دل کی سلامتی اور ماسوائے حق کے نسیان میں حکیم صدر کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اہل اللہ دلی امراض کے طبیب ہیں۔ باطنی مرضوں کا دور ہونا، ان بزرگواروں کی توجہ سے وابستہ ہے۔ ان کی کلام دوا ہے اور ان کے نظرشفا ءیہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین بد بخت نہیں ہوتا اور یہی لوگ اللہ کے ہم نشین ہیں۔ انہی کی طفیل بارش نازل ہوتی ہے اور انہی کی طفیل مخلوقات کو رزق دیا جاتا ہے۔ باطنی مرضوں کی سردار اور اندرونی بیماریوں کی رئیس ماسوائے حق کے ساتھ دل کی گرفتاری ہے جب تک اس قید سے پورے طور پر آزادی نہ ہو جائے۔ سلامتی محال ہے ۔
کیونکہ شرکت کو اس بارگاہ اعلی میں ہرگز دخل نہیں۔ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ خبر دار دین خالص اللہ ہی کے لئے ہے پس کیا حال ہے جب کہ شر یک کو غالب کیا ہو۔ غیر کی محبت کو اسی طرح غالب بنانا کہ حق تعالی کی محبت اس کے مقابلے میں معدوم یا مغلوب ہو جائے۔ نہایت بے حیائی ہے الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ حیا ایمان کی شاخ ہے) میں شائد اس حیاء کی طرف اشارہ ہو اور دل کے گرفتار نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ماسوائے حق کو کلی طور پربھول جائے اور تمام اشیاء سے بے خبر ہو جائے حتی کہ اگر تکلف سے بھی اشیاء کو یاد کرے تو اس کو یاد نہ آئیں۔ پس اشیاء کی گرفتاری کی اس مقام میں کیا مجال ہے اس حالت کو اہل اللہ فنا سے تعبیر کرتے ہیں اور اس راہ میں یہ پہلا قدم ہے اور قدم کے انوار ظاہر ہونے کا مبدأ معرفتوں اورحکمتوں کے وارد ہونے کا منشاء ہے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ہ رنج و تکلیف ہے)
ہیچ کس راتا نگردد اوفنا نیست را در بار گاہ کبریا
ترجمہ: جب تک انسان نہ ہو جائے فنا درگاہ حق میں نہیں ملتی ہے جا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ293ناشر ادارہ مجددیہ کراچی