محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
جھوٹے دعوے کرنے والے لوگ:
اے مجلس والو! اے قیل و قال کے بیٹو!یہ فرماکرسید ناغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ پر دم کیا اور اپنے چہرے کو چاروں طرف پھیر کر ارشادفرمایا: جوکوئی خلوت نشین ہوئے بغیر تقوی اختیار کرے اور اللہ کی محبت کا دعوی کرے، وہ شخص جھوٹا ہے جو کوئی مال اور ملک خرچ کئے گئے بغیر جنت کی محبت کا دعوی کرے، وہ شخص جھوٹا ہے، جوکوئی فقر اور فقیروں کی محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ کی محبت کا دعوی کرے ، وہ شخص جھوٹا ہے،’ سر کی آنکھ سے دنیا کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ دل کی آنکھ سے آخرت کا ، اور باطن کی آنکھ سے اللہ کا مشاہدہ کیا جاتا تو اپنے ادب کی نگہداشت سے مخلوق کے ساتھ ایسا ادب کیا کرتا ہے کہ کسی کی آواز پر تیری آواز بلند نہ ہو جائے ، اللہ سے تو گناہوں کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے اور اس کے افعال میں اس سے معارضہ (یعنی جھگڑا) کرتا ہے ، تیرے یہ کام بہت برے ہیں، آفتاب ، کسی جاہل پر اور اس شخص پر طلوع نہیں کیا کرتا جو اللہ کی ذات کو اپنی خواہش اور طبیعت اور اپنے نفس پر اختیار کرتا ہے، یہ چیز عقلوں سے بالاتر ہے، روح اور دل کا تو اجد و وجد موافقت سے ہوتا ہے اورلیکن بجز پس ممکن نہیں ، ارشاد باری ہے إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ مگر جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو۔ مرید صادق کے اعمال حکم اور علم کے آئینوں کے موافق ہوتے ہیں:
مرید صادق پر جب بھی کوئی معاملہ وارد ہوتا ہے تو وہ اپنے ظاہری اعمال کو حکم کے آئینہ پر پیش کرتا ہے، اور اپنے باطنی اعمال کو علم کے آئینہ پر پیش کرتا ہے اور پرکھتا ہے، اگر اس کے اعمال دونوں آئینوں کے موافق ہوتے ہیں اور صحیح دکھائی دیتے ہیں ، اس وقت خود کو بادشاہ حقیقی کے سامنے داخل کر دیتا ہے، اگر اس کا عمل ایک آئینے کے موافق ہو اور ۔ دوسرے کے نہیں ، تو وہ داخل نہیں ہوتا بلکہ دروازے پر بیٹھ جا تا ہے ۔ اس سے کہا جا تا ہے کہ “تو اپنے معاملہ کو درست کر لے، یہاں تک کہ تیری کوشش مشکور ہو جائے اور تیرے عمل کی تعریف کی جائے ، کیونکہ یہ ایسا دروازہ ہے جس میں حکم اور علم کےبغیر داخل ہو ناممکن ہی نہیں ہے ۔ چنانچہ جب ایسا معاملہ درست ہو جائے گا تو اللہ تیرے لئے ایسے عملوں کو کھول دیگاجو پہلے عملوں سے ممتاز ہوں گے، وہ تیرے اور تیرے رب کے درمیان پوشیدہ ہوں گے، اس عمل پر کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل بھی مطلع وخبر دار نہ ہوگا، ان خاص بندوں کی شرعی عقلیں جاتی رہتی ہیں، انہیں عقل العقول عطا فرما دی جاتی ہے حتی کہ جب یہ بے ہوشی زمانہ ختم ہو جا تا ہے تو انہیں: ۔ بھوک کے بعد کھانے کی طرف ، پیاس کے بعد پینے کی طرف،جاگنے کے بعد سونے کی طرف تکلیف کے بعد راحت کی طرف لوٹا دیا جا تا ہے ۔ پھر یہ ایسے شغل کی طرف لوٹایا جا تا ہے جو کہ اسے تمام شغلوں سے روکنے والا ہوتا ہے، کیونکہ یہ بھیدوں کے خزانوں پر مطلع ہو جا تا ہے ۔ پھر ارادہ الہٰی کے موافق اسے اہل شہر اور اہل اقلیم کے حالات پر جو کہ اس سے مقصود ہے ،خبرمل جاتی ہے، اسے اطلاع دے دی جاتی ہے ، اور اگر وہ قطب بنایا جا تا ہے تو وہ ساری دنیا والوں کے عملوں اور ان کے ازلی حصوں اور انجام کار سے واقف ہو جا تا ہے ۔ اور اسرار کے خزانوں پر مطلع ہو جا تا ہے ۔ دنیا میں کوئی بھی بری اوربھلی چیز اس پرمخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی ، اس لئے کہ وہ شاہی یگانہ روزگار اس کا راز دار ، رسولوں اور نبیوں کا نائب اور سلطنت کا امین ہوتا ہے، پس یہی قطب زمانہ ہوتا ہے جس کا دل فرشتوں کی آمدورفت کی جگہ اور جس کا باطن اللہ کا منظر ہوتا ہے۔
اللہ تعالی جب کسی بندے کومخلوق سے منقطع کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس کے دل میں بنی آدم سے وحشت ڈال دیتا ہے، پھر اسے درندوں اور وحشیوں اور جنوں سے مانوس کر دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وحشیوں اور جنوں اور درندوں میں رہ کر اس کی آ دمیت کی وحشت جاتی رہتی ہے تو اسے فرشتوں سے انس دیتا ہے، وہ مختلف صورتوں میں اس کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ، یہ جنگلوں اور میدانوں اور دریاؤں میں ان کی باتیں سنتارہتا ہے ۔
اے انقطاع کا ارادہ کرنے والے سن لے! اے طالب مولی! پہلے کلام کا انتظار کر، پھر دیدار کا ، جب یہ بندہ فرشتوں کے کلام سے مانوس ہو جا تا ہے ، تو ان کی صورتیں دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کرتا ہے، پھر فرشتوں اور اس کے درمیان سے حجاب اٹھا دیا جا تا ہے ۔ اللہ کی مخلوق میں فرشتوں سے زیادہ لذیذ کلام والا کوئی نہیں ہے، مخلوق میں وہی سب سے زیادہ خوبصورت اور عمدہ ولطیف کلام والے ہیں ۔ پھر اسے فرشتے سے حجاب میں کر دیا جا تا ہے، اور وہ بندہ خوف و ہراس اور حیرت کا مارا اللہ کے دروازے پر پڑا رہتا ہے، پھر اس کے بعد قرب الہٰی کا انس آ جاتا ہے، پھر اس کے بعد ہوتا رہتا ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے ۔ کچھ دیر سکوت کے بعد اس کے دل کی طرف ویسی ہی وحی بھیجی جاتی ہے جیسی کہ سیدنا موسی علیہ السلام کی ماں کی طرف ان کے خوف کرنے کے وقت بھیجی گئی تھی۔
اے دل ! تو اپنے اس بھید پر جو تجھ میں پوشیدہ ہے، کے آشکار ہونے کا جب خوف کرے تو تو اپنے بدن کو جنگلوں اور میدانوں کے سمندر میں ڈال دے اور اپنے اہل واصحاب سے جدائی اختیار کر لے تجھ سے تو ایک ہی ( یعنی موسی علیہ السلام کی والدہ ) بہتر تھی جس نے اپنے بچے کو دریا میں ڈال دیا تھا۔تو دو پاؤں باہر نکالتا ہے اور ڈرتا ہے، اور یہ معاملہ تیرے ایمان کے نقصان کا باعث ہے، ارشاد باری ہے: لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا
اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم موسی (علیہ السلام) کی ماں کے دل پر صبر کی گرہ دے دیتے تو وہ راز فاش کر دیتیں‘‘۔ اسی طرح سے جب تو اپنی مراد ومقصود کے منقطع ہونے کے وقت اپنے تو کل کے جنگل میں خوف کرنے لگے گا، حتی کہ تیرا مخلوق اور سبب کی طرف لوٹنا قریب ہو جائے گا تو تیرے دل پر اطمینان کی گرہ لگا دی جائے گی ۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 719،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور