حقائق موہومہ اور موجود حقیقی کے درمیان فرق مکتوب نمبر 71دفتر سوم

حقائق و دقائق موہوم یعنی عالم اور موجودحقیقی یعنی صانع عالم کے درمیان تمیز کرنے کے بیان میں جناب پیر زادہ خواجہ عبیداللہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ  کے لیے ہے نقطہ جوالہ جس سے دائرہ  وہم میں پیدا ہوا ہے جس طرح خارج میں موجود ہے وہم میں بھی موجود ہے لیکن وہاں یعنی خارج میں دائرہ کے پردہ کے بغیر ہے اور یہاں یعنی وہم میں دائرہ کے پردہ کے ساتھ ہے اور خارج و وہم میں موجود اس طرح نہیں کہ ہر مرتبہ میں وجود علیحدہ رکھتا ہے۔ ہر گز نہیں بلکہ خارج میں بھی اور وہم میں صرف ایک ہی موجود ہے جو وہاں یعنی خارج میں دائرہ کے پردہ کے بغیر ہے اور یہاں یعنی وہم میں دائرہ کے پردہ کے ساتھ اور یہ دائرہ موہومہ جو وہم میں نمود بے بود(وہ نمائش جو حقیقی نہ ہو) رکھتا ہے اور حس کی غلطی سے پیدا ہوا ہے اگر اس کو اس مرتبہ میں موجود کریں اور اثبات وتقرر دیں اور اس کونمود بابود(حقیقی نمائش  ) بنائیں تو اس وقت حس کی غلطی سے نکل کر نفس الامر ہو جائے گا اور احکام صادقہ پیدا کر لے گا۔ پس اس دائرہ کے لیے وہم میں حقیقت بھی ہے اور صورت بھی ۔ اس کی حقیقت تو وہی نقطہ جوالہ ہے جس کے ساتھ دائرہ قائم ہے اور اس کی صورت یہی دائرہ  ہے جس نے ثبوت و ثبات پیدا کیا ہے۔ یہ صورت اگر چہ اس حقیقت کاعین نہیں ۔ کیونکہ الگ صفات و احکام رکھتی ہے لیکن حقیقت سے دور اور جدا بھی نہیں ۔ یہ حقیقت ہی ہے جس نے اپنے آپ کو اس نمود میں متخیل کیا ہے۔ بیت 

خوشتر آن باشد که سردلبراں گفته آید در حدیث دیگراں

 ترجمہ: ہے یہ بہتر که راز دلبراں دوسروں کی گفتگو میں ہو عیاں

حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ اس مقام میں کہتا ہے۔ ان شئت قلت إنه حق وإن بيت قلت إنه خلق وإن شئت قلت إنه حق من وجه وخلق من وجه وان نت قلت بالخيرة لعدم التمييز بينهما (اگر تو عالم کوحق کہہ دے تو درست ہے اور اگر تو خلق کہہ دے تو بھی اچھا ہے اور اگر تو اس کو ایک جہت سےحق کہہ دے اور ایک جہت سے خلق تو بھی بجا ہے اور اگر دونوں میں تمیز نہ ہونے کے باعث حیرت کا قائل ہوتو بھی ٹھیک ہے) لیکن جاننا چاہیئے یہ تمیز حقیقت و صورت کے درمیان اگرچہ وہم میں ہے لیکن چونکہ صورت اس مرتبہ وہم میں حق تعالیٰ  کی ایجاد سے موجود ہوتی ہے اور اثبات وتقرر اس کو حاصل ہوا ہے۔ اس لیےنفس الامری (اصل حقیقت)  ہوگئی ہے بلکل نفس الامری کی تمیز حاصل کر کے ظلیت کے طور پر موجود خار جی ہوگئی ہے کیونکہ صورت کا وجود جس طرح حقیقت کے وجود کا ظل ہے۔ اسی طرح مرتبہ نمود بھی بود کے حاصل ہونے کے بعد خارج كاظل ہے۔ پس جب صورت اور حقیقت کے در میان تمیز نفس الامری بلکہ خارجی ہوگئی تو پھر ایک کو دوسرے پرحمل کرنا ممتنع ہے اور ایک دوسرے کا عین نہیں ہوگا جس نےعین کہا ہے اس نے تمیز وہمی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا اور امتیازی کے سوا کچھ نہیں جانا ۔ سبحان الله مرتبہ وہم حق تعالیٰ  کی ایجاد سے جو اس مرتبہ میں واقع ہوئی ہے خارج او نفس الامر بن گیا ہے اور اس علم وخارج سے جو متعارف ہیں الگ ہو گیا چونکہ یہ مرتبہ خارج ہوگیا ہے اس لیے اس میں مرتبہ وہم کو جدا کر دیا ہے اور نقطہ جوالہ موجود خارجی ہوگیا ہے اور دائره جو اس سے پیدا ہے موہوم بن گیا ۔

 عجب معاملہ ہے۔ صورت جو حقیقت سے پیدا ہے اور جو کچھ بھی ہے حقیقت ہی سے رکھتی ہے اور حقیقت سے اس کو کچھ جدائی نہیں ۔ اس کو زبردستی حقیقت سے جدا کیا اور تو ہم سے تحقیق میں لا کر متمیزو ہمی کوخارجی بنا دیا۔ آیت کریمہ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي ‌أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ( اس اللہ تعالیٰ  کی صنعت ہے جس نے ہر شے کو مضبوط کیا ) کو ملاحظہ کرنا چاہیئے کہ حق تعالیٰ  نے لاشے محض کو اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ شے کر دیا اور دانا و بینا مرید بنا دیا ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں ۔ بیت 

چونکہ اوشد گوش و چشم و دست و پاء خیره ام برچشم بندی خدا

ترجمہ بیت جب ہوا وہ گوش و چشم و دست و پاء چشم بندی دیکھ کر حیراں رہا 

چشم بندی یہاں کیا گنجائش رکھتی ہے۔چشم بندی وہاں ثابت ہوتی ہے جہاں پر واقع کو واقع ظاہر کیا جائے ۔ یہاں قدرت خداوندی نے غیری واقع کو واقع کر دیا ہے اور احکام کاذبہ کو جو اس مرتبہ میں ثابت تھے صادقہ بنا دیا ہے۔ حضرت شیخ لِعَدَمِ التَّمَیُّزِ بَيْنَهُمَا ( دونوں کے در میان تمیز کا نہ ہونا) فرماتا ہے۔ حالانکہ عبد اور رب کے درمیان پچاس ہزار سال کا راستہ ہے۔ آیت کر یمہ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کا طول پچاس ہزار برس ہے)  میرااسی امر کی طرف اشارہ ہے۔شیخ بھی راستہ کی اس قدر دوری کا اقرار کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ حیرت کا قائل ہوا ہے۔ کوئی بیوقوف راستہ کی اس دوری سے حق تعالیٰ  کو بعید نہ خیال کرے اور اپنے سے دور نہ جانے کیونکہ حق تعالیٰ  بندہ سے اس کے اپنے نفس سے بھی قریب بلکہ اقرب ہے بلکہ بعد ادراک و معرفت کے اعتبار سے ہے۔ نہ کہ مکان و مسافت کے اعتبار سے دائرہ کا اخیر نقطہ تمام نقطوں کی نسبت مبدء دائرہ کے زیادہ نزدیک ہے لیکن چونکہ اس کی پشت کو مبدء دائرہ کی طرف کیا ہے اور اس کے رخ کو دوسری طرف پھیر دیا ہے۔ اس لیے اس کی یافت مبدءسے قریب ہونے کے باوجود دور جا پڑی ہے اور تمام نقطوں کے طے کرنے کے بعد وابستہ ہوئی ہے۔ ابيات . 

اے کمان و تیرا پر ساختہ صید نزدیک تو دور انداختہ 

ہر کے دور انداز تراو دورتر از چنیں سید است اومہجورتر 

ترجمہ ابیات اے کمان و تیر کو بالکل بنایا تونے پر صید تھا نزد یک لیکن تو نے ڈالا دورتر جس قدر کوئی ہے دور انداز ہ اتنا دور ہے اس طرح کےصید سے اتنا ہی وہ مہجور ہے 

ہاں جب تک بعد کی تکلیفیں نہ اٹھائیں دولت قرب کی قدر معلوم نہیں ہوتی۔ ۔ اَلْخَيْرُ فِیْ مَاصَنَعَ اللهُ تعالیٰ بہتر وہی ہے جو الله تعالیٰ  کرے) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ200ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں