ایران کے آتش پرستوں کی طرف ایک لشکر بھیجا گیا۔لشکر کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔ انہوں نے لشکر کے ایک افسر حضرت عاصمؓ کو کسی کام سے میان کے مقام پر بھیجا۔ یہ مقام دشمن کے علاقے میں تھا۔ جب حضر ت عاصمؓ وہاں پہنچے تو کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا۔ ان کے ساتھیوں کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہ بچا۔ انہوں نے آس پاس تلاش شروع کی کہ کوئی بکری یا گائے مل جائے۔ کافی تلاش کے با وجود کوئی جانور نظر نہ آیا، لیکن آخرکار ایک خیمہ دکھائی دیا۔ خیمے کے باہر ایک آدمی کھڑا نظر آیا۔ حضرت عاصمؓ نے اس سے پوچھا: ’’ کیا یہاں آس پاس کوئی گائے یا بکری مل جائے گی‘‘اس نے نفرت زدہ انداز میں منہ سکیڑ کر کہا: ’’ مجھے نہیں معلوم ‘‘ حضرت عاصمؓ جانے کیلئے مڑے ہی تھے کہ خیمے کے اندر سے آواز آئی: ’’ یہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے، ہم یہاں موجود ہیں ۔‘ ‘ (كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، هَا نَحْنُ)
حضر ت عاصمؓ خیمے میں داخل ہوئے۔ وہاں انہیں کئی گائے بیل کھڑے نظر آئے۔۔۔البتہ وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ حضرت عاصمؓ وہاں سے وہ گائے اور بیل لے آئے اور ان کا گوشت لشکر میں تقسیم کیا ۔ یہ واقعہ کسی نے حجاج بن یوسف کو سنایا، اسے یقین نہ آیا۔ اس نے قادسیہ کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ بتائیں ، یہ واقعہ ہوا تھا یا نہیں ۔ تب بہت سے حضرات نے گواہی دی کہ اس واقعے کے و قت و ہ مو جود تھے۔ حجاج نے ان سے پوچھا: ’’ اس زمانے میں لوگوں کا اس واقعے کے بارے میں کیا خیا ل تھا‘‘ انہوں نے جواب میں کہا: ’’ اس واقعے کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا تھا کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور وہ ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔‘‘ یہ سن کر حجاج نے کہا: ’’یہ بات اس صورت میں ہو سکتی ہے جب اکثر لوگ متقی اور پرہیز گار ہوں ‘‘ اس پر انہوں نے کہا: ’’ دلوں کا بھید تو اللہ ہی جانتا ہے، اتنا ہم جانتے ہیں کہ اس قدر بے نیاز لوگ ان کے بعد ہم نے نہیں دیکھے۔‘‘
تاریخ الکامل ابن اثیر :جلد 2 صفحہ291۔دار الكتاب العربي، بيروت – لبنان