اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کے وجود پاک پر اس کا اپنا وجود پاک ہی دلیل ہے نہ کہ اس کا ماسوائے اور اس کے بیان میں عرفان پناه مرزا حسام الدین احمد کی طرف لکھا ہے۔ عَرَفْتُرَبِّي بفَسْخِ الْعَزَائِم لَا بَلْ عَرَفْتُ فَسْخِ الْعَزَائِم بِرَبِّي میں نے اپنے رب کو ارادوں کے توڑنے سے نہیں پہچانا بلکہ ارادوں کے توڑنے کو اپنے رب کے ساتھ پہچان لیا ہے وہ حق تعالیٰ اپنے ماسوائے پر دلیل ہے نہ کہ برعکس اس لئے کہ دلیل اپنے مدلول سے اظہرہوتی ہے اور حق تعالیٰ سے بڑھ کر اور کونسی چیز اظہر ہے کیونکہ تمام اشیاء اس سے ظاہر ہوئی ہیں وہ اپنی ذات اور اپنے ماسوائے پر دلیل ہے اسی واسطے میں کہتا ہوں کہ عَرَفْتُ رَبِّي بِرَبِّي عَرَفْتُ الْأَشْيَاءَ بِهٖ تَعَالیٰ میں نے اللہ تعالیٰ کو اللہ ہی کے ذریعے پہچانا اور اشیاء کواللہ تعالیٰ کے ساتھ پہچانا پس بر ہان اس جگہ لمّی(برہان لمّی یہ ہے کہ علت سے معلول کی طرف دلیل پکڑیں ) ہے اور اکثر کے خیال میں انّی (برہان انّی یہ ہے کہ معلول سے علت کی طرف دلیل پکڑیں ) ہے اورتفاوت نظر کے تفاوت سے ہے اور اختلاف بلحاظ منظر کے اختلاف ہے بلکہ وہاں استدلال اور برہان کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ حق سبحانہ کے وجود میں کوئی پوشیدگی اور اس کے ظہور میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور وہ تمام بدیہیات(جانی بوجھی پیش نظر چیزوں) سے زیادہ روشن ہے اور یہ بات سوائے اس شخص کے کہ جس کے دل میں مرض اور اس کی آنکھوں پر پردہ ہوکسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور تمام اشیاءحواس ظاہری سے محسوس ہیں اور ضروری طور پر معلوم ہے کہ ان سب کا وجوداسی ذات پاک کی طرف سے ہے اور بعض لوگوں کو اس علم کا حاصل نہ ہونا کسی مرض کے معارض ہونے کے سبب سے ہے جو مطلوب میں مضر نہیں ہے وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلىٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلوٰۃُ وَالسَۤلَامَٰ اَتَمُّهَا وَاَکْمَلُهَا
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ174 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی