حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کاشمارپہلی صدی ہجری کے مشائخ تصوف میں ہوتاہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت فارس میں ہوئی۔کنیت”ابومحمد“ تھی شروع میں بڑے مال دار اور اور اپنا مال سود پر اہل بصرہ کو دیا کرتے تھے اور ہر روز قرض اورسودکے تقاضے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب تک قرضداروں سے کچھ وصول نہ کر لیتے ٹلتے نہ تھے۔ ایک روز اپنے مال کی طلب کے لئے ایک گھر میں گئے وہ قرض دار گھر میں نہ تھا اس کی بیوی نے کہا کہ میرا خاوند گھر میں نہیں اور میرے پاس ہرجانہ کیلئے بھی کچھ نہیں۔ ہاں میں نے آج ایک بھیڑ ذبح کی تھی اس کی سری میرے پاس ہے وہ اگر آپ چاہیں تو لے جائیں۔ آپ نے کہا اچھا دے دو۔ اس عورت نے وہ سری آپ کو دے دی۔ اور آپ وہ سری لے کر اپنے گھر آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ سری سود میں آئی ہے پکاؤ۔ بیوی نے کہا آٹا اور لکڑیاں نہیں ہیں آپ نے کہا میں ابھی جا کر سود میں آٹا اور لکڑیاں لے کر آتا ہوں۔ آپ اسی طرح گئے اور کسی قرض دار سے آٹا اور لکڑیاں لے آئے۔ بیوی نے ہانڈی چڑھائی جب ہانڈی پک گئی تو چاہا کہ پیالے میں نکالے کہ ایک سائل نے دروازے پر آ کر سوال کیا اور راہ خدا میں کچھ مانگا۔ حبیب کہنے لگے واپس جاؤ اس لئے کہ تجھے جو کچھ ہم دیں گے تو اس سے امیر نہ ہو جائے گا۔ مگر ہم فقیر ہو جائیں گے۔ ( ٹرخانے کیلئے جھوٹ بولا)سائل لوٹ گیا۔
حضرت حبیب کی بیوی نے جو ہانڈی سے سالن نکالنا چاہا تو کیا دیکھتی ہے کہ اس میں سب خون ہی ہے۔ اپنے خاوند کو بلایا اور دکھا کر کہنے لگی دیکھئے یہ آپ کی بد بختی سے کیا ہو گیا۔ جمعہ کا روز تھا اور لڑکے کھیل رہے تھے ان لڑکوں نے جب حضرت حبیب کو دیکھا تو کہنے لگے دیکھو سود خور آ رہا ہے الگ ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ اس کے پاؤں کی گرد ہم پر پڑے اور ہم بھی اسی طرح بد بخت ہو جائیں۔ جب یہ آواز حضرت حبیب کے کانوں تک پہنچی تو بڑے رنجیدہ ہوئے اور سیدھے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں پہنچے۔ حضرت حسن نے ان کو کچھ پندو نصائح بیان کیں تو حضرت حبیب کی کایا پلٹ گئی اور جب وہاں سے نکلے تو اللہ کے محبوب بن کر نکلے۔ واپس آتے ہوئے آپ کا ایک مقروض آپ کو دیکھ کر بھاگا تو آپ نے اسے آواز دی اور فرمایا بھائی اب تو مجھ سے نہ بھاگ۔ اب مجھے تجھ سے بھاگنا چاہہئے۔ یہ کہا اور گھر کی طرف لوٹے۔ راستے میں پھر وہی لڑکے کھیلتے ملے تو انھوں نے جب حضرت حبیب کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ الگ ہو جاؤ حبیب توبہ کر کے آ رہا ہے۔ اب جو ہماری گرد اس پر پڑ گئی تو ایسا نہ ہو کہ ہم گنہگار ہو جائیں۔ حضرت حبیب نے یہ جملہ سنا تو کہنے لگے اے رب غفور! عجب تیری رحمت ہے کہ اس ایک روز میں جو تجھ سے صلح کی تو اس کا اثر مخلوق کے دل میں پہنچا دیا اور میری نیک نامی مشہور فرما دی۔ پھر آپ نے آواز دی کہ جس نے حبیب کا کچھ دینا ہو وہ آئے اور اپنی دستاویز واپس لے جائے۔ یہ آواز سن کر سب مقروض جمع ہو گئے اور آپ نے جو مال جمع کیا تھا وہ لوگوں میں بانٹ دیا ۔حتیٰ کہ ایک سائل کواپناکرتہ تک اتارکردے دیا۔اوردوسرے سائل کے سوال پراپنی بیوی کی چادرتک دیدی۔
ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی نے تنگدستی اورفقروفاقہ کی شکایت کی اورمشورہ دیاکہ عبادت کی بجائے کچھ کمائے۔ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ آپ فکرنہ کریں میں صبح مزدوری پرجاؤں گا۔اورتمہارے لئے بہت کچھ کماکرلاؤں گا۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ مزدوری کرنے کے لئے گھرسے نکلے۔اورسارادن عبادت میں گزاردیا۔جب گھرپہنچے توبیوی نے سوال کیاکہ کیاکماکرلائے ہو۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ جس کی میں مزدوری کرتاہوں وہ بہت کرم والامہربان ہے۔اس کے کرم کی وجہ سے آج میں اجرت طلب نہیں کرسکاہوں۔وہ ایسی ذات ہے جوبے طلب مزدوری اداکردیاکرتاہے۔مجھے روزانہ طلب سے شرم محسوس ہوتی ہے۔اب میں دس دن بعداپنی مزدوری طلب کرونگا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی نے بڑی مشکل سے دس دن گزارے۔ دسویں دن جب آپ رحمۃ اللہ علیہ گھرکوآرہے تھے اوردل میں شرمارہے تھے۔کہ گھرمیں بیوی نے پوچھاکیاکماکرلائے ہوتوکیاجواب دوں گا۔ایک طرف تواپنے تصورمیں غرق چلے جارہے تھے۔اوردوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک بوری آٹا،ذبح شدہ بکری،گھی،شہداورتین سودرہم ایک غیبی شخص کے ذریعے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھرپہنچادیے۔وہ شخص آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی سے کہنےلگاآپ کاخاوندجس شخص کے گھرمزدوری کرتاہے یہ ساری چیزیں اسی نے بھیجی ہیں۔اپنے خاوندسے کہہ دیجیے گاکہ اگروہ زیادہ محنت سے کام کریگاتواُسے زیادہ مزدوری دی جائے گی۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ گھرکے دروازے پرپہنچے توگھرمیں کھانے کی خوشبوآرہی تھی۔اندرجاکربیوی سے صورتحال دریافت کی تواس نے پوراواقعہ اورپیغام آپ تک پہنچادیا۔یہ سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔اوردل میں خیال آیاکہ جب دس دن کی بے توجہ ریاضت کااللہ تعالیٰ نے نعم البدل عطاکیاہے۔اگرمیں زیادہ دلجمعی کیساتھ عبادت کروں گاتونہ جانے کتنے انعامات سے نوازاجاؤں گا۔اسی دن سے عبادت میں غرق ایسے ہوگئے کہ مستجاب الدعوات کے درجہ تک جاپہنچے اوران کی دعاؤں سے مخلوق کوبہت فائدہ ہوا۔
تذکرۃ الاولیاء حضرت حبیب عجمی کے حالاٹ و مناقب صفحہ 38مشتاق بک کارنر لاہر