خاصیتِ اسم اعظم

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

 ایک نیک آدمی ملک شام کی مسجد میں بھوک کی حالت میں پہنچا، اپنے نفس سے کہا: کاش میں اسم اعظم جانتا ہوتا‘‘۔ اچانک آسمان سے دوشخص اترے اور اس کے پہلو میں بیٹھ گئے ، ایک نے دوسرے سے کہا: “تیری خواہش اسم اعظم جان لینے کی ہے۔ دوسرے نے کہا: ہاں !‘‘ اس نے جواب دیا تو کہو: اللہ! اس صالح آ دمی نے یہ سن کر اپنے دل میں کہا: یہ تو بلاکسی شک کے میں کہا کرتا ہوں مگر اسم اعظم کی جو خاصیت ہے وہ ظاہر نہیں ہوتی‘‘

اس نے جواب دیا: یہ بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تو اللہ اس طرح سے کہے کہ تیرے دل میں کوئی دوسرا نہ ہو۔   یہ کہہ کر وہ دونوں آسمان کی طرف چلے گئے۔ تو اپنے ظاہر کومخلوق کے لئے کر لے اور اپنے دل کو آخرت کے لئے ، اور تو اپنے باطن کو اللہ کی معیت میں دنیا وآخرت سے نکال کر کھڑا کر دے، اگر تو ایسا کر سکتا ہے تو کرگزر، ورنہ تو سلامتی کے ساتھ نہ رہے گا،۔۔۔ جنگلوں اور میدانوں میں بھاگ ،خلوتوں میں اور جنگلوں اور میدانوں میں ایمان کو حاصل کر ، پھر مخلوق کی طرف آ ، پہلے مخلوق کی طرف راستہ لینے سے پہلے اپنی خلوت میں کسی مرشد رفیق کو طلب کر لے ۔ کچھ تقریر کے بعد آپ نے ارشادفرمایا:

اولیاءاللہ دوسروں کے لئے لیتے ہیں اور تقسیم کر دیتے ہیں ، وہ معنی کے ساتھ قائم ہیں کہ تجھ سے لے کر تجھ پر ہی خیرات کر دیتے ہیں، مرید اللہ سے لیا کرتا ہے، عارف مخلوق سے لیتا ہے کہ وہ شاہی صوبے کا کارگزار اور بادشاہ کا نائب ہے ۔ خلق سے لے کر غیر کی طرف پہنچا تا رہتا ہے، اس کاطبق بادشاہ کی معیت میں اس کے سامنے دروازوں اورحجابوں سے پرے رکھا ہوتا ہے، اس عارف کی خواہشیں اور ساری مخلوق اس کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے ۔

 سید ناموسی علیہ السلام کا عصا سب چیزیں نگل جا تا تھا اور اس میں کچھ تغیر و تبدل واقع نہ ہوتا تھا، اگر تو میرے ہاتھ پر فلاح نہ پائے گا، تیرے لئے کبھی فلاح نہ ہوگی ، میں  تیرے طباق کی وجہ سے تجھے تعلیم نہیں دوں گا ، اور نہ تیری شان وشوکت کے ڈر سے تجھ سے اپناڈ نڈاہٹاؤں گا ، جومشغلہ تجھے مجھ سے رو کے وہ تیرے او پر منحوس اور تیرے حق میں برا ہے، تیری  یہ نحوست عنقریب تیرے اہل وعیال پر اثر ڈالے گی ، پھر وہ بھیک مانگیں گے ۔ نیک آدمی اپنے اہل وعیال کواللہ کے حوالے کرتا ہے اور اسی کی طرف سونپ دیتا ہے، اور منافق فاجر اپنے اہل وعیال کو اپنے درہم و دینار اور اپنی مترو کہ زمین اور پیشے کی طرف حوالے کر جا تا ہے ، اس لئے اس کا انجام کارتنگ دستی ہوتا ہے، تو تو جاہل ہے،مبغوض ہے ،اللہ کی رحمت سے دور ملعون ہے ، تیرے دل میں دنیا کے گوسالہ کی محبت پلا دی گئی ہے، تو اس پر ریجھا ہوا ہے۔ اللهم أرزق من طلب الدنيا لمعونته على الدين ومن طلب الأخرة لوجهك ومن طلب الدنيا للدنيا فلا ترزقه ومن طلب الأخرة رياء فلا ترزقة لانهما حجاب

الہٰی! تو اسے رزق دے جو تجھ سے دنیا کو دین پر مدد کے لئے طلب کرے اور جو تجھ سے دنیا کو دنیا کے لئے ، اور آخرت کوریا ءکے طور سے طلب کرے تو اسے رزق نہ دے، کیونکہ یہ دونوں طلبیں تجھ سے حجاب ہیں‘‘۔ کاش کہ تم میں سے کوئی ایک ہی شخص فلاح حاصل کر لیتا تا کہ ہم سب اس کا دامن پکڑ لیتے ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 758،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں