سلسلہ نقشبندیہ کے امتیازات

سلسلہ نقشبندیہ کے امتیازات

سلسلہ سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ طریقہ ہے جوبیعت کی صورت قائم ہوتا ہےاور اپنے شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے ۔ چار بڑے سلاسل  نقشبندیہ چشتیہ،، قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔ جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی  سے دی جاتی ہے۔ ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے۔

نسبت نقشبندیہ تجلی ذاتی دائمی ہے
سلسلہ نقشبندیہ کی نسبت خاصہ کا نام تجلی ذاتی دائمی ہے اور یہ نسبت تمام نسبتوں سے فوق ہے۔ حضرت امام ربانی سید نا مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: كَمَا وَقَعَ فِي عِبَارَاتِهِمْ إِنَّ نِسْبَتَنَا فَوْقَ جَمِيعِ النَّسَبِ وَأَرَادُوا بِالنِّسْبَةِ الْحُضُورَ الذَّاتِي الدائمی دفتر اول مکتوب : 21) جیسا کہ اس سلسلے کے اکابر کی تحریروں میں ہے کہ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بلند و بالا ہے اور نسبت سے ان کی مراد حضور ذاتی دائمی ہے۔ قطب الارشاد حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہ الغفار نسبت نقشبندیہ کی جامعیت و عظمت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ نسبت خواجگان قدس الله ارواحهم آن نسبت شریف که جامع جميع نسبتها ست و خلاصه و منتهائي مجموع طريقها ست فقرات :38 ) یعنی نسبت خواجگان رحمۃ اللہ علیہم وہ نسبت شریفہ ہے جو جمیع نسبتوں کی جامع ہے اور تمام طریقوں کا خلاصہ ومنتہا ہے۔ مشائخ نقشبندیہ رحمۃ اللہ علیہم اس قدر غیور اور خود دار ہیں کہ وہ کسی دھو کے باز اور پاکوب کو اپنی باطنی نسبت عطا ہی نہیں فرماتے ۔ حضرت خواجہ احرار کا ارشاد گرامی ہے:
خواجگان این سلسله علیه قدس الله تعالى اسرارهم بهرزراقی و رقاصی نسبت ندارند کارخانه ایشان بلند است (مکتوب : 243) اس سلسلہ عالیہ کے خواجگان و دینی تعلیم کسی مکار اور رقاص کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے ، ان کا کارخانہ بہت بلند ہے۔
چونکہ اس نسبت کا اقتباس سید نا صدیق اکبر کی ولایت سے ہوا ہے ۔ جس طرح آپ تمام امت سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی نسبت بھی تمام نسبتوں سے افضل ہے ۔ اس نسبت میں لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا کا فیضان شامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج و مذاق میں معیت و محبت ذاتیہ، حضور و سرور اور سکون و اطمینان کا غلبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔
اِنَّ اللهَ لَيَتَجَلُّى لِلنَّاسِ عَامَّةٌ وَيَتَجَلُّى لا بي بَكْرٍ خَاصَّةً ( كنز العمال ، رقم الحديث :32630 ) یعنی اللہ تعالی لوگوں پر عام تجلی فرماتا ہے اور ابوبکر پر خاص تجلی فرماتا ہے ۔
دوسری حدیث یوں ہے يَا أَبَا بَكْرٍ، أَعْطَاكَ اللَّهُ الرِّضْوَانَ الْأَكْبَرَ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: وَمَا الرِّضْوَانُ الْأَكْبَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «‌يَتَجَلَّى اللَّهُ لِعِبَادِهِ فِي الْآخِرَةِ عَامَّةً وَيَتَجَلَّى لِأَبِي بَكْرٍ خَاصَّةً( المستدرك للحاكم. رقم الحدیث:4463) شاید اس خاص تجلی سے مراد تجلی ذاتی دائمی“ ہے۔ (واللہ اعلم)
سلسلہ نقشبندیہ میں دو راستوں سے فیض آتا ہے ۔ ایک راستہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے اور دوسرا راستہ حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ باقی تمام سلاسل طریقت حضرت سید نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ذریعے واصل ہوتے ہیں اور حضرات نقشبند یہ دونوں راستوں سے واصل بالذات ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام حضور و آگاہی سب سے اعلی و بالا ہے اسی لئے اس سلسلہ کوسلسلۃ الذہب“ کہا گیا ہے۔
