سترہویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سترھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السابع عشر فی عدم الاہتمام فی الرزق ‘‘ ہے۔

  منعقده 14/ ذیعقد 5450 بروز جمعہ صبح کے وقت بمقام مدرسہ قادریہ  ،

 وہ تجھے خود تلاش کرتا ہے۔

تو اپنے رزق کی فکرمت کر، تیرے رزق کو تلاش کرنے سے بڑھ کر رزق کو تیری تلاش ہے،  آج کے دن کا رزق مل جائے تو آنے والے کل کے رزق کے لئے پریشان مت ہو، جس طرح تو نے گزرے ہوئے کل کو چھوڑ دیا ، کہ وہ دن گزر گیا تجھے کیا خبر کہ آنے والے کل کا دن آئے کہ نہ آئے ، اس لئے تو آج کے دن میں مشغول رہے اگر تم اللہ کو پہچان جاتے تو رزق کی طلب میں اس کی طرف سے غافل نہ ہوتے بلکہ اس کے ساتھ مشغول رہتے ۔ اس کی ہیبت تجھے رزق کی تلاش سے روک دیتی ۔ جسے اللہ کی پہچان (معرفت ) ہو جاتی ہے، اس کی زبان بند ہو جاتی ہے ، اللہ کے سامنے اس کی پہچان رکھنے والے (عارف) کی زبان ہمیشہ گنگ رہتی ہے، حق تعالی خلقت کی اصلاح کے لئے واپس لوٹا دیتا ہے۔پھر اس کی زبان سے بولنے کی پابندی اٹھالیتا ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام جب بکریاں چرایا کرتے تھے تو ان کی زبان میں لکنت اور عجلت ، رکاوٹ اور تو تلا پن تھا۔ اللہ تعالی نے جب خلقت کی اصلاح کے لئے انہیں لوٹا یا تو ان کے قلب پر الہام فرمایا ۔ آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کی : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي  يَفْقَهُوا قَوْلِي” میری زبان سے گرہ کھول دے تا کہ وہ میری بات سمجھیں ۔‘‘ گویاوہ بارگاہ الہی میں یہ عرض کر رہے تھے کہ جب تک میں جنگل میں بکریاں چرارہا تھا، مجھے اس بات کی حاجت نہ تھی ، اب چونکہ مجھے مخلوق کے ساتھ مشغول رہنے اور ان سے بات چیت کی ضرورت ہے، اس لئے میری زبان سے لکنت دور کر دے، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کی زبان سے گرہ اٹھادی گئی، پھر جتنی دیر میں کوئی شخص جتنے کلمات بولتا، حضرت موسی علیہ السلام اتنی دیر میں نوے فصیح کلمات بول لیتے تھے جو کہ اچھی طرح سمجھ میں آ سکیں۔ بچپن میں آپ نے فرعون اور حضرت آسیہ کے سامنےقبل از وقت کلام کرنا چاہا تواللہ تعالی نے ان کے منہ میں دہکتا انگارہ رکھوادیا تا کہ آپ خاموش رہیں۔

بندے کے دل کی آبادی اسلام سے ہے:

اے اللہ کے بندے میں دیکھتا ہوں کہ تجھے اللہ اور سول اللہ ﷺاور اللہ کے محبوب بندوں اولیاء اور ابدال جو کہ نبیوں کے جانشین ہیں، اور خلقت میں ان کے خلیفہ میں کی بہت ہی کم معرفت ہے۔ تو معنی سے خالی ہے حقیقت کو کچھ نہیں سمجھتا، تو بغیر پرندے کے پنجرہ ہے، تو خالی  اور ویران مکان ہے، تو ایسا درخت ہے جس کے سوکھنے سے پتے جھڑ گئے ہوں۔ بندے کے دل کی آبادی اسلام سے ہے، اس کی حقیقت کی تحقیق یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے ۔( چنانچہ ) تو اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے حوالے کر دے، وہ تیرے نفس اور تیرے غیر کوتیرے حوالے کر دے گا۔ تو دلی طور پر اپنی ذات اور خلقت سے نکل جا، اپنے آپ اور اپنے غیر سے بر ہنہ وجدا ہو کر خالق کے سامنے کھڑا ہو،  پھر اللہ کو جب منظور ہوگا تجھے لباس پہنا کر خلقت کی طرف لوٹا دے گا، پس تو اپنی ذات میں اور خلقت کے اندرسول اللہ  ﷺ اور آپ کو بھیجنے والے رب تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لئے اس کے حکم کی تعمیل کرے گا ، اس کے بعد ہر حکم کا منتظر رہے گا اور ہر علم کی موافقت کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا، ہروہ شخص جو اللہ کی ذات کے سوا خالی ہو کر اپنے قلب اور باطن کے قدموں کے بل اس کے حضور میں کھڑا ہوا – زبان حال سے وہی کہے گا جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا تھا: وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ ‌لِتَرْضَى – الہی میں نے تیری طرف آنے میں اس لیئے جلدی کی کہ تو راضی ہو جائے ۔

میں نے تیری خوشنودی کے لئے ساری مخلوق اور دنیا وآخرت کو چھوڑ دیا، تمام اسباب اور ارباب کو چھوڑ دیا ۔ تیری طرف جلدی سے نہایت عاجزی سے بڑھا تا کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے اور اس سے پہلے جو مخلوق کے ساتھ ٹھہرا رہا۔( مخلوق کے ساتھ رہنے کے گناہ )کو بخش دے۔ اے جاہل ! تجھے ان باتوں سے کیا غرض: توتو اپنے نفس اور دنیا اور خواہشوں اورمخلوق کا بندہ ہے

 تو خلقت کو اللہ کا شریک بنانے والا بندہ ہے، کیونکہ نفع ونقصان میں تیری نگاہ انہی کی طرف اٹھتی ہے، تو جنت کا بندہ ہے اور اس میں داخل ہونے امید رکھتا ہے، تو جہنم کا بندہ ہے، اس میں داخل ہونے سے ڈرتا ہے، تو اس خدا سے جو کہ دلوں اور نگاہوں کو پلٹ دینے والا ہے، اور ہر چیز کو ایک حرف کن کہہ کر پیدا کرنے والا ہے، تو اس خدا سے کہاں بھاگ رہا ہے ۔

 اطاعت کے قبول ہونے کی دعا کرنا:

اے بیٹا! تو اپنی اطاعت پر ناز اور غرور نہ کر ، اور اطاعت کے باعث اللہ سے منہ نہ موڑ ، بلکہ اللہ سے اپنی اطاعت کے قبول ہونے کی دعا کر ، اور اس بات سے ڈر اور خوف کر کہ کہیں تجھے وہ معصیت کی طرف منتقل نہ کر دے ۔ وہ کون ہے جو تجھے اس سے بے خوف کررہا ہے، تیری اطاعت سے کہہ دیا جائے ، معصیت بن جا ،  تیری صفائی سے کہہ دیا جائے تو مکذ رہو جا۔ عارف الہی کسی چیز پر نہیں ٹھہرتا، اور نہ کسی چیز سے دھوکہ کھا تا ہے ۔ وہ اس وقت تک امن میں نہیں ہوتا جب تک کہ : – اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے نکل جائے ،اللہ اور اس کے درمیان جو معاملات ہیں اللہ کی حفاظت میں رہتے ہوئے دنیا سے نکل جائے ۔

جوعمل بھی کرد، دل اور اخلاص سے کرو:

اے لوگو! جوعمل بھی کرو، دل اور اخلاص سے کرو ۔ ظاہری اخلاص یہ ہے کہ ماسوا سے قطع تعلق کر لیا جائے ، اللہ کی معرفت اس کا اصل مقصود ہے،  میں تم میں سے اکثر کو اقوال وافعال اور خلوت و جلوت میں جھوٹ بولنے والا دیکھ رہا ہوں، نہ تم ثابت قدم ہو اور نہ تمہارے دعوی کا کوئی گواہ ہے، تمہارے اقول ہیں، افعال نہیں ، اگر افعال ہیں تو اخلاص ہے نہ تو حید، پرکھنے کا جومعیار ( کسوٹی ) میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر تو اس سے دوری کرے اور اگرتجھے یہی پسند ہے تو اس سے تجھے کیا فائدہ حاصل ہو گا ؟  اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ قبول کر لے تو یہ چیز کھوٹی ہے، بیکار ہے، تیری چاندی کے ٹکڑے عنقریب  پگھلاتے اور آگ دھکاتے وقت رسوا اور ظاہر ہو جائیں گے، کہا جائے گا: ” دیکھو یہ چاندی سفید ہے اوریہ قلعی سیاہ ہے،یہ ملمع اور ملاوٹ کر دہ ہے ۔ قیامت کے دن ہر ایک رخ پھیرنے والا خراب حال میں نکالا جائے گا۔ اسی طرح تمہارے منافقانہ عملوں کے بارے میں حکم ہوگا، جوعمل غیر اللہ کے لئے کیا ہے۔ باطل ہے، تم محبت اور دوستی کے ساتھ عمل کرو اور صحبت اختیار کرو، اوراسی اللہ کو طلب کرو جس کی مثل کوئی شے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری ہے: لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتادیکھتا ہے۔ پہلےنفی کرو پھر اثبات کرو، جو چیزیں اس کی شان کے لائق نہیں ، ان کی نفی کرو، جواس کی شان کے لائق ہیں ، ان کا اثبات کرو، یعنی جو چیز اس نے اپنے لئے پسند فرمائی اورجنہیں نبی اکرم  ﷺ نے اس کے لئے پسند فر مایا ۔ جب تم ایسا کرو گے تو اللہ کوکسی کے مشابہ جاننایابے کا رمعطل سمجھنا تمہارے دل سے دور ہوگا۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم  ﷺ اور اس کے نیک بندوں کی صحبت میں نہایت تعظیم اور تکریم اور عزت کے ساتھ بیٹھو، اگر تم فلاح ونجات چاہتے ہو تو تم میں سے جب بھی کوئی آئے تو حسن ادب کے ساتھ آئے ، ورنہ نہ آیا کرے۔ تم ہمیشہ فضولیات میں رہتے ہو، ۔ تو جس گھڑی میرے پاس آؤ ، سب فضول کام چھوڑ آیا کرو، بعض اوقات میری محفل میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو قابل احترام اور حسن ادب کے لائق ہوتے ہیں ، اور یہ سب تمہاری عقل وفہم سے باہر ہے، باورچی اپنے پکائے ہوئے کو جانتا ہے، نانبائی اپنی روٹی کو پہچانتا ہے،صانع کواپنی صنعت کی پہچان ہے، اور دعوت دینے والا اپنے مہمانوں اور حاضر ہونے والوں کو خوب پہچانتا ہے۔ دنیا نے تمہارے دلوں کو اندھا کر دیا ہے، اس لئے تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس سے بچو،وہ تمہیں تمہارے نفس پر رفتہ رفتہ قدرت دے گی ، اور تمہیں اپنے اندر داخل کر لیتی ہے، آخر کارتمہیں ذبح کر ڈالے گی ۔ پہلے تمہیں اپنی شراب اور بھنگ پلائے گی ، پھر تمہارے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیتی ہے، اور تمہاری آنکھوں میں گرم سلائی پھیرتی ہے۔ جب اس شراب اور بھنگ کا نشہ اترے گا اور افاقہ ہوگا، پھرتمہیں پتہ چلے گا کہ دنیا نے تمہارے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے، یہ دنیا  کی محبت اور اس کے پیچھے دوڑ نے والے اور اس کے جمع کرنے کی حرص کا نتیجہ ہے، یہ دنیا کا چلن ہے، اس سے بچو۔

 دنیا سے محبت رکھنے والے کے لئے ہرگز فلاح نہیں:

اے بیٹا! دنیا سے محبت رکھنے والے کے لئے کچھ بھی فلاح نہیں ، تو آخرت اور ماسوا اللہ سے محبت کرتا ہے، جبکہ دعوی اللہ کی محبت کا کرتا ہے، اس میں تیرے لئے کوئی صحت اور نجات نہیں ،  حاصل کلام یہ ہے کہ عارف باللہ کا محبت کرنے والا نہ اس کو نہ اس کو کا ورنہ ماسوا اللہ کو چاہتا ہے،  جب اس کی محبت کامل اور ثابت ہو جاتی ہے تو اس کے نصیب میں لکھےدنیا کے عیش میسر آتے ہیں، جو خوشگوار اور کافی ہوتے ہیں ، جب آخرت میں پہنچے گا تو جو کچھ پس پشت ڈال رکھا تھا ، انہیں اللہ کے دروازے پر پہلے ہی سے موجود پائے گا، کیونکہ اس نے یہ سب کچھ اللہ ہی کی رضا کے لئے چھوڑ دیا تھا، اللہ تعالی  اپنے دوستوں کو ان کے نصیب کی سب چیزیں عنایت فرماتا ہے، حالانکہ وہ ان سب چیزوں سے کنارہ کش ہو تے ہیں ۔ دل کے حظ ( مزہ ) باطنی ہیں اور نفس کے ظاہری ،  نفس کو اس کے حظوں سے روکنے کے بعد ہی قلب کے حظ حاصل ہوتے ہیں ، جب نفس کو اس کے حظوظ سے روک دیا جا تا ہے ، تب قلب کے حظوظ کے دروازے کھول دیئے جاتے ۔ ہیں ، اللہ تعالی کی طرف سے جب دل بھی اپنے حظات سے بے پرواہ ہو جائے تو نفس پر رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے۔ اس بندےسے کہا جا تا ہے کہ اپنے نفس کوقتل نہ کر ، اس وقت نفس کو اس کے حصے کے حظات ) حاصل ہو جاتے ہیں ، اور وہ مطمئن ہو کر انہیں لے لیتا ہے ۔ اب  یہ نفس مطمئنہ ہے تو ان لوگوں سے قطع تعلق کر لے جو تجھے دنیا کی رغبت دلاتے ہیں، تو ان لوگوں کی صحبت اختیار کر جوتجھے دنیا سے نفرت دلائیں ، ہر جنس اپنے ہم جنس کو چاہتی ہے ،ایک دوسرے کے پاس آ تا ہے، محبت والا محبت والوں کے پاس جاتا ہے تا کہ اس کا محبوب ان کے پاس مل جائے ، اللہ کو چاہنے والے اسی کے لئے محبت رکھتے ہیں، اس لئے اللہ بھی ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی مددفرماتا ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے قوت عنایت کرتا ہے، ۔ خلقت کو دعوت اپنی دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، خلقت کو ایمان اور توحید اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ پکڑ کر اللہ کے رستے پر کھڑا کر دیتے ہیں ، جس نے خدمت کی وہ مخدوم بنا،جس نے احسان کیا اس کے ساتھ احسان کیا جائے گا ،  جو کسی کو دے، اسے بھی دیا جائے گا۔

دوز خیوں کے سے کام کر نے سے دوزخ ہی ملے گا ، جیسا کرو گے قیامت کے دن ویساہی بدلہ ملے گا ، جیسے تم ہو گے ویسے تم پر حاکم مقرر کئے جائیں گے ،  تمہارے عمل ہی تمہارے حاکم ہیں ، دوزخیوں کے سے عمل کر کے جنت کی امید رکھتے ہو ۔ جنتیوں کے سے عمل کئے بغیر جنت کی امید کیسی! – جنت والے تو وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اہل دل ہیں، جنہوں نے دنیا میں رہ کر ظاہری اعضاء کے علاوہ اپنے دلوں سے عمل کئے تھے، دل کی موافقت کے بغیر عمل کیا چیز ہے۔ ریا کار ظاہری اعضاء سے عمل کرتا ہے، جبکہ مخلص اپنے دل اور ظاہری اعضاء سے عمل کرتا ہے ، دل کا عمل پہلے ہوتا ہے، دوسرے اعضاء کا بعد میں – ایمان والا زندہ اور منافق مردہ ہے، ایمان والا صرف اللہ کے لئے عمل کرتا ہے جبکہ منافق خلقت کے لئے عمل کرتا ہے، اور اپنے عمل پر خلقت سے تعریف اور عطا چاہتا ہے، مومن کا عمل ظاہر و باطن ، جلوت وخلوت ، راحت میں تکلیف میں، ہر جگہ ہر حال میں ایک سا ہوتا ہے ۔ منافق کا عمل صرف جلوت میں (لوگوں کے سامنے ) اور راحت میں ہے، اس پر مصیبت آ جائے تو نہ تو اس کا عمل رہتا ہے نہ اللہ کی صحبت و معیت ، نہ اللہ پر ایمان رہتا ہے نہ اس کے رسولوں پر اور نہ اس کی کتابوں پر، نہ ا سے قیامت کا دن یا در ہتا ہے، نہ ہی حساب کتاب ،  اس کا اسلام صرف اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا میں اس کی جان ومال سلامت رہیں نہ اس لئے کہ آخرت میں اس آگ سے محفوظ رہے جو عذاب الہی ہے ، اس کی نماز اور روزہ اورعلم پڑھنا لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہے، وگرنہ خلوت میں وہی مشغل ہے وہی کفر ہے ( جو اس کا معمول ہے)۔ التجا یہی ہے۔ اللهم إنا نعوذ بك من هذه الحالة نسئلك اخلاصا في الدنيا واخلاصا غدا . آمين الہی! ہم اس حالت میں تیری پناہ مانگتے ہیں، اورتجھ سے دنیا وآخرت میں اخلاص کے طلب گار ہیں ۔ خالص اللہ ہی کے لئے عمل کر ، اس کی نعمتوں کے لئے نہیں۔

اے بیٹا! اپنے اعمال میں اخلاص کو لازمی سمجھو ۔ خالق اور مخلوق سے اپنے عمل کا بدلہ ما نگنے سے اپنی نظریں ہٹا لے تو خاص اللہ ہی کے لئے عمل کر ، اس کی نعمتوں کے لئے نہیں، تو ان لوگوں میں سے ہو جا جو اس کی ذات کو چاہتے ہیں ۔ اس کی رضا مانگ تا کہ تجھے تیرا مقصودمل جائے ، جب اس کی رضامل گئی تو دنیا میں بھی جنت مل جائے گی اور آخرت میں بھی ،دنیا میں اس کا قرب اور آخرت میں اس کی زیارت اور جس جزا کا وعدہ کیا گیا ہے تو وہ ایک بیع  اور ضمانت ہے۔

نفس ومال اور جنت اور اللہ کے سوا جو کچھ ہے، سب اسی کا ہے:

 اے بیٹا! اپنی جان اور مال ، اس کے حکم اور تقدیرسے اور قضا کے ہاتھ میں سونپ دے – آج سوداخریدار کے حوالے کر دے، وہ کل تجھے اس کی قیمت چکا دے گا۔ اللہ کے بندوں نے اپنی جانیں ، مال اور سوداسب اس کے حوالے کر دیا اور کہا: و نفس و مال اور جنت اور تیرے سوا جو کچھ ہے ، سب تیرا ہے، ہم تیری ذات کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ گھر سے پہلے ہمسایہ اور راستہ چلنے سے پہلے رفیق تلاش کرو اے جنت کے طالب گاراس  کی خریداری اور آ بادی آج کے دن ہے کل نہیں ، جنت کی نہروں کی کھدائی کا آغاز آج ہی کے دن ہے کل نہیں۔

قیامت کے دن ایمان کے مطابق ثابت قدمی ہوگی :

اے لوگو! قیامت کے دن دل اور آنکھیں پھٹ جائیں گے، اس دن قدم لڑکھڑائیں گے ، اس دن ہر مسلمان اپنے ایمان اور تقوی کے بل بوتے کھڑا ہوگا ۔ قیامت کے دن ثابت قدمی ہر کسی کے ایمان کے مطابق ہوگی ،  اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو گا کہ کیوں ظلم کئے ۔ اور فسادی اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا کہ کیوں فساد کیا اور اپنی اصلاح نہ کی ، اپنے مالک سے نافرماں ہو کر کیوں بھاگ نکلا،

اے بیٹا عمل پر غرور نہ کر ،اعمال کا دار مدار خاتمہ پر ہے، تم پر لازم ہے کہ اللہ سے خاتمہ بالخیر کا سوال کیا کر اور یہ کہ وہ تجھے اپنی طرف محبوب ترین اعمال کے ساتھ اٹھائے ، اور ایمان پر موت نصیب کرے تو اس بات سے بچتا رہ کہ تو بہ کر کے تو بہ نہ تو ڑ دے اور پھر گناہ کی طرف لوٹ جائے ، کسی کے کہے سننے  میں آ کر تو بہ نہ تو ڑ نا، اپنے نفس اور حرص اور عادت کی موافقت کر کے اللہ کی مخالفت نہ کرنا ، اللہ کی نافرمانی تو آج بھی تجھے دنیا میں ذلیل کرے گی اور قیامت کے دن بھی رسوا کرے گی ، اور کوئی تیری مد دنہ کرے گا ۔ اللهم انصرنا بطاعتك ولا تخذلنا   بمعصیتک ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اللہ! اپنی اطاعت پر ہماری مدد کر، اور نافرمانی پر رسوا نہ کر اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کرے، اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔آمین ۔‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 118،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 77دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں