محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
مرض الموت میں وصیت :
آپ کے صاحبزادے سید عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد شیخ ابومحمد عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کے مرض الموت میں آپ سے وصیت کی خواہش کا اظہار کیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: تم اپنے اوپراللہ کے تقوی وطاعت کو لازم پکڑو، اس کے سوا کسی سے ڈرواور نہ کسی سے امیدواری کرو، اپنی سب حاجتیں اللہ کی طرف سونپ دواور حاجتیں اس سے طلب کرو، اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرو تمہارا اعتماداسی کی ذات پر ہو، تو حیدکولازم پکڑ و توحید کولازم پکڑ و توحید کولازم پکڑو تمام عبادتوں کا مجموعہ توحید ہے۔ آپ نے مرض الموت میں ارشادفرمایا:
اللہ کی معیت میں دل جب درست ہوجاتا ہے تو کوئی چیز اس سے خالی اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہوتی، میں سراپامغز ہوں ، چھلکا نہیں ہوں۔
دکھائی نہ دینے والی مخلوق کی آمد :
اپنی اولاد سے فرمایا:
میرے اردگرد سے ہٹ جاؤ ، دور ہو جاؤ ۔ بظاہر میں تمہارے ساتھ ہوں اور باطن میں تمہارے غیر کے ساتھ ہوں، میرے اور تمہارے اور ساری مخلوق کے درمیان اتنی ہی دوری ہے جیسے کہ زمین اور آسمان کے درمیان ، تم میرا کسی پر قیاس نہ کرو اور نہ مجھ پرکسی دوسرے کا قیاس کرو، اور فرمایا : میرے پاس تمہارے غیر حاضر ہوئے ہیں ،تم ان کے لئے وسعت دے دو اور ان کے ساتھ ادب کرو ۔ اس جگہ بڑی بھیٹر ہے تم ان پر جگہ تنگ نہ کرو۔
ملک الموت کی تشریف آوری:
آپ کے صاحبزادوں نے مجھے ( عفیف الدین کو خبر دی کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ملک الموت کی تشریف آوری پر فرماتے تھے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،اللہ مجھے اورتمہیں بخشے ، اور میرے اور تمہارے او پر توجہ فرمائے ، تم اللہ کا نام لے کر تشریف لاؤ اور رخصت نہ کئے جاؤ ۔
آپ نے یہ الفاظ ایک دن اور ایک رات میں ادا فرمائے ، اور فرمایا:
تم پر افسوس ہے، میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا، اور نہ کسی فرشتے کی اور نہ ملک الموت کی ، اے ملک الموت! تم علیحد ہ ہو جاؤ تمہارے سوا ہمارے لئے وہ ذات ہے جو کہ ہماری تولیت (نگرانی)فرماتی ہے ۔
یہ کہہ کر آپ نے بڑی چیخ ماری ، اور یہ واقعہ اسی دن کا ہے جس دن کی شام کو آپ نے وصال فرمایا، کسی صاحبزادہ نے آپ سے آپ کا حال دریافت کیا ، آپ نے ارشادفرمایا:
مجھ سے اس وقت کوئی کچھ نہ پوچھے میں اس وقت علم الہٰی میں کروٹیں بدل رہا ہوں۔ آپ نے اپنے صاحبزادے عبدالجبار سے فرمایا:
” تم سور ہے ہو یا جاگ رہے ہو ، تم میرے اندرفنا ہو جاؤ، یقینا بیدار ہو جاؤ گے۔
میں (عفیف الدین ) آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے پاس آپ کی اولاد میں سے ایک جماعت موجود تھی، جو کچھ آپ فرماتے تھے، آپ کے صاحبزادے عبدالعز یز لکھ رہے تھے ، مجھے دیکھ کرفرمایا:
” قلم کاغذ عفیف کو دے دو تا کہ وہ لکھے‘‘۔ چنانچہ میں نے لے لیا اور لکھنے لگا، آپ نے ارشادفرمایا: قریب ہے اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا – صفات الہٰی کے متعلق جس طرح خبریں آتی ہیں تم انہیں اسی طرح عبور کرو ۔
حکم بدلتا ہے اور علم متغیر نہیں ہوتا ، حکم منسوخ ہو جا تا ہے اور علم منسوخ نہیں ہوتا، اللہ کا علم اس کے حکم سے کم نہیں ہوتا ہے۔
سکرات موت:
مجھے ( عفیف الدین ) آپ کے دو صاحبزادوں سید عبدالرزاق اور موسی نے خبر دی کہ آپ اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتے اور کھینچتے اور کہتے تھے “وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ، تم تو بہ کرو اور صف میں شامل ہو جاؤ، میں اس وقت تمہارے پاس آتا ہوں۔ اور آپ فرماتے تھے: تم نرمی کرو۔
پھراس کے بعد آپ کے پاس حق اور سکرات موت آ پہنچے ، اس وقت آپ فرماتے تھے۔ میں مددلیتا ہوں اس معبود برحق سے جو کہ زندہ اور ہمیشہ رہنے والا ہے، جسے موت نہیں آئے گی ، نہ ا سے موت کا کوئی خوف ہے ، پاک ہے وہ ذات جس نے قدرت سے مخلوق پر غلبہ پایا اور بندوں پر موت کے سبب سے غالب ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ.
آپ کے صاحبزادے سید موسی نے خبر دی کہ جب آپ نے لفظ تَعَزَّزَ فرمایا تو آپ کی زبان مبارک اسےصحیح طرح سے ادا نہ کرسکی، آپ اسے بار بار دہراتے رہے حتی کہ آپ نے سختی کے ساتھ آواز کو بڑھایا اورلفظ تَعَزَّزَ صیح طور سے ادا فرمایا ۔ پھر تین بار الله الله اللہ فرمایا ۔ اس کے بعد آپ کی آواز نیچی ہوگئی ، اور آپ کی زبان مبارک تالو سے ملی ہوئی تھی ، پھر آپ وصال فرما گئے
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
اللہان سے راضی ہوا اور انہیں ہم سے راضی کر دے ۔ آمین! والحمد لله رب العالمين وصلوته على سيد الانبياء ومحمد وآله وصحبه اجمعين – الحمد لله على احسانه تمت بالخير .
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 762،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور