ان لوگوں کے حال پر افسوس کرنے میں جنہوں نے اپنے آپ کو ان بزرگوں کی سلک ارادت میں داخل کیا ہے اور پھر بے سبب ان بزرگواروں سے قطع تعلق کرلیا ہے۔مرزافتح الله خان حکیم کی طرف لکھا ہے
ثَبَّتَنَا اللهُ وَاِيَّاكُمْ عَلَى الطَّرِيْقَةِ الْمُسْتَقِيْمَةِ الْمَرْضِيَّةِ عَلىٰ صَاحِبِهَا الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت محمدﷺکے پسندیده سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھے۔
ایک دن مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم کی غیر ت کی نسبت گفتگو ہورہی تھی کہ اس اثنا میں اس بات کا بھی ذکر در میان آیا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو ان بزرگواروں کی جماعت میں داخل کیا ہے یا ان کے ضمن میں اپنے آپ کو لائے ہیں اور انہوں نے قبول فرمایا ہے اور پھر بے جہت و بے سبب ان بزرگواروں سے قطع تعلق کیا ہے اور ظن و گمان سے دوسروں کے دامنوں کو جا پڑا ہے۔ اس ضمن میں آپ کا اور قاضی سنام کا بھی ذکر ہوا تھا۔ یہ بات ٹھیک معلوم نہیں شاید ایک لمحہ تک ہوتی رہی ہوگی اور وہ بھی خاص موقع پرمبنی تھی۔ بعد ازاں خدا نہ کرے کہ فقیر نے کسی مسلمان کو تکلیف دینے کا ارادہ کیا ہو یا دل میں کینہ چھپا رکھا ہو اپنی خاطر شریف کو اس بات سے جمع رکھیں۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارا طریق دعوت اسماء کا طریق نہیں ہے۔ اس طریقہ کے بزرگواروں نے ان اسماء کے مسمیٰ میں فنا ہونا اختیار کیا ہے اور ابتدا ہی سے ان کی توجہ احد یت صرف کی طرف ہے اوراسم و صفت سے سوائے ذات کے اور کچھ نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اوروں کی نہایت ان کی بدایت میں مندرج ہے۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا ترجمہ: قیاس کرلے مرے باغ سے بہار کو تو ۔
اب چونکہ اس تذکرہ نے بے شمارنقلوں کی وجہ سے ایک نئی صورت حال پیدا کر لی ہے اور یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اس طرف سے کئی قسم کی وہمی باتیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اس لئے ان کے دفع کرنے کیلئے یہ چند کلمے لکھنے کی جرأت کی۔ آپ کی آشنائی سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی آپ کی نا آشنائی سے کچھ نقصان پہنچتا ہے۔ صرف آپ کی خیر خواہی ملحوظ و منظورتھی لیکن اَلرَّاضِىْ بِالْقَدَرِ لَا يَسْتَحِقُّ النَّظَرِ (جو اپنے ضرر پرآپ راضی ہو وہ شفقت و مہربانی کا مستحق نہیں ہوتا مثل مشہورہے۔ یقین جان لیں کہ اس فقیر نے آپ کے ضرر کا ارادہ نہیں کیا اور نہ ہی انشاء الله تعالیٰ کرے گا۔ وہ صرف ایک بات تھی جواز روئے غیرت کے جودریشوں کو ہونی چاہیئے ۔ مناسب موقع پر کی گئی تھی دل میں کسی قسم کے فکر کودخل نہ دیں۔
دوسرایہ وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل جانے اس کا امر دو حال سے خالی نہیں ہے یا وہ زندیق (بے دین) محض ہے یا جاہل صرف چند سال ہوئے کہ اس فقیر نے اس سے پہ بھی فرقہ ناجیہ اہل سنت کے بارے میں ایک مکتوب آپ کی طرف لکھا تھا۔ پھر تعجب کی بات ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد بھی آپ اس قسم کی باتیں پسند کرتے ہیں۔ وہ شخص جو حضرت امیر(علی) رضی اللہ عنہ کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کہے اہل سنت و جماعت نے گردہ سے نکل جاتا ہے۔ پھر اس شخص کا کیا حال ہے جو اپنے آپ کو افضل جانے اور اس گروہ میں یہ بات مقرر ہے کہ اگر کوئی سالک اپنے آپ کوخارش زدہ کتے سے بہتر جانے تو وہ ان بزرگواروں کے کمالات سے محروم ہے۔
سلف کا اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ عنہ تمام انسانوں سے افضل ہیں ۔ وہ بڑا ہی احمق ہے جو ان اجماع کے برخلاف کرے ۔ اس فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی( بن حرب غلام جبیر بن مطعم) جو ایک مرتبہ خیرالبشر علیہ وآلہ الصلوة والسلام کی صحبت میں پہنچا۔ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے جو خیر التابعین ہیں، کئی درجے بہتر ہیں۔
پس ایسے شخص کے حق میں اس قسم کی باتوں کا خیال کرنا عقل دور اندیش سے دور ہے جس عبارت (مکتوب 11 دفتر اول)سے لوگوں کے دلوں میں یہ وہم پیدا ہوا ہے اس کو غور سے دیکھنا چاہیئے اور اصل معاملہ کو سمجھنا چاہیئے ۔ صرف حاسدوں کی تقلید کرنی مناسب نہیں حالانکہ مشائخ عظام نے غلبہ منکر میں بہت نامناسب باتیں کی ہیں۔ چنانچہ شیخ بسطام رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں ۔ لِوَائىِ اَرْفَعُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ میرا جھنڈامحمد ﷺکے جھنڈے سے بلند ہے تو ایسی باتوں سےافضل ہونے کا گمان نہیں کر سکتے کہ یہ عین زندقہ ہے اور فقیرکی کلام میں تو اس قسم کی باتوں کا ذکر تک بھی نہیں ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ65ناشر ادارہ مجددیہ کراچی