سیر اسماء و صفات کا مفہوم

سیر اسماء و صفات کا مفہوم

 صوفیائے کرام کے مطابق سیر اسماء و صفات کا مفہوم اس آیت سے ماخوذ ہے

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى

اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں

اسماۓ حسنی

 اللہ تعالی کے اسماء و صفات تو لا متناہی ہیں لیکن ان سب کا مرجع نناوے اصول متناہیہ کی طرف ہے انہیں اسمائے حسنی سے تعبیر کیا جاتا ہے

امہات اسماء

اسمائے حسنیٰ کامر جع آٹھ اصولوں کی جانب ہے جنہیں امہات اسماء کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں حیات، علم، قدرت ،ارادہ، سمع،بصر، کلام اور تکوین نتیجتا ان تمام اسماء کا مر جع ایک اصل کی جانب ہے اور وہ اسم اللہ ہے جو جامع ہے جمیعت اسماءالہیہ کا اور شامل ہے جمیع صفات الہیہ کو

احصائے اسماء

 سرورکائنات ﷺ نے فرمایا یا

إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ

بے شک اللہ تعالی کے ننانوے اسماء ہیں جس نے ان کا احصاء کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔

یہاں احصاء اسماء سے مراد اسمائے حق تعالی سے متحقق اور متخلق ہونا ہے صرف اسماءکا وظیفہ کرنا اور ان کا تلفظ یا تکرار یا شمار مراد نہیں۔

دائرہ اسماء

 دوائر محبت میں پہلا دائرہ اسماءکا ہے سالک مبتدی جب مسمی تک نہیں پہنچ سکتا تو اسم سے ہی اپنے دل کو تسلی دیتا ہے اس دائرے میں سالک کو معرفت ذات بواسطہ اسماء کی تعلیم دی جاتی ہے

دائرہ صفات

دوسرا دائرہ صفات کا ہے اس دائرے میں سالک صفات کے پرتو سے فیض یاب ہوتا ہے اور کائنات میں ہر طرف اللہ تعالی کی قدرت اور صنعت کے نمونے اس کی صفات کے مظہر نظر آتے ہیں اس دائرے میں معرفت ذات بواسطہ صفات کی تربیت دی جاتی ہے۔

دائرہ ذات

تیسرا دائرہ ذات کا ہے اس دائرے کی وسعت لا محدود ہے اس میں نہ اسماءپیش نظر ہوتے ہیں نہ صفات بلکہ اس میں معرفت ذات بلا واسطہ اسماء و صفات کا سبق دیا جاتا ہے۔

سیر

سیر دو قسم پر ہے سیر آفاقی اور سیر انفسی

سلوک

خدا تک پہنچنے کا وہ راستہ جو بطریق مجاہدہ یا بذریعہ سیر کشفی عیانی طے کیا جائے نہ کہ بطریق استدلال سلوک کہلاتا ہے۔

سالک

اس راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے والے اور ساعت بہ ساعت ترقی کرنے والے کو سالک کہتے ہیں

ہو الذی مشی علی المقامات بحالہ لا بعلمہ( کتاب التعریفات ص 115، علامہ شريف الجرجاني،دار الكتب العلمية بيروت -لبنان )

یعنی جو اپنے حال کے مطابق مقامات طے کرتا چلا جائے نہ کہ محض علم وقال کے بل بوتے پر

عارف

 اللہ تعالی کی صفات اور اس کے مقدرات کو بطریق حال و مشاہدہ نہ کہ بطریق مجرد علم پہچاننے والے کو عارف کہتے ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں