شہد اور حنظل دونوں دواء.

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

نفس کی صرف دوحالتیں ہیں۔ تیسری نہیں۔ ایک حالت عافیت کی ہے اور دوسری بلاء و مصیبت کی۔ 

جب نفس آلام و مصائب کا شکار ہوتا ہے تو آہ و زاری کرتا ہے۔ شکوه و شکایت کی زبان دراز کرتا ہے۔ خفگی اور اعتراض کرنے لگتا ہے۔ اللہ کریم کی شان میں نازیبا کلمات کہتا ہے۔ صبر ورضا اور موافقت ترک کر دیتا ہے۔ سوئے ادبی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ مخلوق اور اسباب کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے اور کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ 

نعمتوں پر استہزاء

اور جب عافیت کی حالت میں ہو تا ہے تواس کی شرارت اور سرکشی پہلے سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ شہوات و لذات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھاتی ہے۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں، لباس، نکاح اور سواری کی صورت میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر استہزاء کر تا ہے۔ ان میں عیب اور نقص نکالتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان سے بہتر اور زیادہ نعمتیں میسر ہوں حالانکہ مطلوبہ نعمتیں اس کے مقدر میں نہیں ہوتیں۔ وہ اپنی قسمت پر راضی نہیں ہوتا اسی لیے مشقت اور تھکاوٹ کا شکار رہتا ہے۔

2 اعمال بد

اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں پر اکتفا نہیں کر تا اسی لیے پریشان اور سر گرداں رہتا ہے۔ مقرر سے زیادہ طلب کر کے جہالت کا ثبوت دیتا ہے۔ اس لیے اسے بڑی شدت اور مشقت کا سامنا رہتا ہے۔ جس کی نہ انتہاء ہے اور نہ اختتام زندگی بھر ذلت ورسوائی اٹھانے کے بعد جب آنکھ بند ہوتی ہے کہ اعمال بد کی وجہ سے سخت سزا کا سامنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہاگیا ہے۔ سب سے بڑی مصیبت دوسروں کی قسمت کے پیچھے سر گرداں رہتا ہے۔ 

لیکن جب نفس بلا و مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ مصیبت ختم ہو۔ کسی اور نعمت کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے نابلد صرف اس مصیبت سے نجات کی تمنا کرتا رہتا ہے۔ مگر جب اسے مصیبت سے چھٹکارا مل جاتا ہے تو اس کی رعونت عود (واپس)کر آتی ہے۔ شرو فساد میں اور اطاعت و انقیاد (فرمانبرداری)سے اعراض میں بہت آگے نکل جاتا ہے۔ سر تا پا معصیت میں ڈوب جاتا ہے۔ گذشتہ آلام و مصائب اسے یاد ہی نہیں تھے۔ ہلاکت و بربادی جو اس پر نازل ہوئی تھی اسے بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالی ان گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے اسے پھرسزادیتا ہے۔ پہلے سے زیادہ مصیبت اور تکلیف اٹھاتا ہے۔ 

تاکہ وہ گناہوں سے باز آجائے اور آئندہ معاصی سے اجتناب کرے۔ کیونکہ عافیت اور نعمت اسے راس نہیں آتی اس لیے بلاء اور مصیبت کے ذریعے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ 

3 بہتر نعمتیں

اگر فراخی اور عافیت کے دنوں میں ، وہ حسن ادب کا لحاظ رکھے۔ اطاعت و شکر اور صبر ورضاکو اختیار کرنے اور مقسوم پر اکتفا کرے تو اس کی دنیاو آخرت دنوں بہتر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ اس پر لطف و کرم ہو تا ہے اور پہلے سے بہتر نعمتیں اسے عطا ہوتی ہیں۔ 

جو دنیا و آخرت میں سلامتی کا خواہاں ہے اسے چاہیئے کہ صبرو ر ضاسے کام لے۔ مخلوق سے شکوہ نہ کرے۔ اپنے رب کریم سے اپنی ضرورتوں کیلئے التجا کر تار ہے اور ہمیشہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر کمر بستہ رہے۔ اور انتظار کرے کہ کب اللہ کریم مصائب و آلام سے نجات دیتا ہے۔ کب مصیبت کی کالی گھٹائیں چھٹتی ہیں۔ کیونکہ وہ کریم ہے۔ اس کے در کی غلامی کسی اور کی دریوزہ گری(بھیک مانگنا) اور غلامی سے بہتر ہے۔ اس کا محروم کر نا بھی عطا ہے۔ اس کی عقوبت نعمت ہے۔ اس کی بلا دوا ہے اس کا وعدہ جلد یابدیر پورا ہونے والا ہے۔ اس کا کہا بہر حال پورا ہو تا ہے۔ کیونکہ اس کا ارشاد پاک ہے۔ 

إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ(یٰسٓ:82) 

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر تا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو ہو جا۔ پس وہ ہو جاتی ہے ۔

اللہ تعالی کے تمام افعال اچھے ، حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات بندہ ان مصلحتوں اور حکمتوں سے نابلد ہو تا ہے۔ . بہر حال بنده مؤمن کیلئےمناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے۔ اس کی عبادت میں مشغول رہے۔ اوامر کو ادا کرے۔ نواہی سے اجتناب برتے۔ جو فیصلے وہ کریم کرے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ ربوبیت میں مشغول نہ ہو جو تقدیر کی علت بنیاد اور اصول ہے۔ کیوں، کیسے اور کب سے خاموشی اختیار کرے۔ اللہ تعالی کو اپنی تمام حرکات و سکنات میں تہمت نہ دے۔ 

ان تمام نصیحتوں کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺکے پیچھے سواری پر سوار تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا اے بچے: 

احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ أَمَامَكَ، تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ، وَإِذَا سَأَلْتَ، فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، قَدْ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ، فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ كُلَّهُمْ جَمِيعًا أَرَادُوا أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَرَادُوا أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَاعْلَمْ أنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

حقوق اللہ کی حفاظت و نگہداشت کر۔ اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ کو حاضر و ناظر یقین کر تو اسے اپنے سامنے موجود پائے گا۔ جب سوال کرنا مقصود ہو تو اس سے سوال کر۔ احتیاج اور ضرورت ہو تواسی سے مدد مانگ جو کچھ ہوتا تھا اسے قلم لکھ کر خشک ہو چکی ہے۔ اگر تمام انسان کوشش کریں کہ تجھے وہ کچھ دیں جو تیرے مقدر میں نہیں تو ان کی کوششیں رائیگاں جائیں۔ اور اگر وہ تجھے کچھ نقصان دینا چاہیں جو تیری قسمت میں نہیں لکھا گیا تو درماندہ ہو جائیں۔ اگر یقین میں اللہ تعالی سے سچائی برت سکتا ہے تو سچائی برت۔ اگر استطاعت نہیں تو ایسی چیز پر صبر کر جو تجھےناپسند ہے بہت بہتر ہے۔ جان لے کہ اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے۔ اور کشائش اور نجات مصیبت کے ساتھ ہے۔ اور تنگی کے بعد فراخی ہے 

اب اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے۔

ہر مومن کو چاہیے کہ اس حدیث کو ہمیشہ دل کے آئینہ کے سامنے رکھے۔ اپنے شعار، کردار اور گفتار میں اس کا لحاظ رکھے۔ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل پیرا ہو۔ تا کہ دنیاو آخرت میں سلامت رہے اور دار ین کی عزت پائے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 134 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام

جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالی سے مانگ

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ وارضاہ نے فرمایا : انسان اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے جب بھی سوال کرتا ہے تو محض جہالت ضعیف ایمان و یقین اور قلت صبر و عمل کی وجہ سے کرتا ہے۔ اور جب بھی غیر کی دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) سےبچتا ہے تو معرفت خداوندی کے زیادہ ہونے ایمان یقین کے پختہ ہونے کی وجہ سے بچتا ہے۔ وہ اس لیے اس ذلت سے محفوظ رہتا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ اس کو حاصل عرفان ذات الہی بڑ ھتا ہے اور اسے کریم سے حیاء میں اضاف ہو تا رہتا ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 136 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں