شیخ شرف الدین منیری کے کلام کی تحقیق مکتوب نمبر 33 دفتر سوم

شیخ شرف الدین منیری قدس سرہ کے اس کلام کی تحقیق میں جوانہوں نے کی ہے کہ جب تک کافر نہ ہو اور بھائی کا سر کاٹے اور اپنی ماں کے ساتھ جفت نہ ہو تب تک مسلمان نہیں ہوتا۔ ملاشمس الدین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

ملاشمس الدین! آپ استقامت سے رہیں۔ آپ نے پوچھا تھا کہ شیخ  المشائخ شیخ شرف الدین یحی منیری قدس سرہ نے رسالہ ارشادالسالکین میں لکھا ہے کہ سالک جب تک کافر نہ ہومسلمان نہیں ہوتا اور جب تک سالک اپنے بھائی کا سرنہ کاٹے مسلمان نہیں ہوتا اور جب تک اپنی ماں کے ساتھ جفت نہ ہوتب تک مسلمان نہیں ہوتا۔ ان کلمات سے کیا مراد ہے؟ 

واضح ہو کہ کفر سے مراد کفرطریقت ہے۔ جو مرتبہ جمع سے مراد ہے کہ استتاریعنی پوشیدگی کا مقام ہے۔ اس مقام میں سالک اسلا م کی خوبی اور کفر کی برائی میں تمیز نہیں کرسکتا۔ جس طرح اسلام کو پسندیدہ جانتا ہے۔ کفر کو بھی دیسا ہی اچھاجانتا ہے اور دونوں کو اسم ہادی اور اسم مضل کے مظہر جان کر دونوں سے حظ حاصل کرتا اور لذت پاتا ہے۔ یہ وہی کفر ہے جس کی خبرمنصور نے دی ہے اور اسی میں رہا ہے اور اسی پر مرا ہے۔ اس نے کہا ہے۔ بیت 

کفرت  بدين الله والكفر واجب لدى و عند المسلمين قبيح

 ترجمہ بیت: ہوا کافر میں دین حق سے مجھ کو کفر واجب ہے اگرچہ سب مسلمانوں کے ہاں وہ کفر بدتر ہے ۔

قول انا الحق(میں خدا ہوں) اورقول سبحانی (میں پاک ہوں )اور قول ليس في جبتئ سوى الله(میرے جبہ  میں اللہ کے سوا کچھ نہیں) وغیره شطحیات(وہ کلمات جو واصلین کاملین سے حالت مستی و غلبہ شوق میں  بے اختیار نکلےظاہر شریعت کے خلاف )سب ایک مرتبہ جمع کے درخت کے پھل ہیں۔ اس قسم کی باتوں کا باعث محبوب حقیقی کی محبت کا غلبہ ہے۔ یعنی سالک کی نظر سے محبوب کے سوا سب کچھ پوشیدہ ہو جاتا ہے اورمحبوب کے سوا اس کو کچھ مشہود نہیں ہوتا۔ اس مقام کو مقام جہل اور مقام حیرت(یہ طریقت کا انتہائی مقام ہے جس کا مطلب انکشافِ حقیقت پر حیران ہوجانا ہے)  بھی کہتے ہیں، لیکن یہ وہ جہل ہے جومحمود ہے اور یہ وہ حیرت ہے جو ممدوح ہے۔ جب اللہ تعالی کی عنایت سے اس مرتبہ جمع سے بلندتر سیر واقع ہوجائے اور علم اس جہل کے ساتھ جمع ہوجائے اور اس حیرت کے ساتھ معرفت مل جائے اور فرق وتمیز حاصل ہو جائے اور سکر(مستی)  سےصحو میں آ جائے تو اس وقت اسلام حقیقی کی دولت ظاہر ہوتی ہے اور ایمان کی حقیقت میسر ہوتی ہے۔ یہ اسلام و ایمان زوال سے محفوظ ہے اور کفر کے عارض ہونے سے بچا ہوا ہے۔ ماثورہ دعاؤں میں جو آیا ہے کہ اللهم انی اسلک ایمانا ليس بعده کفر(یإاللہ میں وہ ایمان مانگتا ہوں جس کے بعد کفر نہیں) یہ وہی ایمان ہے جو زوال سے محفوظ ہے۔ آیت کریمہ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ ‌لَا ‌خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (اللہ تعالی کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے) اسی ایمان والوں کے حال کا نشان ہے کیونکہ ولایت اس ایمان کے بغیرمتصورنہیں۔ اگر چہ  مرتبہ  جمع میں بھی اسم ولایت کا اطلاق کر سکتے ہیں لیکن نقص و قصور ہر وقت اس مرتبہ کا دامن گیر ہے۔ کیونکہ کمال ایمان معرفت میں ہے نہ کہ کفراورجہل میں۔ خواہ کوئی کفروجہل ہو ۔ پس جو کچھ  شیخ نے کہا ہے درست ہے کہ جب تک کفر طریقت سےمحقق نہ ہوں۔ اسلام حقیقی سے مشرف نہیں ہوتے اور یہ جوشیخ نے فرمایا ہے کہ جب تک اپنے بھائی کو نہ مارے تب تک مسلمان نہیں ۔ مراد بھائی سے ہمزاد شیطان ہے جو انسان کا ساتھی ہے اور ہر وقت اس کو شروفساد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کوئی بنی آدم نہیں جس کا ساتھی ایک جن نہ ہو۔ یاروں نے عرض کیا۔ یا رسول اللهﷺ آپ کا ساتھی بھی جن ہے۔ فرمایا ہاں، لیکن خدا تعالی نے مجھے اس پر طاقت دی ہے کہ میں اس کے شر سے سالم اور بچا ہوا ہوں۔ یہ معنی اس صورت میں ہے کہ لفظ فاسلم جو حدیث میں واقع ہے۔ اس کوصیغہ متکلم سے روایت کیا جائے اور اگرصیغہ ماضی سے روایت کیا جائے تو اس کے معنی اس طرح ہوں گے کہ میرا ساتھی مسلمان ہوگیا ہے۔ یہ اخیر کے معنی مشہور ہیں اور اس کے مسلمان ہونے یا مرنے سے مراد اس کی تابعداری نہ کرنا اور اس کو ذلیل وخوار رکھنا ہے۔

