اس بات کے بھید میں کہ بعض اولیاء اللہ سے خوارق بکثرت ظہور میں آتے ہیں اور بعض اولياء اللہ سے کم اور مقام ارشاد وتکمیل کے اتم(اعلیٰ درجہ کے) ہونے اور اس کے مناسب بیان میں میرزا احسان الدین احمد کی طرف لکھا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ الله رب العالمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور آل پاک پر صلوة وسلام ہو۔
غمزدہ دل میں یہ بات آتی ہے کہ جب دوستوں کے درمیان بعد صوری حاصل ہے اور ظاہری ملاقات عنقا(کمیاب) ہوگئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کبھی کبھی بعض علوم و معارف یاروں کی طرف لکھے جائیں۔ اس واسطے کبھی کبھی اس قسم کی باتیں لکھتا رہتا ہے امید ہے کہ ملال کا باعث نہ ہوں گی۔
میرے مخدوم! چونکہ ولایت کی بحث کے درمیان ہے اور عوام کی نظر خوارق(کرامات) کے ظاہر ہونے پرلگی ہے۔ اس لئے اس قسم کی بعض باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ذراغور سے سنئے گا۔
ولایت فنا و بقاء سے مراد ہے کہ خوارق اور کشف خواہ کم ہوں یا زیادہ اس کے لوازم سے ہیں لیکن یہ نہیں کہ جس کے خوارق زیادہ ظاہر ہوں اس کی ولایت بھی اتم ہو۔ بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خوارق بہت کم ظاہر ہوتے ہیں مگر ولایت اکمل ہوتی ہے۔
خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کا مدار دو چیزوں پر ہے۔ عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کے وقت زیادہ بلند جانا اور نزول کے وقت بہت کم نیچے اترنا بلکہ کثرت خوارق کے ظہور میں اصل عظیم قلت نزول یعنی بہت کم نزول کرنا ہے ۔عروج کی جانب خواہ کسی کیفیت سے ہو کیونکہ صاحب نزول عالم اسباب میں اتر آتا ہے اور اشیاء کے وجود کو اسباب سے وابستہ معلوم کرتا ہے اور مسبب الاسباب کے فعل کو اسباب کے پردے کے پیچھے دیکھتا ہے اور وہ شخص کہ جس نے نزول نہیں کیا یا نزول کر کے اسباب تک نہیں پہنچا۔ اس کی نظر صرف مسبب الاسباب کے فعل پر ہے کیونکہ مسبب الاسباب کے فعل پر اس کی نظر ہونے کے باعث تمام اسباب اس کی نظر سے مرتفع ہو گئے ہیں۔ پس حق تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے ظن کے موافق علیحدہ علیحدہ معاملہ کرتا ہے۔ اسباب کو دیکھنے والے کا کام اسباب پر ڈال دیتا ہے اور وہ جو اسباب کو نہیں دیکھتا۔ اس کا کام اسباب کے وسیلہ کے بغیر مہیا کر دیتا ہے۔ حدیث قدسی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي اس مطلب کی گواہ ہے۔
بہت مدت تک دل میں کھٹکتا رہا کہ کیا وجہ ہے کہ اس امت میں اکمل اولیاء بہت گزرے ہیں مگر جس قد ر خوارق حضرت سیدمحی الدین جیلانی قدس سرہ سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ ویسے خارق ان میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے۔ آخر کار حق تعالیٰ نے اس معما کا بھید ظاہر کر دیا اور جتلا دیا کہ ان کا عروج اکثر اولیاء اللہ سے بلند تر واقع ہوا ہے اور نزول کی جانب میں مقام روح تک نیچے اترے ہیں جو عالم اسباب سے بلند تر ہے۔
خواجہ حسن بصری اور حبیب عجمی قدس سرہ کی حکایت اسی مقام کے مناسب ہے۔
منقول ہے کہ ایک دن حسن بصری دریا کے کنارے پر کھڑے ہوئے کشتی کا انتظار کر رہے تھے کہ دریا سے پار ہوں۔ اسی اثناء میں خواجہ حبیب عجمی بھی آ نکلے۔ پوچھا آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ عرض کیا کشتی کا انتظار کر رہا ہوں۔ حبیب عجمی نے فرمایا کہ کشتی کی کیا حاجت ہے کیا آپ یقین نہیں رکھتے۔ خواجہ حسن بصری کشتی کے انتظار میں کھڑے رہے۔ خواجہ حسن بصری نے چونکہ عالم اسباب میں نزول کیا ہوا تھا اس لئے اس کے ساتھ اسباب کے وسیلہ سے معاملہ کرتے تھے اور حبیب نے چونکہ پورے طور پر اسباب کو نظر سے دور کر دیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اسباب کے وسیلہ کے بغیر زندگانی بسر کرتے تھے لیکن فضيلت حضرت خواجہ حسن بصری کیلئے ہے جو صاحب علم ہے اور جس نے عین الیقین کوعلم الیقین کے ساتھ جمع کیا ہے اور اشیاء کو جیسے کہ وہ ہیں جانا ہے کیونکہ قدرت کی اصل حقیقت کو حکمت کے پیچھے پوشیدہ کیا ہے اور حبیب عجمی صاحب سکر(مستی) ہے اور فاعل حقیقی پر یقین رکھتا ہے بغیر اس بات کے کہ اسباب کا درمیان میں دخل ہو۔ یہ دیدنفس امر کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اسباب کا وسیلہ واقع کے اعتبار سے ثابت و کائن(صحبت و معیت رکھنے والا ) ہے لیکن تکمیل و ارشاد کا معاملہ ظہور خوارق کے معاملہ کے برعکس ہے کیونکہ مقام ارشاد میں جس کا نزول جس قدر زیادہ تر ہوگا، اسی قدر وہ زیادہ کامل ہوگا کیونکہ ارشاد کے لئے مرشد ومسترشد(مرید) کے درمیان اس مناسبت کا حاصل ہونا ضروری ہے جو نزول پر وابستہ ہے۔ اور جاننا چاہیئے کہ جس قدر کوئی اوپر جاتا ہے اسی قدر نیچے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسالت خاتمیت ﷺ(معارج عروج)سب سے زیادہ اوپر گئے اور نزول کے وقت سب سے نیچے آگئے۔ اسی واسطے آپ کی دعوت اتم(اعلیٰ درجہ کی) ہوئی اور آپ تمام خلق کی طرف بھیجے گئے کیونکہ نہایت نزول کے باعث سب کے ساتھ مناسبت پیدا کی اور افادہ(فائدہ پہنچانا ) کا راستہ کامل تر ہوگیا اور بسا اوقات اس راہ کے متوسطوں سے اس قدر طالبوں کا فائدہ وقوع میں آتا ہے جو غیرمرجوع منتہیوں سے میسر نہیں ہوتا کیونکہ متوسط غیرمرجوع منتہیوں کی نسبت مبتدیوں کے ساتھ زیاد و مناسبت رکھتے ہیں۔
اسی سبب سے شیخ الاسلام ہروی قدس سرہ نے کہا ہے کہ اگر خرقانی اورمحمد قصاب موجود ہوتے ہیں تو میں تم کو محمد قصاب کے پاس بھیجتا اور خرقانی کی طرف نہ جانے دیتا کیونکہ وہ خرقان کی نسبت تمہارے لئے زیادہ فائدہ مند ہوتا۔ یعنی خرقانی ” منتہی تھے۔ مرید آپ سے بہت کم فائدہ حاصل کرتے تھے یعنی منتہی غیرمرجوع تھے نہ کہ مطلق منتہی کیونکہ کامل افادہ نہ ہوتا اس کے حق میں غیر واقع ہے کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺسب سے زیادہ منتہی تھے حالانکہ آپ کا افادہ سب سے زیادہ تھا۔ پس افادہ کے کم یا زیادہ ہونے کا مدار رجوع اور ہبوط پر ہے نہ کہ انتہا اور عدم انتہا۔
یہاں ایک نکتہ ہے جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس طرح نفس ولایت کے حاصل ہونے میں ولی کو اپنی ولایت کا علم ہونا شرط نہیں ہے جیسا کہ مشہور ہے اسی طرح اس کو اپنے خوارق کے وجودکا علم ہونا بھی شرط نہیں ہے بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی ولی سے خوار ق نقل کرتے ہیں اور اس کو ان خوارق کی نسبت بالکل اطلاع نہیں ہوتی اور وہ اولیاء جوصاحب علم اور کشف ہیں ان کے لئے جائز ہے کہ اپنے بعض خوارق پر اس کو اطلاع دے دیں بلکہ ان کی مثالیہ صورتوں کو متعدد مکانوں میں ظاہر کریں اور دور دراز جگہوں میں ان صورتوں سے ایسے عجیب وغریب کام ظہور میں لائیں جن کی اس صورتوں والے کو ہرگز اطلاع نہیں ہے۔
ازماوشا بہانہ ساختہ اند ترجمہ: بہانہ ہے ہمارا اور تمہارا درمیاں میں
حضرت مخدوم قبلہ گاہی(خواجہ باقی باللہ) قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کہتا تھا کہ عجیب کاروبار ہے کہ لوگ اطراف و جوانب سے (میرے پاس) آتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں ہم نے آپ کو مکہ معظمہ میں دیکھا اور موسم حج میں حاضر پایا ہے اور ہم نے آپ سے مل کرحج کیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بغداد میں دیکھا ہے اور اپنی دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور میں ہر گز اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا ہوں اور نہ ہی کبھی اس قسم کے آدمیوں کو دیکھا ہے۔ کتنی بڑی تہمت ہے جو ناحق مجھ پر لگاتے ہیں۔ وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلِھَا سب کاموں کی اصل حقیقت کواللہ ہی جانتا ہے اس سے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے۔ ہاں اگر آپ کی طلب اور پیاس زیادہ معلوم کی تو بہت جلدی اس سے زیادہ کچھ لکھا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ96ناشر ادارہ مجددیہ کراچی