سترھواں مراقبہ نیت مراقبہ معیت

نیت مراقبہ معیت

فیض می آید از ذات بیچون کہ ہمراہ است ہمراہ من و بہمراہ جمیع ممکنات بلکہ ہمراہ ہر زرہ از ذرات ممکنات بہمراہی بیچون بمفهوم این آیۃ کریمہ. وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَمَا كُنْتُمْ. بلطائف خمسہ عالم امر من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین

ذات باری تعالیٰ  کی طرف سے  جو اس آیہ کریمہ ( تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے) کے مفہوم و معنی کے مطابق  میرے اور تمام ممکنات  بلکہ ذرات ممکنات  میں سے ہر ذرہ کے ساتھ ہےعظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میرے پانچوں لطائف عالم امر  میں فیض  آتا ہے۔

تشریح

سالک وهـو معكم اينما كنتم ، کے خیال میں ایسا غرق ہو جائے کہ غیر کا خیال نہ رہے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں اس خیال میں رہے اور کم کھائے ، کم بات کرے اور کم سوئے ۔ جب سالک مراقبہ میں اس طرح سے چند روز با قاعدگی کرے تو محبت الہی زیادہ ہونے کے آثار اور دنیاوی محبت کم ہونے کے آثار ظاہر ہوں گے۔ یہی سالکین کا بڑا مقصد ہے ۔ اس مراقبہ میں اللہ تعالی کے ظلال اسماء وصفات کی تجلیات میں سیر ہوتی ہے ۔ یہ مقام ہے جس میں سالک درجہ فنا و بقا اور لا شئ الا اللہ سے مشرف ہوتا ہے ۔اور اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے ۔ ولی وہ ہے جس نے نفس و شیطان و دنیا اور اپنی خواہشات سے منہ موڑ لیا ہو اور اپنے چہرہ اور دل کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ رکھا ہو۔ اور وہ دنیا وآخرت سے منہ موڑ کر اللہ تعالی کے سوا کسی چیز کا طالب نہ ہو ۔ خلق کے ساتھ خدا تعالی کی ہمراہی اور ہمہ وقت موجودگی قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ہوا کا بگولا اٹھتا ہے اس میں خاک ہے تکے ہیں لیکن اس بگولے کو قائم رکھنے والی ہوا ہے ۔ جو بگولہ کے ذرہ ذرہ کے ساتھ ہے ۔لیکن ہوا اپنی لطافت کے سبب ہمیں نظر نہیں آتی ۔ اور صرف بگولہ اور تنگوں سے اس کا احساس ہوتا ہے ۔ اسی طرح روح جسم کے روئیں روئیں کے ساتھ ہے جسم کو قائم رکھنے والی روح ہے ۔ لیکن روح انتہائی لطیف ہے اس لیے نظر سے پوشیدہ اور جسم ظاہر ہے ۔

جب ہوا اور روح جو بگولا اور جسم کے ساتھ میں اپنی لطافت کے باعث نظر نہیں آتے تو حق سبحانہ تعالی کی معیت جو کہ بے چوں اور بے چگوں ہے۔ کس طرح ہمارے ادراک میں آئے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے ساتھ میں نہ صرف ہمارے بلکہ ہر ذرہ ممکنات کےساتھ اور سب کے قائم رکھنے والے ہیں کیونکہ قیومطلق اللہ ہی ہے ۔ سالک کے ادراک میں اسرار توحید وجودی لینی ہمہ اوست، ذوق و شوق ، آه و ناله اور استغراق بے خودی ، نسیان ما سوی الله ، دوام حضور اور معیت بچوں ذات حق سبحانہ تعالی کا آنا اس مقام کی خصوصیات ہیں ۔ اگر سالک کی چشم بصیرت کھلی ہوئی ہے تو اسرارشریعت واحاطہ الہی اس کو نظر آتے ہیں ورنہ نہ وجدانی حالت سے حق سبحانہ تعالی کی معیت کا ادراک ہوتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بلا جد وجہد وتکلف ،غفلت دور ہو جائے اور سا لک کیفیت احمدیث میں غرق ہو جائے کہ اسے اپنی خودی و بیخودی کا خیال نہ ر ہے تو ایسے میں سالک پر تو حید وجودی کے اسرار کا کشف ہوتا ہے ۔ جس کا تعلق مادی جسم سے نہیں بلکہ روحانی کیفیت سے ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب بند ۃ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ میرا قرب تلاش کرتا ہے تو میں اس کے مدارج قرب کو بڑھا تا جا تا ہوں یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست رکھنے لگتا ہوں ۔ پس جب وہ اس کو دوست رکھنے لگتا ہوں تو پھر میں اس کا کان بن جا تا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ۔ اور میں اس کی آنکھ بن جا تا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ۔ اور اس کے ہاتھ بن جا تا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ کسی چیز سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور اگر وہ کسی چیز کی مجھ سے خواہش کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں ۔ پس جو شخص عداوت رکھے میرے ولی سے تو وہ مجھ سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے ۔ سلوک نقشبند یہ میں عالم امر و عالم خلق کو دائرہ امکان سمجھا جا تا ہے ۔ ذات باصفات وراء الوراء ہے ۔ پانچ لطائف عالم امر کے اور پانچ عالم خلق کے ہیں ۔ عالم امر بالاۓ عرش مجید ہے جو صرف لفظ کن سے وجود میں آیا۔ عالم خلق زیر عرش جو بتدریج چھ روز میں بنا ان دونوں کے مجموعہ کو دائرہ امکان کہتے ہیں ۔ عرش مجید عالم امر اور عالم خلق کے وسط میں ہے ۔ پیران کبار رحمۃ اللہ یھم اجمعین طریق نقشبندی نے دائرہ امکان کی اس طرح توضیح فرمائی ہے کہ اذکار الہی سے کل لطائف منور ہو جانے کے بعد ان سب لطائف کے انوار ایک ساتھ اکٹھے ہو کر ایک دائرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس کو اصطلاح صوفیاء میں دائرہ امکان کہا جاتا ہے ۔ اس دائرہ امکان میں سب سے پہلے عرش سے اوپر کی جانب ایک کشش محسوس ہوتی ہے ۔اس کے بعد قلب پر واردات ہوتے ہیں جو سا لک کو فنا کر دیتے ہیں ۔ یہی حال مبتدیوں کا ہے یہی واردات بہ تو اتر آتے ہیں یہاں تک کہ تواتر سے تو اصل ہو جا تا ہے ۔

اس جگہ لطائف میں طرح طرح کے انوار نظر آتے ہیں فناۓ مطلق حاصل نہیں ہوتی ۔

مراقبہ معیت میں سوچے کہ ہر جگہ ذات باری تعالیٰ حاضر و ناظر ہے، صرف باعتبارِ علم کے نہیں بلکہ باعتبار ذات کے میرے ساتھ ہے، اس کی ہیبت اپنے قلب پر طاری رکھے۔

ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں