اس بیان میں کہ دین کا دنیا کے ساتھ جمع کرنا مشکل ہے پس طالب آخرت کے لئے دنیا کا ترک کرنا ضروری ہے۔ اگرحقیقی ترک میسر نہ ہوتو ترک حکمی سے چارہ نہیں اور اس کے مناسب بیان میں خواجہ جہان کی طرف لکھاہے: ۔
سلمكم الله وعافاكم حق تعالی آپ کو سلامت و عافیت سے رکھے۔
ما أحسن الدين و الدنيا لو اجتمعا ترجمہ: دین و دنیا گر جمع ہو جائیں تو کیا خوب ہے۔ .
دین و دنیا کا جمع کرنا دوضدوں کا جمع کرنا ہے۔ پس طالب آخرت کے لئے دنیا کا ترک کرنا ضروری ہے اور چونکہ اس وقت اس کا حقیقی ترک میسر نہیں ہو سکتا بلکہ مشکل ہے تو ناچار ترک حکمی پر ہی قرار پکڑنا چاہیئے اور ترک حکمی سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی امور میں شریعت روشن کےحکم کے موافق چلنا چاہیئے اور کھانے پینے اور رہنے سہنے میں شرعی حدوں کو مد نظر رکھنا چاہیئے اور حدوں سے تجاوز نہ کرنا چاہیئے اور بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے چار پاؤں میں زکوة مفروضہ کو ادا کرنا چاہیئے اور جب احکام شرعی سے آراستہ ہونا نصیب ہوا تو گویا دنیا کی تکالیف سے نجات حاصل ہوئی اور آخرت کے ساتھ جمع ہوگئی اور کسی کو اگر اس قسم کا ترک حکمی میسر نہ ہو تو وہ اس بحث سے خارج ہے وہ منافقت کا حکم رکھتا ہے کیونکہ صرف ظاہری ایمان آخرت میں فائدہ مند ہوگا اس کا نتیجہ صرف دنیاوی خون اور مالوں کا بچاؤ ہے۔
من آنچہ شرط بلاغ اسب باتو میگویم تو خواه ازسخنم پند گیردو خواه و ملال
ترجمہ: جو حق کہنے کا ہے کہتا ہوں تجھ سے اے میرے مشفق نصیحت آئے ان باتوں سے یا تجھ کو ملال آئے
دیکھئے ایسا صاحب دولت کون ہے جو باوجود اس دنیاوی شان و شوکت اور شکر و خادموں کے اور باوجود اس قدر لذیذ اور عمدہ کھانوں اور نفیس وقیمتی کپڑوں کے کچھ باتوں کو قبولیت کے کانوں سے سنتا ہے۔
گوشت از بار درگران شده است نشود نالہ و فغان مرا
ترجمہ: باردر سے ہیں بھاری تیرے کان اس لئے نہیں سکتے کہ فغان
وفقنا الله سبحانه واياكم بمتابعة الشريعة المصطفوية على صاحبها الصلوة والسلام والتحية حق تعالی آپ کو اور ہم کوشریعت مصطفی ﷺ کی تابعداری کی توفیق دے۔
بقیہ مقصود یہ ہے کہ میاں شیخ زکریا جو پہلے کروڑی یعنی تحصیلدار تھا اور اب محسوس ہے عالم و فاضل آدمی ہے۔ لیکن شومئی اعمال سے کچھ مدت سے قید خانہ میں ہے۔ بڑھاپے کی کمزوری اورگزارے کی تنگی اور مدت قید کی درازی سے تنگ و عاجز ہو کر نصیر کی طرف لکھا ہے کہ عسکر یعنی چھاؤنی میں آ کر ہمارے چھڑانے کی کوشش کریں ۔ رستہ کی زیادہ مسافت آنے سے مانع ہے چونکہ میرے بھائی خواجہ محمد صدیق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے تھے ۔ ناچار چند كلمات لکھ کر آپ کو تکلیف دی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس بوڑھے ضعیف کے بارے میں توجہ عالی سے کام لیں گے کہ وہ عالم بھی ہے اور بوڑھا بھی۔ والسلام اولا واخرا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ216ناشر ادارہ مجددیہ کراچی