دین سے اعتماد دور ہوجاتا ہے جو ان کی تبلیغ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس بات کو سوائے اس زندیق (بے دین) کے جس کا مقصودد ین کی بربادی ہے، کوئی پسند نہیں کرتا۔
اے برادر! اس فتنہ کے برپا ہونے کا منشاء (پیدا ہونے کی جگہ) حضرت عثمان کا قتل اور ان کے قاتلوں سے ان کا قصاص طلب کرنا ہے۔ طلحہ و زبیر جو اول مدینہ سے باہر نکلے تاخیر قصاص کے باعث نکلے اور حضرت صدیقہ نے بھی اس امر میں ان کے ساتھ موافقت کی اور جنگ جمل جس میں تیره ہزار آدمی قتل ہوئے اور طلحہ و زبیر بھی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں قتل ہوئے۔ حضرت عثمان کے قصاص کے باعث ہوا ہے۔ اس کے بعد معاویہ نے شام سے آ کر ان کے ساتھ شریک ہو کر جنگ صفین کیا۔
امام غزالی رحمتہ الله علیہ نے تصریح کی ہے کہ وہ جھگڑا امر خلافت نہیں ہوا بلکہ قصاص کے پورا کرنے کے لئے حضرت امیر کی خلافت کے ابتداء میں ہوا ہے اور شیخ ابن حجر نے بھی اس بات کو اہلسنت کے معتقدات سے کہا ہے اور شیخ ابوشکورسلمی رحمتہ اللہ علیہ نے جو بزرگ علمائے حنفیہ میں سے ہیں۔ کہا کہ حضرت معاویہ اور حضرت امیر کے درمیانی جھگڑے خلافت کے بارے میں ہوئے ہیں۔
حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے حضرت معاویہ کو فرمایا تھا کہ
اِذَا مَلَكْتَ النَّاسَ فَاَرْفِقْ بِهِمْ جب تو لوگوں کا مالک بنے تو ان کے ساتھ نرمی کر۔ شائد اس بات سے معاویہ کو خلافت کاطمع پیدا ہوگیا ہولیکن وہ اس اجتهاد میں خطا پر تھا اور حضرت امیرحق پر کیونکہ اس کی خلافت کاوقت حضرت امیر کی خلافت کے بعد تھا اور ان دونوں قولوں کے درمیان موافقت اس طرح پر ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس منازعت کا منشا قصاص کی تاخیر ہو اور پھر خلافت کا طمع بھی پیدا ہوگیا ہو بہر تقدیر اجتہاد اپنے محل میں واقع ہوا ہے۔ اگر خطا پر ہے تو ایک درجہ اور حق والے کے لئے دو درجے بلکہ دس درجے۔ .
اے برادر! اس امر میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کی لڑائی جھگڑوں سے خاموش رہیں اور ان کے ذکر اذ کار سے منہ موڑیں۔
پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ إيَّاكُم وَمَا شَجَرَ بَيْنَ أَصْحَابِيمیرے اصحاب کے درمیان جو جھگڑے ہوئے ہیں، ان سے اپنے آپ کوبچاؤ۔
نیز حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي یعنی میرے اصحابہ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان کو اپنے تیر کا نشانہ نہ بناؤ۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے اور نیز عمر بن عبدالعزیز سے بھی منقول ہے کہ تِلْکَ دِ مَاءٌ طَهَّرَاللهُ عَنْهَا اَیْدیْنَا فَلْنُطَھِّرَ عَنْهَا اَلْسِنَتِنَا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالیٰ نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔
اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان کی خطا کو بھی زبان پر نہ لانا چاہیئے اور ان کے ذکر خیر کے سوا اور کچھ نہ بیان کرنا چاہیئے۔
یزید بد بخت فاسقوں کے زمرہ میں سے ہے۔ اس کی لعنت میں توقف اہل سنت کے مقررہ اصل کے باعث ہے کیونکہ انہوں نے معین شخص کے لئے اگر چہ کافر ہولعنت جائز نہیں کی مگر جب یقیناً معلوم کریں کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے جیسا کہ ابولہب جہنمی اور اس کی عورت نہ یہ کہ وہ لعنت کے لائق نہیں۔ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے۔
جاننا چاہیئے کہ چونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگوں نے امامت کی بحث چھیٹررکھی ہے اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی خلافت کی نسبت گفتگو مدنظر کی ہوئی ہے اور جہاں اہل تاریخ اور سرکش بدعتیوں کی تقلید پراکثر اصحاب کرام کو نیکی سے یاد نہیں کرتے اور کئی نا مناسب امور ان کی جناب کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے جو کچھ معلوم تھاتحریر میں لاکر دوستوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔
قال عَلَيْهِ وَآلِهِ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ إِذا ظَهرت الْفِتَن أَو قَالَ الْبدع وسبت أَصْحَابِي فليظهر الْعَالم علمه فَمن لم يفعل ذَلِك فَعَلَيهِ لعنة الله وَالْمَلَائِكَة وَالنَّاس أَجْمَعِينَ لَا يقبل الله مِنْهُ صرفا وَلَا عدلا
رسول الله ﷺنے فرمایا ہے کہ جب فتنے ظاہر ہو جائیں یا بدعتیں فرمایا اور میرے اصحاب کو گالیاں دی جائیں تو عالم کو چاہیئے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے ۔ پس جس نے ایسا نہ کیا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض نفل قبول نہ کرے گا۔
لیکن الله تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ سلطان وقت اپنے آپ کوحنفی مذہب قرار دیتا ہے اور اہل سنت و جماعت میں سے جانتا ہے ورنہ مسلمانوں پر کام بہت تنگ ہوتا اس پر بڑی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔
پس چاہیئے کہ اہل سنت و جماعت کے معتقدات پر اپنے اعتقاد کا مدار رکھیں اور زید وعمرو کی باتوں کو نہ سنیں جھوٹے قصوں پر کام کا مدار رکھنا اپنے آپ کو ضائع کرتا ہے۔ فرقہ ناجیہ کی تقلید ضروری ہے تا کہ نجات کی امید پیدا ہو۔وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ180 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی