محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اللہ کو دیکھنے میں زندگی ہے:
کسی نے سید ناغوث اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا آسمان اور زمین اور آخرت میں آپ اللہ کودیکھتے ہیں؟‘‘ جواب میں فرمایا: اگر اسے نہ دیکھوں تو زندہ نہ ر ہوں ، بلکہ اسی جگہ پارہ پارہ کر دیا جاؤں‘‘۔ سائل نے پھر پوچھا: ’’آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا:
اس کا وجود میری آنکھیں بند کر دیتا ہے، اس کے بعد میرارب جیسے جنت میں ایمان والوں کو جس طرح چاہے گا دیدار کرائے گا، مجھے اپنا دیدار کرادیتا ہے، میرے دل پر اپنی تجلی ڈال کر اپنی صفات اور اپنے احسان اور اپنے لطف و کرم اور اپنی رحمت کا ساحل دکھادیتا ہے۔ ابوالقاسم حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے ”میرے پاس میرا ہے ہی کیا؟‘‘
صوفی وہ ہے جو ۔۔۔۔صوفی کون
صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے پاک اور صاف ہو گیا ، اس کا دل اللہ تعالی اور اس کے بیچ میں قاصد بن گیا اور کوئی صوفی صوفی ہوتا ہی نہیں جب تک کہ رسول اکرم ﷺاس کے خواب میں تشریف لا کر ادب نہ سکھائیں ، اور اسے امر و نہی نہ فرمائیں ۔ پھر اس کا دل ترقی کرتا چلا جائے اور اس کا باطن صاف ہو جائے ، اور بادشاہ کے دروازے پررسول اللہﷺکے ہاتھوں کو تھامے ہوئے کھڑا ہو۔
قیامت کے دن اور جنت میں خلقت کی زبان :
حضرت آدم علیہ السلام نے ابتداء میں جو گفتگو کی تھی وہ سریانی زبان میں تھی ، قیامت کے دن لوگوں سے سریانی زبان میں حساب کتاب ہوگا۔ رسول اکرم ﷺکی زبان عربی تھی ، جولوگ جنت میں جائیں گے، وہ عربی میں گفتگو کیا کریں گے۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 632،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور