اس بیان میں کہ رنج و محنت محبت کے لوازم سے ہے۔ملامحمد معصوم کابلی کی طرف لکھا ہے۔
اے محبت کے نشان رنج و محنت محبت کے لوازم سے ہے۔ فقر کے اختیار کرنے میں دردوغم ضروری ہے۔ بیت
غرض از عشق توام چاشنی دردوغم است ورنہ زیر فلک اسباب تنعم چہ کم است
ترجمہ: چاشنی غم کی تیرے عشق سے حاصل ہے مجھےورنہ دنیا میں تعیش کی کمی کوئی نہیں۔
دوست (حقیقی)رنج اور آوارگی چاہتا ہے تا کہ اس کے غیر سے پورے طور پر انقطاع حاصل ہوجائے ۔ یہاں آرام بے آرامی میں ہے اور سازسوز میں اور قرار بے قراری میں اور راحت براحت میں اس مقام میں آرام طلب کرنا اپنے آپ کورنج میں ڈالنا ہے۔
اپنے آپ کو ہمہ تن محبوب(حقیقی) کے حوالہ کر دینا چاہیئے اور جو کچھ اس کی طرف آئے خوشی سے قبول کرنا چاہیئے اور ہرگز سرنہ پھیرنا چاہیئے(منہ نہیں بنانا چاہیئے) زندگانی کا طریق اسی صورت میں ہے یہاں تک ہو سکے۔ استقامت اختیار کریں ورنہ فتور(سستی ،بڑھاپا) پیچھے ہے۔ آپ کی(ذکر اذکار) مشغولی خوب ہوگئی تھی لیکن قوی ہونے (کمال کو پہنچنے)سے اول ہی کمزور ہوگئی ۔ مگر کچھ غم نہیں اگر تھوڑا سا بھی اس ترددات سے اپنے آپ کو جمع کریں تو پہلے سے بھی بہتر ہوجائے گی ۔ تفرقہ (انتشار و پراگندگی) کے ان اسباب کو عین جمعیت کے اسباب جانیں تاکہ اپنا کام پورا کر سکیں۔ والسلام ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ330ناشر ادارہ مجددیہ کراچی