دنیا اور اہل دنیا کی مذمت اور بے فائدہ علوم کے حاصل کرنے کی برائی اور فضول مباحات سے بچنے اور خیرات و اعمال صالحہ کے خاص کر جوانی کے وقت بجالانے کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں قلیچ الله بن قلیچ خان کی طرف لکھا ہے۔
حق تعالی حضرت محمد ﷺکی روشن شریعت کے سیدھے راستہ پر چلنے کی استقامت بخشے۔
اے فرزند! دنیا آزمائش اور امتحان کا مقام ہے اس کے ظاہر کو طرح طرح کی آرائشوں سے ملمع اور آراستہ کیا ہے اور اس کی صورت کو وہمی خط و خال اور زلف و چہرہ سے پیراستہ کیا ہے ۔ دیکھنے میں شیریں اور تروتازہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں عطر لگا ہوا مردار اور مکھیوں اور کیڑوں سے بھرا ہوا کوڑا اور پانی کی طرح دکھائی دینے والا سراب اور زہر کی مانند شکر ہے اس کا باطن سراسر خراب اورا بتر ہے اور باوجود اس قدر گندہ ہونے کے اس کا معاملہ اہل دنیا کے ساتھ اس سے بھی بدتر ہے جو بیان ہو سکے ۔ اس کا فریفتہ دیوانہ اور جادو کا مارا ہے اس کا گرفتار دھوکہ کھایا ہوا اور جنون ہے جو اس کے ظاہر پرفریفتہ ہونا ہمیشہ کا گھاٹا اس کے ہاتھ آیا اور جس نے اس کی مٹھاس اور تروتازگی پر نظر کی ہمیشہ کی شرمندگی اس کے نصیب ہوئی۔
سرور کائنات حبیب رب العالمین ﷺنے فرمایا ہے مَثَلُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ كَمَثَلِ رَجُلٍ لَهُ ضَرَّتَانِ، إِنْ أَرْضَى إِحْدَاهُمَا أَسْخَطَ الْأُخْرَى دنیا اور آخرت دونوں آپس میں سوکن ہیں ۔ اگر ایک راضی ہوگئی تو دوسری ناراض ۔ پس جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہوگئی پس آخرت سے بے نصیب ہوگیا ۔ حق تعالی ہم کو دنیا اور اہل دنیا کی محبت سے بچائے۔
اے فرزند! کیا تو جانتا ہے کہ دنیا کیا ہے دنیاوہی ہے جو تجھے حق تعالی کی طرف سے ہٹا رکھے۔ پس زن اور مال و جاه و ریاست ولہو ولعب اور بیہودہ کاروبار مشغول ہونا سب دنياہی میں داخل ہے اور وہ علوم جو آخرت میں کام آنے والے نہیں ہیں ۔ سب دنیا میں ہی داخل ہیں ۔ اگر نجوم و هندسہ و منطق و حساب وغیرہ بے فائد و علوم کا حاصل ہونا مفید ہوتا تو فلاسفہ سب اہل نجات میں سے ہوتے۔
آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ علامة إعراضه تعالى عن العبد اشتغاله مالا يعنيه بنده کا فضول کاموں میں مشغول ہونا خداتعالی کی روگردانی کی علامت ہے۔
ہرچه جز عشق خدائے احسن است گرشگر خوردن بود جان کندن است
ترجمہ: سوائے عشق حق جو کچھ کہ ہے ہر چند احسن ہے شکر کھانا بھی گر ہووے عذاب جان کندن ہے ۔
اور یہ جو بعض نے کہا ہے کوعلم نجوم نماز کے وقت پہچاننے کیلئے درکار ہے اس کا مطلب نہیں کہ علم نجوم کے بغیر اوقات پہچانے نہیں جاتے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ علم نجوم اوقات کے پہچانے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔ بہت لوگ علم نجوم نہیں جانتے مگر نماز کے اوقات کو نجوم کے جاننے والوں سے بہتر جانتے ہیں اور علم منطق اور حساب وغیرہ کے حاصل کرنے کی بھی جن کا مجمل طور پر حاصل کرنا بعض علوم شرعی میں ضروری ہے۔ یہی وجہ بیان کرتے ہیں غرض بہت سے حیلوں کے بعد ان علوم کے ساتھ مشغول ہونے کا جواز ثابت ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ احکام شرعیہ کی معرفت اور علم کلام کی دلیلوں کی تقویت کے سوا ان کے حاصل کرنے سے اور کوئی غرض مدنظر نہ ہو ورنہ ہرگز جائز نہیں ہیں۔
