اس بیان میں کہ ہمارا تعلق حبی اور ہماری نسبت انعکاسی ہے اور قُرب و بُعد میں کچھ تفاوت(فرق) نہیں رکھتی اور اس کے مناسب بیان میں مولانا محب علی کی طر ف صادرفرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)آپ کا صحیفہ شریفہ جو التفات وتوجہ سے لکھا ہوا تھا اس کے پہنچنے سے خوشی حاصل ہوئی اور چونکہ فرط محبت اور کمال اختصاص سے بھرا ہوا تھا اس لئے فرحت پرفرحت حاصل ہوئی۔ آپ نے سابقہ عہد کے پورا کرنے کیلئے لکھا ہوا تھا۔
میرے مخدوم ! اوضاع شرعیہ میں سے جس وضع پرآپ رہیں کچھ مضائقہ نہیں بشرطیکہ رشتہ محبت نہ ٹوٹ جائے۔ بلکہ دن بدن قوت پیدا کرے اور اس اشتیاق کی چنگاری سردنہ ہوجائے بلکہ دم بدم زیادہ بھڑکتی جائے۔ کیونکہ ہمارا ارتباط(تعلق) حبی(محبت پر) ہے اور ہماری نسبت انعکاسی اور انصباغی (دوسرے کا اثر و عکس قبول کرنا اور رنگ میں رنگ جانا)اور جلدی اور دیر اور طرق کے بعض خصوصیات کا علم ہونے اور نہ ہونے کےسواقرب و بعد میں کچھ تفاوت نہیں رکھتی ۔ اس معنی کی تحقیق اس کتاب کے خاتمہ سے جو اپنے فرزند ارشد کے نام طریق کے بیان میں لکھا ہے طلب فرمائیں۔ اس مکتوب کی نقل برادرم سیادت پناه میرمحمدنعمان کے یار لے گئے ہیں۔ وہاں سے منگوالیں ۔ زیادہ طول کلام کیا کیا جائے ۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ243 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی