اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کا فیض ہمیشہ خاص و عام پر وارد ہے۔ اس کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا تفاوت اسی طرف سے پیدا ہے۔ حافظ بہاوالدین سرہندی کی طرف لکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے شریعت کے سیدھے راستہ پر استقامت بخشے اگر چہ حق تعالیٰ کا فیض خواہ اولا دواموال کی قسم سے ہو اور خواہ ہدایت و ارشاد کی جنس سے خاص و عام اور کر یم ولئیم(سخی و کنجوس) پر بلاتفرقہ ہمیشہ وارد ہے لیکن بعض فیوض کے قبول کرنے اور بعض کے قبول نہ کرنے میں تفاوت اسی(بندہ) طرف سے پیدا ہے۔ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ. (اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے) ۔
گرمی کا سورج دھوبی اور کپڑے پر یکساں چمکتا ہے لیکن (سورج کی گرمی سے)دھوبی کا چہرہ سیاہ اور اس کا کپڑا سفید ہو جاتا ہے۔ یہ عدم قبول جناب پا ک کی طرف سے روگردانی کے سبب ہے۔ روگردان کے لئےبدبختی لازم اور نعمت سے محروم رہنا واجب ہے۔
اس جگہ کوئی یہ نہ کہے کہ بہت سے ایسے روگرداں ہیں جو دنیا کی نازو نعمت میں ممتاز ہیں اور ان کی روگردانی ان کی محرومی کا باعث نہیں ہوئی۔
جاننا چاہیئے کہ وہ درحقیقت نقمت یعنی بدبختی ہے جو استدراج کے طور پر اس کی خرابی کے لئے نعمت کی صورت میں ظاہر کی ہوئی ہے تا کہ(ایسا شخص) اس روگردانی اور گمراہی میں مستغرق رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم مال و اولاد سے ان کی امداد کرتے ہیں اور ان کےبھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں یہ بات نہیں بلکہ وہ نہیں سمجھتے۔
پس دنیا کا ناز ونعمت جو(حق تعالیٰ کی)اعراض وروگردانی کے باوجود حاصل ہو۔ عین خرابی ہے اس سےبچنا چاہیئے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ365ناشر ادارہ مجددیہ کراچی