نسبت نقشبندیہ مجددیہ کی انفرادیت اختصاصات سلاسل کی بنیاد پر صوفیاء میں مخصوص مکاتیب فکر قائم ہوئے وہ اپنی نسبتوں اور طبائع کے میلان سے مجبور ہو کر ایک جانب عملاً مائل ہوتے ہیں اور دوسری جانب سے طبعا گریز کرتے ہیں۔ یہ مقتضائے نسبت ہی ہے جو حضرات نقشبندیہ کو تواجد، ذکر بالجبر اور رقص و سماع سے دور رکھتا ہے کیونکہ ان کی نسبت صدیقی ہے ، ان کا طریق فیض القائے سینہ بہ سینہ ہے۔ چونکہ ان کی سیر انفسی ہے لہذا اس نسبت میں سکوت و اخفاء اور دوام حضور کا غلبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ نعرہ ہائے اشتیاق اور رقص وسماع کی طرف التفات نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں شرع کے جواہر نفیسہ دے کر وجد وحال کے اخروٹ و نفی نہیں خریدتے اور نص ( کتاب وسنت ) کو چھوڑ کر فص (فصوص الحکم ) کی طرف نہیں جھکتے اور فتوحات مدنیہ ( وحی ) کے مقابلے میں فتوحات مکیہ (کشف) کیطرف التفات نہیں کرتے ۔ امام طریقت عارف برحق حضرت سید نا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس نسبت کی تجدید و احیاء پر مامور ہوئے ہیں۔
سماع در قص اور وجد امام ربانی کی نظر میں
حضرت امام ربانی سید نا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اصحاب وجد وحال ،ارباب قلوب میں سے ہیں ۔ ارباب تمکین کو وجد و حال اور رقص و سماع کی ہرگز ضرورت نہیں رہتی چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
یعنی سماع اور وجہ اس جماعت کے لئے مفید ہے جو تقلب و احوال سے (جن کے احوال بدلتے رہتے ہیں ) متصف ہیں اور تبدیلی اوقات کے ساتھ داغدار ہیں جو ایک وقت میں حاضر اور دوسرے وقت میں غائب ہو جاتے ہیں ۔ یہ لوگ واجد ( اپنے مقصود کو پانے والے ) ہوتے ہیں اور کبھی فاقد ( کم کرنے والے ) یہ لوگ ارباب قلوب ہیں ۔ چنانچہ یہ لوگ ابن الوقت (وقت کے بیٹے ) ہیں اور وقت کے مغلوب ہیں۔ کبھی عروج کرتے ہیں اورکبھی ہبوط ( نیچے آ جاتے ہیں ) لیکن ان کے برعکس ) اور باب تجلیات ذاتیہ جو مقام قلب سے کلی طور پر باہر آ کر مقلب قلب ( حق تعالی ) کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں اور کلیۂ احوال کی غلامی سے نکل کر محول احوال (احوال کو تبدیل کرنے والے یعنی حق تعالی ) کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں ۔ وہ لوگ سماع و وجد کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ ان کا وقت دائمی ہے اور ان کا حال سرمدی ہے ، نہیں بلکہ ان کے لئے نہ وقت ہے اور نہ حال۔ یہ لوگ ابوالوقت ( وقت کے باپ ) ہیں اور اصحاب تمکین ( اطمینان والے ) ہیں اور یہ ایسے واصل ہیں جو رجوع سے قطعاً محفوظ ہیں اور نہ فقد ہے (ان سے ان کا مقصودگم نہیں ہو سکتا ) لہذا جن کے لئے فقد نہیں ان کے لئے وجد بھی نہیں ۔
اسی مکتوب میں کچھ آگے تحریر فرماتے ہیں:
یعنی ان بزرگواروں کا آرام و چین عبادات میں ہے اور ان کی تسکین بندگی و طاعات کے حقوق کی ادائیگی میں ہے ان کو سماع و وجد کی کچھ حاجت نہیں ان کی عبادات ان کے لئے سماع کا کام کرتی ہیں اور اصل کی نورانیت عروج سے کفایت کرتی ہے ۔ اہل سماع ووجد کے
مقلدوں کا ایک گروہ جو ان بزرگواروں کی عظیم شان سے واقف نہیں ہے وہ اپنے آپ کو عشاق میں سے سمجھتے ہیں اور ان کو زاہدوں میں سے جانتے ہیں گویا یہ لوگ عشق و محبت کو رقص ووجد میں منحصرسمجھتے ہیں ۔
نیز فرماتے ہیں:
یعنی مبتدی کے لئے سماع و وجد مضر( نقصان دہ ) ہے اور عروج کے منافی ہے اگر چہ شرائط کے موافق ہی کیوں نہ ہو اس (مبتدی ) کا وجد علت کی وجہ سے ہے لہذا اس کا حال و بال ہے اس کی حرکت طبعی ہے اور اس کا تحرک ہوائے نفسانی سے مخلوط ہے اور مبتدی سے میری مراد وہ شخص ہے جوار باب قلوب میں سے نہیں ہے اور ارباب قلوب وہ ہیں جو مبتدی اور منتہی کے درمیانی مقام (متوسطین ) میں ہوتے ہیں۔(دفتر اول مکتوب :285)
حقیقت نماز سے بے خبر
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
اس طائفہ کی ایک کثیر جماعت نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین کو سماع و نغمہ اور وجد و تواجد میں تلاش کیا اور اپنے مطلوب کو نغمہ کے پردوں میں مطالعہ کیا اور رقص و رقاصی کو اپنا مسلک بنالیا ہے حالانکہ انہوں نے سنا ہوگا مَا جَعَلَ اللهُ فِي الْحَرَامِ شفاء ( اللہ تعالی نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی ) ہاں الْغَرِيقُ يَتَعَلَّقُ بِكُل حَشِيشِ وَ حُبُّ الشَّيء يُعْمِي وَيُصِم ( ڈوبنے والا شخص ہر ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے اگر نماز کے کمالات کی کچھ بھی حقیقت ان پر منکشف ہو جاتی تو وہ ہرگز سماع د نغمہ کا دم نہ بھرتے اور وجد وتواجد کو یاد نہ کرتے۔ (دفتر اول مکتوب: 261)
ع جب حقیقت نہ ملی ڈھونڈلی افسانے کی راہ
بدعت فی الطریقت
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: سلسلہ نقشبندیہ کے خلفائے متاخرین کی ایک جماعت نے ان بزرگوں کے اوضاع واطوار کو ترک کر کے بعض ایسے نئے امور مثلاً سماع و رقص اور ذکر جہر اختیار کر لیے ہیں ۔ اس کی وجہ عدم وصول ہے یہ لوگ اس بزرگ خاندان کے اکابرین کی نیتوں کی حقیقت تک نہیں پہنچے اور خیال کر بیٹھے ہیں کہ ان محدثات (نئی باتوں ) اور مبدعات ( بدعتوں) سے اس طریقہ کی تکمیل و تتمیم کر رہے ہیں حالانکہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح سے وہ طریقہ کو خراب اور ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔(دفتر اول مکتوب:286)
اپنی طریقت کی حفاظت اہم ترین امر ہے آج کل اکثر نقشبندی اور مجددی حضرات حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے برعکس تواجد، ذکر جہر اور رقص و سماع کی رسموں پر عمل پیرا ہیں اور اس نسبت جامعہ کے باطنی فیوض و برکات سے خالی ہیں اور دوسرے سلاسل کی طرح اس سلسلہ کے لوگوں میں بھی تعلیم و تربیت کا تفاوت اور عملی طریقت کا فقدان نظر آرہا ہے ۔ افسوس کہ اس خالص نسبت کے حامل افراد بہت کم ہیں اور یہ نسبت کبریت احمر (سرخ گندھک ) سےبھی زیادہ نایاب ہے۔
اس کی چند وجوہات ہیں
پہلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس نسبت کی اصل حقیقت سے بے خبری کی بناء پر محض اپنی دکانوں کو چمکانے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مجددی تعلیمات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے جس ذہانت، استعداد اور اخلاص کی ضرورت تھی اس کے فقدان سے اس نسبت کے صحیح خدو خال اپنے مریدوں پر واضح اور وارد نہ کر سکے اور خود بھی اس نسبت کی علمی اور عملی تشکیل سے محروم رہ گئے ۔
تیسری وجہ …. یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنی نسبت کے ساتھ ساتھ دوسری نسبتوں سے بھی اختلاط و انتساب رکھتے ہیں ۔ لامحالہ اپنے مزاج کی مجبوری اور اپنی طبع کے میلان کے سبب جس نسبت کا غلبہ پاتے ہیں اس پر فریفتہ ہو کر وہی رنگ اختیار کر لیتے ہیں ۔ ( وَلِلنَّاسِ فِیِمَا يَعْشِقُونَ مَذَاهَب ) حالانکہ حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نسبت میں دوسری نسبت کو خلط ملط کرنے پر سختی سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ارقام فرمایا:
یعنی وہ نئی بات جو طریقت میں پیدا کرتے ہیں فقیر کے نزدیک بدعت سے کم نہیں جب کوئی نیا طریقہ سابقہ طریقت میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے فیوض و برکات کا راستہ بند ہو جاتا ہے ۔ اس لئے اپنی طریقت کی حفاظت اہم ترین امر ہے۔ (دفتر اول مکتوب : 267)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں