کتاب “التشوف الی حقائق التصوف” کی دوسری فصل کا عنوان “تصوف کی لغوی اور اصطلاحی تعریف” (الفصل الثانی فی تعریف التصوف لغۃً واصطلاحاً) ہے۔ اس فصل میں تصوف کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیےشیخ القرآن والتفسیر استاذ العلماء پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا محمد حمید جان سیفی نے مختلف ائمہ اور صوفیائے کرام کے اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ :
تصوف کی علمی اور اصطلاحی تعریف
۱. شیخ الاسلام زکریا الانصاری (متوفی 926ھ): تصوف وہ علم ہے جس کے ذریعے نفس کے تزکیہ، اخلاق کی پاکیزگی، اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال معلوم ہوتے ہیں تاکہ ابدی سعادت حاصل کی جا سکے،۔
۲. شیخ احمد زروق (متوفی 899ھ): تصوف وہ علم ہے جس کا مقصد دلوں کی اصلاح اور ان کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہے۔ یہ علم ایسے ہی ہے جیسے فقہ اعمال کی اصلاح کے لیے، طب بدن کی حفاظت کے لیے اور نحو زبان کی درستی کے لیے ضروری ہے،۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی (متوفی 297ھ) کے اقوال
۳. تصوف ایک ایسی صفت ہے جس میں بندے کو قائم کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ صفتِ حق ہے، تاہم ظاہری رسم اور حالت کے اعتبار سے یہ بندے کی صفت شمار ہوتی ہے،۔
۴. تصوف ہر بلند اور اچھے اخلاق کو اپنانے اور ہر پست و برے اخلاق کو ترک کر دینے کا نام ہے،۔
دیگر ائمہ کے ارشادات
۵. حضرت ذوالنون مصری: صوفی وہ ہوتا ہے جو کچھ کہے تو اس کی گفتگو حقائق کے بارے میں ہو، اور جب خاموش ہو تو اس کے اعضاء دنیا سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہوں،۔
۶. شیخ ابن عجیبہ: تصوف وہ علم ہے جس کے ذریعے بادشاہوں کے بادشاہ (اللہ تعالی) کے حضور حاضری کے طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا اول علم ہے، وسط عمل ہے اور اس کا آخر اللہ کی طرف سے خاص عطا (موہبہ) ہے،۔
۷. صاحبِ کشف الظنون (حاجی خلیفہ): تصوف وہ علم ہے جس سے انسانی کمالات کے درجات اور ابدی سعادت تک پہنچنے کے طریقے معلوم ہوتے ہیں،۔
۸. شیخ ابوالحسن نوری: تصوف ظاہر اور باطن کی تعمیر کا نام ہے،۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ تصوف نفس کے تمام حصوں اور خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے،۔ صوفی وہ ہے جس کی روح پاک ہو گئی اور وہ اللہ کی بارگاہ میں صفِ اول میں شامل ہو گیا،۔ صوفی نہ تو کسی چیز کا مالک ہوتا ہے اور نہ کسی کی ملکیت میں آتا ہے،۔
۹. شیخ ابن الجلاء: تصوف ایک ایسی حقیقت ہے جس کی کوئی ظاہری تعریف (رسم) نہیں کی جا سکتی،۔
۱۰. شیخ ابوعمرو دمشقی: تصوف یہ ہے کہ آپ کائنات کو نقص کی آنکھ سے نہ دیکھیں بلکہ کائنات سے اپنی نظریں پھیر کر خالقِ کائنات کی طرف متوجہ ہو جائیں،۔
۱۱. شیخ ابوالحسن حصری: تصوف باطن کو مخالفت (نافرمانی) کی کدورتوں سے پاک کرنے کا نام ہے،۔
۱۲. امام کتانی: تصوف سراسر اخلاق کا نام ہے۔ جو شخص اخلاق میں تم سے آگے بڑھ گیا، وہ تصوف میں بھی تم سے آگے نکل گیا،۔ ۱۳
. شیخ مرتِعش: صوفی وہ ہے جس کی ہمت اور ارادہ اس کے قدم سے پیچھے نہ رہے (یعنی وہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے)،۔ ۱۴. قاضی عبدُ الرسول الاحمد نگری: تصوف دل کو اللہ کے لیے خالی کر لینے اور غیر اللہ سے تعلق توڑ لینے کا نام ہے،۔ ۱۵. شیخ عبدالرحمن جامی (نفحات الانس): حضرت ابراہیم بن شہریار نے خواب میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ تصوف کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “دعووں کو ترک کرنا اور معانی (حقائق) کو چھپانا تصوف ہے”،۔
امام علی بن محمد الجرجانی کی جامع تعریف
۱۶. حضرت جرجانی کے مطابق تصوف شریعت کے آداب کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، یعنی ظاہر میں احکام کی پابندی اور باطن میں ان کی حقیقت کا مشاہدہ کرنا،۔ اس میں نفسانی دعووں کو چھوڑنا، اخلاقِ بشریہ کی کدورتوں کو ختم کرنا، حقائق کے علوم کے ساتھ تعلق قائم کرنا اور امتِ مسلمہ کی خیر خواہی شامل ہے،۔
متاخرین صوفیاء کے اقوال
۱۷. امام ابن قیم الجوزیہ: تصوف رذائل (بری صفات) سے خالی ہونا اور فضائل (اچھی صفات) سے آراستہ ہونا ہے،۔ ۱۸. حضرت سری سقطی: تصوف کے تین معانی ہیں: معرفت کا نور پرہیزگاری کے نور کو بجھانے نہ پائے، باطن کی گفتگو کتاب اللہ کے ظاہر کے خلاف نہ ہو، اور کرامات اسے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی خلاف ورزی پر نہ اکسائیں،۔
۱۹. حضرت ابونعیم اصبہانی (حلیۃ الاولیاء): حضرت شبلی سے عارف کی علامت پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ عارف وہ ہے جس کا سینہ کشادہ ہو، دل زخمی ہو اور جسم دنیا سے لاتعلق ہو۔ صوفی وہ ہے جس نے اپنے دل کو صاف کیا اور مصطفیٰ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلا،۔
۲۰. حضرت ابوبکر شبلی: جب ان سے صوفی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: صوفی وہ ہے جو اپنے نفس کو ذبح کرے، اپنی خواہشات کو رسوا کرے، اللہ کے احکام پر سختی سے عمل کرے اور مخلوق کا سچا خیر خواہ ہو،۔
اختتامی نچوڑ
۲۱. شیخ ابراہیم مصطفیٰ و دیگر محققین: تصوف کا علم طریقت، حقیقت اور صوفیاء کے احوال کا علم ہے۔ اس کی سند حضرت جنید بغدادی، سری سقطی اور معروف کرخی جیسے اکابرین سے ہوتی ہوئی نبی کریم ﷺ تک پہنچتی ہے،۔ ۲۲. حضرت عبدالحمید ابن ابی الحدید: تصوف کی تقریباً دو ہزار تعریفیں کی گئی ہیں جن کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی طرف سچی توجہ ہے۔ تصوف کا اصل ستون دل کی پاکیزگی ہے جو بندے کو اس کے خالقِ عظیم سے جوڑ دیتی ہے،۔
تمثیل: تصوف کی ان تمام تعریفوں کی مثال ایک ایسے ستارے کی ہے جس کی طرف دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ اشارہ کر رہے ہوں۔ کوئی اس کی چمک کا ذکر کرتا ہے، کوئی اس کی بلندی کا، اور کوئی اس کی رہنمائی کا۔ الفاظ الگ الگ ہیں، لیکن سب کا اشارہ اسی ایک روشنی کی طرف ہے جو انسانی دل کو اندھیروں سے نکال کر اللہ کے نور تک پہنچاتی ہے،۔







