اس بیان میں کہ دل کی سلامتی ماسوائے اللہ کے نسیان کے بغیر ناممکن ہے اور یہ نسیان فنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سکندر خان لودھی کی طرف لکھا ہے:۔
حق تعالی سید البشر ﷺکے طفیل جو میلان چشم سے پاک ہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے اور اپنے غیر کے حوالہ نہ کرے۔ جو کچھ ہم پر اور تم پر لازم ہے حق تعالی کے غیرسے دل کو سلامت رکھنا ہے اور یہ سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ ماسوائے اللہ کا دل پرعبور نہ رہے۔ اور ماسوائے اللہ کا دل پر نہ گزرنا ماسوی اللہ کے نسیان پر وابستہ ہے جس کی تعبیر اس گروہ کے نزدیک فنا سے تعبیر کی گئی ہے اور اگر بالفرض تکلف کے ساتھ بھی غیر کو دل میں گزار یں تو ہرگز نہ گزرے۔ جب تک کام اس درجے تک نہ پہنچے دل کی سلامتی محال ہے۔ آج کل یہ نسبت کوہ قاف ( دنیا کے گرد گرد پہاڑ جو زمرد کاہے)کے عنقا(فرضی پرندہ) کی طرح نایاب ہے بلکہ اگر بیان کی جائے تو کوئی اس کی طرف تو جہ نہیں کرتا اور نہ کوئی اس کا یقین کرتا ہے ۔ شعر
ھنیئا لارباب النعيم نعيمها وللعاشق المسكين ما يجرع
ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک
اس سے زیاہ کیا لکھا جائے۔ والسلام اولا واخرا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ246ناشر ادارہ مجددیہ کراچی