صفاتِ ذاتیہ
صفات ذاتی سے مراد یہ ھے کہ جن سے باری تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے نہ کہ اُن کی اَضداد سے، جیسے: طاقت (شانِ الٰہی) اور قَدر ومَنزِلت وغیرہ(کہ عجز وغیرہ سے ذاتِ باری کو -العیاذ باللہ- متصف نہیں کیا جاتا)۔
صفات ذاتیہ کی تفصیل
یہ وہ صفات ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا،مثلاً علم،قدرت،حیات، ارداہ سمع ،بصر، کلام، بقا چہرہ،ہاتھ، قیومیت وجوب غنا قدوسیت صمدیت وغیرہ۔صفاتِ ذاتیہ سے مراد کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں ، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں ، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے ان کو صفات ثمانیہ حقیقیہ (آٹھ حقیقی صفات) بھی کہتے ہیں۔
خدا کی ذات کے ماوراء کسی شےٴ کا تصور کئے بغیران صفات کو خدا سے متصف کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ان صفات کو خدا سے متصف یا مرتبط کرنے کے لئے صرف خدا کی ذات ھی کافی ھے یعنی کسی خارجی امر کو مدنظر رکھنے یا ذات خدا کا ان سے تقابل کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ حیات وقدرت جیسی صفات اس زمرے میں آتی ھیں۔ اگر اس کائنات اور عالم ھستی میں ذات خدا کے ماسوا کوئی بھی موجود نہ ھو یعنی فقط اور فقط خدا تنھا ھو تو بھی خدا کو حی اور قادر کہا جاسکتا ھے۔
صفات ذاتیہ میں صفات خبریہ بھی شامل ہو سکتی ہیں جن کے اثبات کا انحصار صرف اللہ اور اس کے رسول سے منقول خبر پر ہے۔انہیں صفات ِسمعیہ یا نقلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کبھی صفات ذاتیہ جیسے چہرہ اور دوہاتھ ہیں اورکبھی فعلیہ جیسے فرح و ضحک وغیرہ ۔ہوتی ہیں
ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ کے بارے میں متکلمین کا اختلاف ہے، ابومنصور ماتریدیؒ فرماتے ہیں کہ صفات ذاتیہ آٹھ ہیں : حیات، علم، قدرت، سماعت، بصارت، ارادہ، کلام اور تکوین؛ جب امام ابوالحسن اشعریؒ کے نزدیک سات ہیں ، انھوں نے تکوین کو صفاتِ ذاتیہ میں سے شمار نہیں کرایا ہے۔