محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے دوسری مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی فی الفقر ‘‘ ہے۔
منعقده 5 شوال 545 بروزمنگل بمقام مدرسه قادر یہ بغداد شریف
فقر وصبراہل ایمان کے سوا کسی غیر میں اکٹھے نہیں ہو سکتے:
اے اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ تیری غفلت اور غرور تجھے اس سے دور کر دے گا، اورتجھے اللہ سے الگ پھینک دے گا۔ اس سے پہلے کہ تجھے مار پڑے اور ذلیل و بے عزت کیا جائے ، اور مصیبتوں بلاؤں کے سانپ اور بچھو تجھے ڈسنے لگیں، تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی مغروری اور غفلت سے باز آ جاؤ ۔ چونکہ تم نے مصیبت و بلا کی مارکا مزہ چکھاہی نہیں، اس لئے ضرور دھوکہ میں پڑ رہے ہو، جو نعمتیں تجھے میسر ہیں۔ان میں پڑ کرمت اتراؤ، کیونکہ وہ عنقریب مٹ جانے والی ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً” جب وہ ہماری عطا کردہ نعمتوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ایک دم دبوچ لیا۔“ اللہ تعالی کی نعمتوں کے حصول میں صبر کرنے کے باعث ہی کامیابی و فتح مندی ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے صبر کے لئے سخت تا کید فرمائی ہے۔ فقر اور صبر اہل ایمان کے سوا کسی غیر میں اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ محبت والے مصیبت سے آزمائش کئے جاتے ہیں ، اور وہ آزمائش میں صبر کرتے ہیں، مصیبتوں اور آزمائشوں کے باوجودان پر نیک کاموں کے کرنے کا الہام ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ان پر جونئی نئی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں تو صبر سے برداشت کرتے ہیں، اگر صبر نہ ہوتا تو مجھے ہرگز اپنی مجلس میں نہ د یکھتے گویا کہ مجھے ایک جال بنا دیا گیا ہے جس کے ذریعے شروع رات سے اخیر رات تک پرندوں کا شکار کیا جا تا ہے ۔ میری آنکھ کھول دی جاتی ہے اور میرے پاؤں کو بھی کھول دیا جاتا ہے۔ (وقت تنہائی ہے) ۔ دن میں آنکھیں بند ہوتی ہیں اور میرے پاؤں جال ( پھندے ) میں جکڑے ہوتے ہیں – قضاوقد ر کا یہ فعل تمہاری حالت کی اصلاح ونصیحت کے لئے ہے مگر تم نہیں پہچانتے ہو، اگر اللہ کی توفیق مجھے راستہ نہ دکھاتی (یعنی اگر میں راضی برضا نہ ہوتا تو کون عقل مند ہے جو اس شہر میں بیٹھتا اور اس شہر کے رہنے والوں کے ساتھ رہن سہن اختیار کرتا ، جس شہر میں دکھاوا، مکاری ، نفاق اور ظلم عام ہے۔ شبہ اور حرام کی کثرت ہے، اللہ کی دی گئی نعمتوں پر ناشکری کی جاتی ہے، اور ان نعمتوں کے بل بوتے نافرمانیوں اور فسق و فجور پر مد دحاصل کی جاتی ہے، ایسے لوگ بکثرت ہیں جن کے حالات مختلف پہلو رکھتے ہیں: جو اپنے گھر میں فاجر ، دکان پر آ کر پرہیز گار، اپنے تہہ خانے میں زندیق ( بے دین ) ہوں ، اور کرسی پر بیٹھ کر صدیق بن جائیں ، اگر میں حکم (شریعت) کا پابند نہ ہوتا تو جو کچھ تمہارے گھروں کے اندر ہوتا ہے ،سب بیان کر دیتا مگر میں ایک مکان کی بنیاد رکھ رہا ہوں جس کو عمارت کی تعمیر کی ضرورت ہے، اور میرے روحانی بچے (مرید ) ہیں جو تربیت کی حاجت رکھتے ہیں ، میرے پاس علم الہی کی بعض ایسی معلومات ہیں، اگر میں انہیں ظاہر کر دوں تو میرے اور تمہارے درمیان جدائی کی وجہ بن جائیں ، اس وقت میں جس حالت میں ہوں ، اس میں مجھے تمہاری ہدایت کے لئے ) نبیوں اور رسولوں کی طاقت کی ضرورت ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر میرے زمانہ تک جو نیک انسان گزرے ہیں، مجھے ان کے صبر کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ) میں قوت ربانی کا محتاج ہوں ۔ اللهم لطفا وعينا وموافقة ورضا آمین! الہی میں تیرے لطف و مدد اور توفیق اور رضا چاہتا ہوں۔ آمین۔
ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے:
بیٹا ! تم دنیا میں ہمیشہ کی زندگی اور خواہشیں پوری کرنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ، اللہ کے جن نا پسندیدہ کاموں میں تو مبتلا ہے، انہیں چھوڑ دے، بدل دے، تم نے صرف کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ زبان سے پڑھ کر یہ سمجھ لیا کہ عبادت و اطاعت الہی سے بری الذمہ ہو گئے، ایسا کرنا تجھے کچھ نفع نہ دے گا جب تک کہ تم اس کے ساتھ کوئی اور چیز یں نہ ملاؤ گے۔ ایمان قول اورعمل دونوں کا نام ہے۔ گناہ کرتے جانا، نافرمانی میں مبتلا رہنا اللہ کی مخالفت میں لگے رہنا ،ان سارے کاموں پر اصرار بھی کرنا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا چھوڑ دینا روزہ رکھنا ترک کر دینا ،صدقہ اور نیکی کے کام نہ کرنا، ایسے میں صرف کلمہ شریف پڑھ کر ایمان کا دعوی کرنا قبول نہ کیا جائے گا اور نہ ہی تمہیں کچھ نفع دے گا ۔ عمل کے بغیر کلمہ شہادت تجھے کیا فائدہ دے گا۔ جب تم لا إلـــہ الا اللہ کہہ کر توحید کے مدعی بن گئے تو تم سے تمہارے دعوے کی تصدیق کے لئے گواہ طلب کئے جائیں گے، تمہیں علم ہے کہ وہ گواہ کیا ہیں اور کون ہیں؟ – احکام الہی کا بجالانا ، اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا، آفتوں پر صبر کرنا اور تقدیر الہی کو تسلیم کر لینا تمہارے دعوی توحید کے یہی گواہ ہیں اور جب تم ان اعمال پر کار بند ہو جاؤ گے تو) اخلاص ربانی کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں کوئی قول عمل کے بغیر اور کوئی عمل اخلاص اور اتباع شریعت کے بغیر مقبول نہیں ہے ۔
اپنے مال سے فقیروں کے دکھ بانٹو ۔ اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق تھوڑی بہت جو مددان کی ہو سکےکرتے رہو، ان کے سوال کو رد کر کے انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ ۔ اللہ کو عطا بڑی محبوب ہے ۔ عطا کرنے میں تم اللہ کی موافقت کرو، اس کے شکر گزار ہو کہ اس نے تمہیں اس نیکی کی توفیق بخشی اور مال کے عطا کرنے پر قدرت عنایت فرمائی۔ افسوس تو تمہاری اس بات پر ہے کہ سائل اللہ کے لئے سوال کرتا ہے( اللہ کے نام پر ہدیہ مانگتا ہے ۔ ) تم میں دینے کی قدرت بھی ہے۔ اس کے باوجود تم ہدیہ عطا کرنے والے اللہ کی طرف ہد یہ لوٹانے سے خودکو کیوں روکتے ہو، (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب تو میری طرف متوجہ ہوتا ہے مجھے اپنے دل کا حال سنانے کی کوشش کرتا ہے ، باتیں ( وعظ ) سنتا ہے اور روتا ہے ۔ اور جب تیرے پاس کوئی سائل (میرے نام پر خیرات مانگنے کے لئے آتا ہے تو تیرا دل سخت ہو جا تا ہے۔ ( تیرے اس رویئے اور طرزعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میرے پاس بیٹھ کر تیراوعظ سنناسنانا اور رونا خالصا اللہ کے لئے نہیں تھا۔ میرے پاس بیٹھ کر تیرا وعظ سننا پہلے باطن سے پھر دل سے ہونا چاہئے ، پھر ظاہری اعضاء سے کہ وہ نیکی اور بھلائی میں مشغول رہیں، اور جب تم میرے پاس آؤ تو اپنا علم اور عمل اور زبان، اپنا حسب ونسب سب کو بھلا کے آؤ اور اپنامال اور اپنے اہل وعیال ،قبیلہ سب کچھ چھوڑ کے آؤ، ماسوا اللہ سے دل کو خالی کر کے میرے سامنے کھڑے ہوتا کہ میں تمہیں اپنے قرب اورفضل واحسان کا لباس پہنا دوں۔ میرے پاس آتے وقت جب تم اس پر عمل کرو گے تو تمہاری یہ کیفیت اس پرندے کی طرح ہوگی جو صبح کے وقت اپنے گھونسلے سے بھوکا نکلتا ہے اور شام کو جب لوٹتا ہے تو اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔ دل کی نورانیت اللہ کے نور سے ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اے فاسق (وبدکار )صاحب ایمان (یعنی مومن) سے ڈرتا( بچتا رہ ، اپنے گناہوں کی نجاست سے لتھڑ کر اس کے پاس نہ جا۔ کیونکہ وہ اللہ کے نور سے
جس حالت میں تو مبتلا ہے، تجھے دیکھ لے گا ، تیرا شرک اور نفاق اس پر کھل جائے گا،تیرے کپڑوں کے نیچے جو تیرے بدعمل ، تیری ذلتیں اور رسوائیاں پوشیدہ ہیں ، سب دیکھ لے گا۔ ( تجھے اس سے حیا کرنی چاہئے ) ۔ جوشخص صاحب فلاح اور خلاص کو ( نیک نیتی سے نہیں دیکھتا، وہ فلاح اور خلاصی نہیں پاسکتا، تو حرص کا مجسمہ ہے۔تیر ا ملناجلنا حرص والوں کے ساتھ ہے۔
کسی سائل نے سوال کیا کہ یہ اندھا پن کب تک رہے گا ، ارشادفرمایا: – یہاں تک کہ طبیب کے پاس جائے ۔ اس کی دہلیز پر تکیہ لگائے ، طبیب کے ساتھ نیک گمان رکھے، اپنے دل سے اس کی طرف سے تہمت و بدگمانی نکال ڈالے۔ اپنی اولادسمیت اس کے در پر بیٹھا رہے۔ اس کی کڑوی دوا کو صبر کے ساتھ نوش کرے۔ اس وقت تمہاری ( دل کی) آنکھوں سے ( ظاہری و باطنی ) اندھا پن دور ہو جائے گا۔‘‘
شان فقر دل کے ترک دنیا کرنے میں ہے:
فقر کی شان کھر درے(موٹے )لباس اور ناقص (وبے مزہ ) کھانا کھانے میں نہیں ہے،۔فقر کی شان تو دل کے ترک دنیا کرنے (زہد اختیار کرنے میں ہے، عاشق صادق پہلے پہل اپنے باطن پر صوف کا لباس پہنتا ہے، پھر وہ اپنے ظاہر کی طرف بڑھتا ہے، ( اس میں ترتیب اس طرح سے ہے کہ پہلے اپنے باطن کو صوف ( جامہ تصوف) پہنا تا ہے، پھر قلب (دل) کو ، پھر نفس کو ، پھر اپنے ظاہری اعضاء کو ظاہر اور باطن کھر درا ہو جائے ( یعنی سراپا صوف پوش ہو کر ) نیک بن جا تا ہے تو اس کی طرف شفقت و رحمت واحسان کا (ربانی) ہاتھ بڑھتا ہے اور اللہ کی طرف سے طاری کردہ مصیبت پر بڑا انقلاب لے آ تا ہے ۔ اس سے غم واندوہ کاسیاہ (ماتمی لباس اتار کر جامہ راحت پہنا دیتا ہے۔ اس کی مشقت اور تکلیف نعمت سے _بخش ورنج سرور سے، ڈر خوف امن سے ،دوری قرب ونزدیکی سے اور،فقر ومحتاجی کو غنا وامیری سے بدل دیتا ہے۔ شریعت کے احکام تمہارے پاس امانت ہیں:
اے بیٹا! قسمت سے لکھے (یعنی رزق کو زہد کے ہاتھ سے تناول کر ، رغبت کے ہاتھ سے نہ کھا، کھا کر رونے والااس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کھا کر ہنسنے والا ہے۔ اپنے نصیب کا رزق اس طرح کھاؤ کہ تمہارا دل اللہ کے ساتھ مشغول ہو، یوں تو کھانوں کے شر سے بچارہے گا ،جس چیز کی اصلیت سے تم واقف نہیں ہوا سے از خود کھانے سے بہتر ہے کہ طبیب کے ہاتھ سے کھاؤ۔
اے سننے والو تمہارے دل کس چیز نے سخت بنا دیئے ،تم سے دیانت داری جاتی رہی ،آپس کی محبت و مہربانی بھی دور ہو گئی۔شریعت کے احکام تمہارے پاس امانت ہیں تم نے ان پرعمل کرنا چھوڑ دیا اور تم میں خیانت رائج ہوگئی۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے نزدیک امانت کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کچھ ہی دنوں میں تیری آنکھوں میں پانی اتر آئے گا اور تیرے ہاتھ پاؤں آ ہنی زنجیر سے جکڑے جائیں گے۔ اللہ تعالی تم پر اپنی رحمت کا دروازہ بند کر دے گا ، اور اپنی مخلوق کے دلوں میں تیری طرف سے سختی ڈال دے گا ،اوروہ جو تجھ پر احسانات کرتے ہیں ان سے انہیں روک دے گا اپنے سروں کو اپنے رب کے ساتھ محفوظ رکھو، اور اس سے ڈرتے رہو، اس لئے کہ اس کی پوچھ گچھ نہایت ہی سخت اور تکلیف دہ ہے، تمہیں تمہاری امن اور عافیت کی جگہ اور غرور و نافرمانی سے پکڑے گا ، اس سے خوف کرو، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے۔ شکر کے ساتھ اس کی نعمتوں کی حفاظت کرو، کرنے اور رکنے سے حکم کا سننے اور ماننے سے مقابلہ کرو، اس کی سختی اورتنگی کو صبر کے ساتھ اور کشادگی وسعت کوشکر سے مقابلہ کرو، تم سے پہلے جو نبی اور رسول، صالحین و عابدین گزر چکے ہیں۔ان کا بھی اسی پرعمل تھا، وہ نعمتوں پر شکر اور مصیبتوں پر صبر کیا کرتے تھے، تم اس کی نافرمانی اور گناہوں کے خوانوں سےالگ ہو جاؤ ، اور اس کی اطاعت و تابع داری کے خوانوں سے کھاؤ۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرونرمی و آسانی آ ئیں توشکر کرو جب تنگی آئے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرواوراپنے نفسوں سے جھگڑا کرو، کیونکہ اللہ کسی حالت میں اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا، موت اور اس کے بعد در پیش آنے والے حالات کو یاد کرو، تمہارے ساتھ اللہ کا جو حساب اور مہربانیاںہیں ، انہیں یادرکھو، غفلت کی نیند کب تک سوتے رہو گے نادانی و جہالت نفس کی بے ہودگی حرص میں قائم رہنے کی عادت کب تک رہے گی۔اللہ کی عبادت اور شریعت کی پابندی میں ادب کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے ، عادت کو ترک کر دیناہی عبادت ہے، قرآن وحدیث کے احکام سے سبق کیوں نہیں سیکھتے اس کے مطابق کیوں نہیں چلتے۔
دل کی زندگی تو یہ ہے کہ…….
اے بیٹا! اندھے پن، نادانی اور غفلت و خواب کی حالت میں لوگوں کے ساتھ میل جول نہ کر۔ ان سے دل کی آنکھوں علم اور بیداری سےمل، اگر ان سے کوئی اچھی بات ہے تو تو بھی ان کا ساتھ دے-ان کی تابعداری کر،اگر ان میں کوئی قابل نفرت اور خلاف شرع بات دیکھے تو ان کا ساتھ نہ دے ، خود بھی ان سے بچ اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کر اللہ کے معاملے میں تم پوری طرح سے غفلت میں ہو، تمہارے لئے ضروری ہے کہ احکام الہی کی تعمیل کے لئے بیدار ہوشیار ہو جاؤ اور مسجدوں ہی کے ہور ہو، نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درودوسلام بھیجو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
لو نزل من السماء نار ما نجا منها إلا أهل المساجد – اگر آسمان سے آگ اترے تو مسجد والوں کے سوا کوئی اور شخص اس سے نجات نہ پائے گا۔‘‘ نماز ادا کرنے میں اگر تم غفلت کرو گے تو تمہاری نماز اللہ تک نہ پہنچے گی ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إذَا كَانَ سَاجِدًا سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ تو کتنی تاویلیں (ردوبدل) کرتا ہے اور رخصتیں(سہولات آسانی نرمی ) تلاش کرتا ہے یاد رکھ تاویلیں کرنے والا بے وفا دھوکہ باز ہوتا ہے ۔ کاش کہ ہم ، محض عزیمت( سختی ومشقتی برداشت کرتے ہوئے شرعی احکام کی تعمیل کرنا عبادت میں جتنی تکلیف زیاد و برداشت کی جائے ، اسی قدر اجر بھی زیادہ ہوگا۔) پرعمل پیرا ہوتے ، اپنے اعمال میں اخلاص کرتے ، تب ہی اللہ کے احکام سے ہمیں خلاصی ہوتی ( نجات ملتی )۔ لہذا کیا حال ہوگا جب کہ ہم تاویلیں اور رخصت تلاش کر یں ،عزیمت بھی گئی اور اہل عز یمت بھی گزر گئے ،یہ تو رخصت کا دور ہے عزائم کا زمانہ گیا، یہ دکھادے (ریا)، نفاق اور ناحق مال چھین لینے کا دور ہے ۔ ایسے لوگ بہت ہیں کہ نماز وروزہ ، حج اور زکوۃ ،اور نیکی کے سب کام لوگوں کے (دکھاوے کے لئے کرتے ہیں ، اپنے خالق و مالک کے لئے نہیں کرتے ۔ آج کل لوگوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کی خوشی کو مقدم رکھیں مخلوق کو راضی رکھیں ، اس میں خالق اور اس کی منشاء ورضا مندی کا مطلق خیال نہ کر یں، اس لئے تم سب کے دل مردہ ہو چکے ہیں، نفس اپنے خواہشوں اور طلب دنیا کے ساتھ زندہ ہیں۔ زندگی وزندہ دلی یہ ہے کہ مخلوق سے کٹ کر خالق کے ساتھ جڑا جائے ، خالق کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے ۔ کیوں کہ اس مقام پر ظاہری صورت کا تو اعتبار ہی نہیں ہے۔ دل کی زندگی تو یہ ہے کہ احکام الہی بجا لائے ، نہی سے بازرہے اور بلاؤں ، حادثوں پر صبر کر کے اور تقدیر کے امور میں سرتسلیم خم کرے۔
دین کی زندگی ، شیطان کی موت:
اے بیٹا! تقدیر کے امور پر راضی برضا ہو کرخودکواللہ کے سپردکر دے۔ پھر تو استقامت اختیار کر ، ہر کام کے لئے بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے، پھر اس پر عمارت کی ۔ رات اور دن کی تمام گھڑیوں میں اس پر ثابت قدم رہنا اور ہمیشگی کرنا چاہئیے۔ افسوس ہے کہ تولا پرواہ ہے، اپنے ہر کام میں غور وفکر کیا کر ، ہر معاملے میں فکر کرنا تو دل کا کام ہے، جب تو اس میں اپنے لئے بہتری ( نیکی ) پائے تو اللہ کا شکر ادا کر، اللہ کی نعمت پر شکر کرنا لازم ہے، اور جب تو اس میں اپنے لئے برائی دیکھے تو اس سے توبہ کر لے۔ اس غوروفکر سے تمہارادین زندہ ہوگا اور شیطان کی موت ہوگی ، اس لئے فرمایا کہ
تَفَكُّرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَةٍ’’ایک گھڑی کا فکر ساری رات کی عبادت سے بہتر ہے ۔
تھوڑے عمل پر کثیراجر:
اے محمد ﷺ کے امتیو ! تم اللہ کاشکر ادا کرو، کیونکہ اس نے تم سے پہلے گزر جانے والی امتوں کے زیادہ اعمال کی نسبت تمہارے تھوڑے عمل کو بھی قبول فرمالیا ہے۔ تم دنیا میں سب سے بعد میں آئے ہو جبکہ اللہ کی رحمت سے قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے ۔ تم میں سے جو شخص صحیح وتندرست ہے، اس جیسا کسی امت کا اور کوئی صحیح نہیں ہے،تم امتوں کے سردار اور امیر ہوجبکہ وہ تمہاری رعایا ہیں، جب تک تو لوگوں سے اس کی نعمتوں میں جھگڑا کرتارہے گا، اور اپنے دکھاوے اور نفاق سے ان سے فائدہ اٹھا تا رہے گا تو تندرست نہ ہوگا ، اپنے نفس اور حرص وطمع میں گھرار ہے گا صحیح نہ ہوگا، ۔ جب تک تو دنیا میں رغبت کرنے والا ہے، تیرے لئے (روحانی طور پر) تندرستی وصحت نہیں ہے۔ جب تک تیرادل ماسوا اللہ پر بھروسہ کرنے والا رہے گا، تجھے اللہ پر اعتماد نہ ہوگا ، اور پھر تجھے ( روحانی طور پر صحت وتندرستی نہ ہوگی ۔
اللهم ارزقنا الصحة معك وآتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اللہ! ہمیں اپنا قرب اور صحت عطا فرما اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 20،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 21دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان