محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اللہ کا خوف دین کی اصل ہے:
دین کی اصل اللہ کا خوف ہے ، اللہ سے جو ڈرتا ہے وہ رات میں چلا کرتا ہے کسی ٹھکانے پر نہیں ٹھہرتا بلکہ چلتا پھرتارہتا ہے ۔ اولیاءاللہ کے سفروں کی انتہا قرب الہٰی ہے حقیقی سیر پہلے دلوں کی سیر ہے اس کے بعد باطنوں کی سیر، جب یہ لوگ قرب کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں تو باطن داخل ہونے کی اجازت چاہتا ہے، اسے اجازت دے دی جاتی ہے، اس کے بعد انس دل کے لئے اجازت چاہتا ہے، اللہ کے نبی ﷺکا قلب اطہر کا تارہ پہلے چاند بنا، پھر چاند سے ۔ سورج ہو گیا ، ــ خلوت، جلوت بنی اور باطن ظاہر بناء –
بندہ خاص اپنے مدوجزر کی دو حالتوں میں ہوتا ہے، سرکوگر بیان میں ڈال کر باطن کے خیمے کورسی میں باندھے جب تیرا تا ہے تو سمندر کی تہہ میں موجود جواہرات دکھائی دیتے ہیں، مگر وہ ان کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا، بلکہ جو اس کے قریب موجود ہوتا ہے، اسے اشارہ کرتا ہے کہ اے فلاں! تو اس قدر لے لے،اوراے فلاں! تو اتنالے لے۔یہ زمین و آسماں کے بادشاہ ہیں، اللہ کی حضوری میں نیابت اور خلافت کی حیثیت میں رہتے ہیں، میں بادشاہ کے دروازے پر ان کا منتظر رہتا ہوں، خواب ہو یا بیداری تمہاری طرف دیکھتا رہتا ہوں تمہاری خاطر اس شہر کی تکلیفیں برداشت کرتا رہتا ہوں اور مخلوق کی آفتوں پر صبر سے کام لیتا ہوں ، میں رنج وغم میں اور فکر و حیرت میں دن کو رات سے ملا دیتا ہوں ۔ ایک قدم جب آگے بڑھتا ہوں ، واپس آ تا ہوں ۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ اپنی دعا میں حیرت میں پڑ گئے کہ کیا دعا مانگوں ، اس اثناء میں ان کی آنکھ لگ گئی، اللہ کریم کو فرماتے ہوئے سنا:
اے ابراہیم یوں دعا مانگو :
اللهم رضنني بقضائك وصبرني على بلائك وأوزعني شكر نعمائك واسئلك تمام نعمتك ودوام عافيتك والثبات على محبتك
“یا الہٰی! مجھے اپنی قضا پر راضی کر دے اور اپنی بلا پر صبر دے ۔ اور اپنی نعمتوں پر شکر کی توفیق عطا فرما، اور میں تجھ سے تیری پوری نعمت اور ہمیشہ کی عافیت، اور تیری محبت پر ثابت قدمی طلب کرتا ہوں‘‘۔ ہمارے نبی اکرم ﷺکے قلب اطہر پر ایک نرم آواز ڈالی گئی ، جس کی وجہ سے قلب اطہر نے اہل وعیال سے دوری چاہی، آپ غار حرا میں تشریف لے گئے جو کہ طور سینا کا ایک حصہ ہے، نسیم وحی کی مہک آنے لگی ، حرا میں ایک عابد رہا کرتا تھا جس کا نام ابو کبشہ تھا، آپ ﷺبھی وہیں تشریف لا کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گئے ، اس حال میں آپ ﷺجو خواب دیکھتے تھے، وہ صبح کی سپیدی کی طرح ظاہر ہو جا تا تھا، اچانک ایک آواز آئی:
“یامحمد یامحمد!! ( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس آواز کو سن کر گھبرا گئے ،اور اپنے گھر میں واپس تشریف لے گئے اور فرمایا: ” مجھے کملی اوڑ ھا دو، چادر سے چھپاؤ ، میں یقینی طور پر ایک آواز سنتا ہوں‘‘ (آواز دینے والا نظر نہیں آتا)۔ عرض کیا گیا: یہ آواز کملی اوڑھانے سے یا چادر میں لپیٹنے سے چھپ نہیں سکتی، اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔
یہ دل ہے جس کی مثال ایک کھجور کی گٹھلی کی طرح ہے جو ایسے گھر کے صحن میں پڑی ہو، جس کی چھت نہیں ہے، چار دیواری کھڑی ہوئی ہے، جاڑے کی بارش اور گرمی کی دھوپ دونوں اس پر پڑتی ہیں اور وہ گٹھلی پھوٹتی رہتی ہے، کسی کی نظر اس پر نہیں پڑتی ، حتی کہ جب اس کی شاخیں ظاہر ہوئیں اور وہ بلند ہوکر پھل لے آئی ، اور وہ پھل پک گئے ، اور لوگ انہیں چننے لگے، حالانکہ اس کی طرف پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہی دل کا معاملہ ہے، اللہ جب چاہتا ہے اسے زندہ کر دیتا ہے۔ ولایت کا ایک باطنی اور پوشیدہ امر ہے، اس کی مثال کھلی اور درخت کی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 648،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور