رات اور دن کے محاسبہ کے بیان میں جیسا کہ وارد ہوا ہے۔ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا (پیشتر اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے اپنا حساب کرلو) مولانا حاجی محمد فرکیتی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد عرض ہے کہ اکثر مشائخ قدس سرہم نے محاسبہ کا طریق اختیار کیا ہے۔ یعنی رات کو سونے سے پہلے اپنے افعال و اقوال کے دفتر کو ملاحظہ کرتے ہیں اور مفصل طور پر ہر ایک کی حقیقت میں غور کرتے ہیں اور توبہ و استغفار اور التجا و تضرع کے ساتھ اپنے گناہوں اور قصوروں کا تدارک کرتے ہیں اور اپنے اعمال و افعال صالحہ کو حق تعالیٰ کی توفیق کی طرف رجوع کر کے حق تعالیٰ کی حمدوشکر بجالاتے ہیں۔
فتوحات مکی والا بزرگ(شیخ ابن العربی) قدس سرہ محاسبہ کرنے والوں میں سے ہوا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں اپنےمحاسبہ میں دوسرے مشائخ سے بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنی نیتوں اور خطرات کا بھی محاسبہ کرلیا۔
فقیر کے نزدیک سونے سے پہلے سو بارتسبیح وتحمید و تکبیر کا کہنا جس طرح کہ حضرت مخبرصادق عليه الصلاة والسلام سے ثابت ہے۔محاسبہ کاحکم رکھتا ہے اور محاسبہ کا کام کردیتا ہے۔
گویا کلمہ تسبیح کے تکرار سے جو توبہ کی کنجی ہے۔ اپنی برائیوں اور تقصیروں سے عذر خواہی کرتا ہے اور حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کو ان باتوں سے جن کے باعث ان برائیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ منزہ اور مبرا ظاہر کرتا ہے کیونکہ برائیوں کے مرتکب کو اگر حضرت امرونہی یعنی حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی عظمت و کبریا ملحوظ اور مدنظر ہوتی تو حق تعالیٰ کے امر کے برخلاف کرنے میں ہرگز دلیری نہ کرتا اور جب اس نے برے کام پر دلیری کی تو معلوم ہوا کہ مرتکب کے نزدیک حق تعالیٰ کے امرونہی کا کچھ اعتبار اور شمار نہ تھا۔ أَعَاذَنَا اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ ۔ پس اس کلمہ تنزیہہ( ذات حق کو امکانی نقائص سے پاک جاننا) کے تکرار سے اس تقصیر کی تلافی کرتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ استغفار میں گناہ کے ڈھاپنے کی طلب پائی جاتی ہے اور کلمہ تنزیہہ کے تکرار میں گناہوں کی بیخ کنی کی طلب ہے۔ فَاَیٌنَ هٰذَا مِنْ ذٰلِکَ(یہ اس کے برابر کس طرح ہوسکتا ہے) سبحان اللہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اس کے الفاظ نہایت ہی کم ہیں لیکن اس کے معانی اور منافع بکثرت ہیں اورکلمہ تمجید کے تکرار سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی پاک با رگاه اس بات سے بہت ہی بلند ہے کہ یہ عذرخواہی اور یہ شکر اس کے لائق ہو کیونکہ اس کی عذرخواہی اور استغفار بہت ہی عذرخواہی اور استغفار کی محتاج ہے اور اس کی حمداس کے اپنے نفس کی طرف راجع ہے سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(پاک ہے تیرا رب اس وصف سے کہ جو وہ کرتے ہیں بزرگ اور برتر ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے حمد ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے)محاسبہ کرنے والے شکر اور استغفار پرکفایت کرتے ہیں لیکن ان کلمات قدسیہ میں استغفار کا کام بھی ہوجاتا ہے اور شکر بھی ادا ہو جاتا ہے اور نیز استغفار اور شکر کے نقص کا اظہار بھی میسر ہو جاتا ہے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ یا اللہ تو ہم سے قبول کر تو سننے اور جاننے والا
) وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالیٰ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ الطَّاهِرِيّنَ وَبَارِكْ عَلَيْہِ وَعَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ486ناشر ادارہ مجددیہ کراچی