انصاف کرنا چاہیئے کہ جب امر مباح جس کے اختیار کرنے سے امور واجب فوت ہو جائیں اباحت سے خارج ہو جاتا ہے۔ تو کچھ شک نہیں کہ ان علوم میں مشغول ہونے سے علوم شرعی ضروری کا اشتغال فوت ہو جاتا ہے۔
اے فرزند! حق تعالی نے اپنی بڑی مہربانی سے تجھ کو ابتدائے جوانی میں توبہ کی توفیق عطا فرمائی تھی اور اس سلسلہ علیہ نقشبند یہ قدس سرہم کے درویشوں میں سے ایک درویش کے ہاتھ پر انابت و رجوع کی طاقت بخشی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ نفس و شیطان کے ہاتھ سے تجھ کو اس توبہ پر ثابت رہنا نصیب ہوا ہے یا نہیں ۔ استقامت مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ جوانی کا زمانہ ہے اور دنیاوی اسباب سب حاصل ہیں اور وہ بھی ہمسروں کی نسبت زیادہ نامناسب اور ناموافق۔
ہمہ اندر زن بتوابن است که توطفلی و خانه رنگین است
تر جمہ نصیحت میری تجھ سے ساری یہی ہے کہ گھر ہے منقش تو بچہ ابھی ہے
اے فرزند! عرض یہ ہے کہ فضول مباحات سے پرہیز کی جائے اور مباحات سے ضرورت کے موافق پر کفایت کرنی چاہیئے اور ان میں یہ نیت ہونی چاہیئے کہ وظائف بندگی کے ادا کرنے کی جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) حاصل ہو۔ مثلا کھانے سے مقصود طاعت کے ادا کرنے کی قوت اور پوشاک سے ستر عورت اور گرمی و سردی کا دور کرنا ہے باقی مباحات ضرور یہ میں بھی یہی قیاس کرلو۔
نقشبند یہ بزرگواروں قدس سرہم نے اپناعمل عزیمت پر اختیار کیا ہے اور رخصت سے حتی المقدور پرہیز کی ہے اور منجمد سب عزیمتوں کے قدر ضرورت پر کفایت کرنا ہے۔ اگر یہ دولت میسر نہ ہو ۔ تو مباحات کے دائر ہ سے پاؤں باہر نہ نکالنا چاہیئے اور حرام ومشتبہ کے نزدیک نہ جانا چاہیئے۔ حق تعالی نے اپنی کمال بخشش سے امور مباحہ کے ساتھ کامل اور پورے طور پر لذت کا حاصل کرنا جائز فرمایا ہے اور اس قسم کی نعمتوں کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ان نعمتوں اور لذتوں سے قطع کر کے کون سی عیش اس کے برابر ہے کہ بندے کا مولی اس کے کام سے راضی ہو جائے اور کون سا ظلم اس کے برابر ہے کہ اس کا مالک اس کے اعمال سے ناراض ہو جائے ۔ جنت میں اللہ تعالی کی رضامندی جنت سے بہتر ہے اور دوزخ میں الله تعالی کی ناراضگی دوزخ سے بدتر ہے۔
ا ب انسان اپنے مولی کے حکم کا غلام ہے اس کو خودمختار نہیں بتایا کہ جو چاہے کرے ۔ اس کی کچھ باز پرس نہ ہوگی ۔ فکر کرنا چاہیئے اورعقل دور اندیش سے کام لینا چاہیئے کل قیامت کے دن ندامت اور خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کام کا وقت جوانی کا زمانہ ہے۔ جوان مرد وہ ہے جو اس وقت کو ضائع نہ کرے اور فرصت کو غنیمت جانے مکن ہے کہ اس کو بڑھاپے تک پہنچنے نہ دیں اور اگر پہنچنے بھی دیں تو جمعیت حاصل نہ ہوگی اور اگر حاصل ہوگی تو ضعف اور سستی کے وقت کچھ نہ کر سکے گا۔ اس وقت جمعیت کے اسباب مہیا ہیں اور والدین کا وجود بھی خدائے تعالی کے بڑے انعاموں میں سے ہے کہ معاش اور گزارہ کا غم ان کے سر پر ہے اور فرصت کا موسم اور قوت و استطاعت کا زمانہ ہے کسی عذر سے آج کے کام کوکل پر نہ ڈالنا چاہیئے اور اپنا اسباب تسویف میں یعنی دیر میں نہ کھینچنا چاہیئے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ هَلَكَ الْمُسَوِّفُونَ وَالْمُسَوِّفُ مَنْ يَقُولُ سَوْفَ أَتُوبُ یعنی آج کل کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ ہاں اگر دنیا کمینی کے کاموں کو کل پر ڈال دیں اور آج آخرت کے عملوں میں مشغول ہو جائیں تو بہت ہی اچھا ہے جیسا کہ اس کا عکس بہت ہی برا ہے ۔ جوانی کے وقت جب کہ دینی دشمنوں یعنی نفس و شیطان کا غلبہ ہے۔ تھوڑاعم ل بھی اس قدر معتبر ہے کہ ان کے غلبہ نہ ہونے کے وقت اس سے کئی گناہ زیادہ عمل مقبول نہیں فن سپاہ گری میں دشمنوں کے غلبہ کے وقت کارگزار سپاہیوں کا تھوڑا سا تردد اس قدر معتبر اور نمایاں ہوتا ہے کہ دشمنوں کے شر سے امن کی حالت میں بہت ساتر ددویسا نہیں ہوتا۔
اے فرزند! انسان کے پیدا کرنے سے جو خلاصه موجودات ہے صرف کھیل کود اور کھانا سونا مقصودنہیں ۔ بلکہ اس سے مقصود بندگی کے وظیفوں کو ادا کرنا ۔ ذلت و انکسار وعجز و احتیاج و التجا اور خدائے تعالی کی جناب میں گریہ و زاری کرنا ہے ۔ وہ عبادات جن سے شرع محمد ﷺناطق ہے اور ان کے ادا کرنے سے مقصود بندوں کے فائدے اور نفع ہیں اور خدائے تعالی کی جناب میں ان میں سے کچھ عائد نہیں جان سے احسان مند ہو کر ادا کرنی چاہئیں اور بڑی فرمانبرداری سے اوامر کو بجالانے اور نواہی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے حق تعالی نے با وجودغنی مطلق ہونے کے بندوں کو اوامر و نواہی سے سرفراز فرمایا ہے ہم محتاجوں کو اس نعمت کا شکر پوری طرح ادا کرنا چاہیئے اور بڑی احسان مندی سے احکام کے بجالانے میں کوشش کرنی چاہیئے۔
اے فرزند! تجھے معلوم ہے کہ اگر دنیاداروں میں سے کوئی شخص جو ظاہری جاه و شوکت رکھتا ہو۔ اپنے ماتحت متعلقین میں سے کسی کو خدمت سے سرفراز فرمائے۔ حالانکہ اس خدمت میں حکم دینے والے کا بھی نفع ہے ۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ماتحت اس کے حکم کو کس قدر عزیز جانتا ہے اور اس کو معلوم ہے کہ ایک بلند قد والے شخص نے یہ خدمت فرمائی ہے۔ بڑے احسان کے ساتھ بجالانی چاہئے تو پھر کیا بلا پڑی کہ خدائے تعالی کی عظمت اس شخص کی عظمت سے کم نظر آتی ہے کہ خدائے تعالی کے احکام بجالانے میں کوشش نہیں کی جاتی شرم کرنی چاہیئے اور خواب خرگوش سے اپنے آپ کو بیدار کرنا چاہیئے ۔ خدائے تعالی کے حکموں کو بجا نہ لانا دو باتوں سے خالی ہیں ۔ یا شرعی اخباروں کو جھوٹ جانتا ہے اور یقین نہیں کرتا یا خدائے تعالی کی عظمت و شان دنیا داروں کی عظمت کی نسبت بہت حقیر نظر آتی ہے اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کرنی چاہیئے۔
اے فرزند! جس شخص کا جھوٹ کئی دفع تجر بہ میں آچکا ہودہ اگر کہہ دے کہ دشمن غلبہ پا کر فلاں قوم پر چھاپہ ماریں گے تو اس قوم کے عقلمند اپنی حفاظت کے درپے ہو جائیں گے اور اس مصیبت کے دور کرنے کا ذکر کریں گے ۔ حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ خبر جھوٹ سے اہم ہے لیکن کہتے ہیں کہ خطرہ کے گمان کے وقت عقلمندوں کے نزدیک احتراز لازم ہے۔
مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے مبالغہ کے ساتھ آخرت کے عذاب سے آگاہ کیا ہے لیکن کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ اگر اثر ہوتو اس کے دفعہ کرنے کا فکر کریں۔ حالانکہ اس کے دفع کرنے کا علاج بھی مخبر صادق ﷺ نے بتلا دیا ہے پس یہ کیا ایمان ہے کہ مخبر صادق ﷺکی خبر اس جھوٹے کی خبر جتنا بھی اعتبار نہیں رکھتی۔ صرف ظاہری اسلام نجات نہیں بخشتا یقین حاصل کرنا چاہیئے یقین کجا کہ ظن بھی نہیں ہے بلکہ ہم بھی نہیں ہے
کیونکه عقلمند خطرہ کے وقت وہم کا بھی اعتبار کر لیتے ہیں اور ایسا ہی حق تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ اللہ دیکھنے والے جوتم عمل کرتے ہو۔
باوجود اس عمل کے برے برے فعل سرزد ہوتے ہیں مگر جانیں کہ کوئی حقیرشخص ان عملوں سے خبردار ہے تو ہرگز برافعل اس کی نظر کے سامنے نہ کریں۔
پس ان کا حال دو حالت سے خالی نہیں یا حق تعالی کی خبر کا یقین نہیں کرتے یا حق تعالی کے واقف ہونے کا اعتبارنہیں کرتے تو خود ہی بتلانا چاہیئے کہ اس قسم کے فعل ایمان سے ہیں یا کفر سے پس اس فرزند پر لازم ہے کہ از سر نو ایمان لائے۔
آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے جَدِّدُوا إِيمَانَكُمْ بِقَوْلِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ یعنی لا الہ الا اللہ کے کہنے سے اپنے ایمان کو تازہ کرو اور خدا تعالی کی ناپسند باتوں سے ازسرنوخالص توبہ کرو جن کاموں سے منع فرمایا ہے اور ان کو حرام بتلایا ہے بچوپنچ وقتی نماز کو جماعت سے ادا کرو اور اگر تہجد کے لئے رات کا جاگنا حاصل ہوجائے تو زہے سعادت اور مال کی زکوۃ ادا کرنا بھی ارکان اسلام میں سے ہے اس کو بھی ضروری ادا کرو اور اس کے ادا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال سے جس قدر فقراء کا حق ہے سال کے حساب جدا کریں اور زکوة کی نیت پر نگاہ رکھ کر تمام سال میں زکوة کے مصارف میں خرچ کریں۔ اس طریق سے ہر مرتبہ زکوة کے ادا کرنے کی نئی نیت کرنا لازم نہیں ہے۔ ایک ہی دفعہ کی نیت کافی ہے معلوم ہے کہ تمام سال میں کس قد رفقراء اور مستحقین پر خرچ کرتے ہیں لیکن چونکہ اس میں زکوة کی نیت نہیں وہ کسی حساب میں نہیں اور صورت مذکورہ بالا میں زکوة بھی ذمے سے ادا ہو جاتی ہے اور نا مناسب خرچ سے بھی خلاصی مل جاتی ہے اور اگر بالفرض اس قدر تمام سال میں فقراء پر خرچ نہ ہو اور کچھ باقی رہے تو اس کو اسی طرح اپنے مال سے جدا رکھیں ہر سال اسی طرح عمل کریں جب فقرا کا مال جدا ہوتا ہے۔ اگر آج اس کے ادا کرنے کی توفیق نصیب نہ ہو تو شاید کل توفیق حاصل ہو جائے۔
اے فرزند! چونکہ نفس بالذات بخیل ہے اور احکام الہی کے بجالانے میں سرکش ہے اس واسطے بات صرفہ اور مبالغہ سے کی جاتی ہے ورنہ مال و ملک سب خدائے تعالی کا ہے اس کی کیا مجال ہے کہ اس میں دیر کرے ۔چا ہئے کہ بڑی احسان مندی سے ادا کریں اور ایسے ہی تمام عبادات میں اپنے آپ کو معاف نہ رکھیں ۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بڑی کوشش کریں کہ کسی کا اپنے نے ذمہ رہ جائے۔ اب اس کا حق ادا کرنا آسان ہے نرمی اور چاپلوی سے بھی رفع ہوسکتا ہے اور آخرت میں کام مشکل ہے کوئی علاج نہ ہوگا۔ احکام شرعی علمائے آخرت سے پوچھنے چاہئیں کیونکہ ان کی بات کی بڑی تاثیر ہے شاید کہ ان کے دم کی برکت سے ان کے عمل کرنے کی توفیق حاصل ہو جائے اور علمائے دنیا سے جنہوں نے علم کو مال و جاہ کا وسیلہ بنایا ہے دور رہنا چاہے ہاں اگر کوئی پرہیز گار عالم نہ ملے تو بقدر ضرورت ان سے ملنا ضروری ہے ۔ وہاں میاں حای محمد اثرہ علمائے دیندار میں سے ہیں اور شیخ على اثره کوتم خود جانتے ہی ہو۔ غرض ان ہر دو بزرگواروں کاوجود اس علاقہ میں غنیمت ہے مسائل کی تفتیش میں ان کی طرف رجوع کرنا مناسب ہے۔
اے فرزند ! ہم فقرا کو دنیا دار دولت مندوں سے کیا نسبت کہ ان کے نیک و بد کی نسبت گفتگو کریں شرعی نصیحتیں اس بارے میں پورے اور کامل طور پر وارد ہوئی ہیں۔ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ كامل دلیل اللہ ہی کے ہاں ہے۔
لیکن جب اس فرزند نے ازروئے توبہ کے فقراء کی طرف رجوع کیا تھا۔ اسی نسبت کے سبب اکثر اوقات دلی توجہ اس فرزند کے حال پر ہوتی رہتی ہے اور وہی توجہ اس گفتگوکا باعث ہوئی ہے میں جانتا ہوں کہ یہ سب نصیحتیں اور مسئلے اس فرزند کے کانوں میں پہنچے ہوئے ہوں گے۔ لیکن مقصود عمل ہے نہ صرف علم۔
وہ بیمار صرف اپنی مرض کی دوا کا علم رکھتا ہے جب تک اس دوا کو نہ کھائے گا صحت نہ پائے گا صرف دوا کا جاننا فائدہ نہ کرے گا۔ یہ سب مبالغے اور اصرار عمل کے لئے ہے علم خود حجت کو درست کر لیتا ہے۔
آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِمٌ لَمْ يَنْفَعْهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعِلْمِهِ سب لوگوں میں سے بڑھ کر عذاب کا مستحق وہ عالم ہے جس کو اپنے علم سے نفع نہیں۔
و ہ فرزند! جان لے کہ پہلی انابت نے جمعیت والوں کی صحبت حاصل نہ ہونے کے باعث اگر چہ کچھ فائدہ نہ دیا ہو گا لیکن اس فرزند کے جو ہر استعداد کے نفیس ہونے کی دیتی ہے ۔ امید ہے کہ حق تعالی اس انابت کی برکت سے آخر اپنی مرضیات کی توفیق عطا کرے گا اور اہل نجات میں سے بنادے گا۔
بہر حال اس گروہ(اہل اللہ ) کی محبت کا رشتہ ہاتھ سے نہ دیں اور ان لوگوں کے آگے التجا اور عاجزی کرتے رہیں اور منتظر ر ہیں کہ حق تعالی اس گروہ کی محبت کے باعث اپنی محبت سے مشرف فرمائے اور پوری طرح اپنی طرف سے اور ان جنجالوں (غیر شرعی دنیاوی تعلقات)سے بالکل آزاد کردے۔
عشق آ شعله است کوچوں بر فروخت ہر کہ جز معشوق باقی جمله سوخت
تیغ لا در قتل غیر حق براند درنگرزاں پس کے بعد لاچه ماند
ماند الا الله باقی جمله رفت شاد باش اے عشق شرکت سوز درفت
ترجمه: عشق کی آتش کا جب شعلہ اٹھا ماسوا معشوق سب کچھ جل گیا
تیغ لا سے قتل غير حق کیا دیکھے اس کے بعد پھر کیا رہ گیا
رہ گیا اللہ باقی سب فنا مرحبا اے عشق تجھ کو مرحبا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ217ناشر ادارہ مجددیہ کراچی