 سوال: آدمی  باوجود عقل وفراست کے اس شیطان کا مغلوب کیوں ہو جاتا ہے اور اس کی بری رہنمائی کی طرف کیوں جلدی کرتا ہے اور حق تعالی کی مرضیات کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟

 جواب: شیطان سراسر فتنہ و بلا ہے۔ جوحق تعالی نے بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے مسلط کیا ہے اور اس کو ان کی نظر سے چھپا دیا ہے اور اس کے احوال پر ان کو اطلاع نہیں دی اور اس کو ان کے احوال سے واقف کر دیا اور ان کے رگ وریشہ میں خون کی طرح جاری کیا ہے۔وہ بڑا ہی سعادتمند ہے۔ جو اللہ تعالی کی حفاظت سے ایسی بلا کے مکروفریب سے محفوظ رہے۔ باوجود اس تسلط کے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کےمکر اور کید کو ضعیف فرمایا ہے اور سعادتمندوں کو دلیر کر دیا ہے۔ ہاں الله تعالی کی مددسے شیطان باوجود اس تسلط کے لومڑی کا حکم رکھتا ہے اور اس کے فضل کی امداد کے بغیر پھاڑنے والا شیر ہے۔ بیت

تو مرا دل ده و دلیری بہ بیں رو بہ خویش خواں و شیری بہ بیں

ترجمه بیت دے کے دل تو مجھے دلیری دیکھ اپنی روبہ بنا کے شیری دیکھ

دوسرا جواب یہ ہے کہ شیطان انسان کی خواہشات کی راہ سے آتا ہے اور اس کو مشتبہات کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورنفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا)    کی مدد سے جو گھر کا دشمن ہے آدمی  پر غلبہ پاتا ہے اور اس کو اپنا فرمانبردار بنالیتا ہے۔ شیطان کا مکر في حد ذاتہ ضعیف ہے لیکن خانگی دشمن کی مدد سے اپنا کام کر جاتا ہے۔ درحقیقت ہماری بلا ہمارا نفس امارہ   ہی ہے جو ہمارا جانی دشمن ہے۔ اس کمینہ کے سوا کوئی بھی اپنے آپ کا دشمن نہیں۔ باہر کا دشمن اسی کی مدد سے اپنا کام کرتا ہے۔ پس اول اپنے نفس کا سر کاٹنا چاہیئے اور اس کی تابعداری کو چھوڑنا چاہیئے اور اس کو ذلیل و خوار کرنا چاہیئے۔ اسی جہاد کے ضمن میں بھائی کا سربھی کٹ جائے گا اور وہی ذلیل و خوار ہو جائے گا۔ اس راستہ کے چلنے والے انسان کا حجاب اس کا اپناہی نفس ہے اور بھائی مبحث سے خارج ہے جو دور سے شرارتوں کی طرف دعوت کرتا ہے اور سیدھے راستہ سے ٹیڑھے راستے کی طرف بلاتا ہے۔ جب نفس تابع ہو جائے تو پھر وه بیرونی دشمن الله تعالی کی مدد سے بآسانی دفع ہوجاتا ہے۔ إِنَّ ‌عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ میرے بندوں پر تیرا غلبہ نہیں)ان بندوں کے لیے بشارت ہے۔ جونفس کی غلامی سے آزاد ہو کر معبودحقیقی کی عبادت میں مشغول ہیں۔ والله سبحانہ  الموفق (اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے) اور یہ جو کہا ہے کہ جب تک اپنی ماں کے ساتھ جف نہ ہو  تو مسلمان نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ ماں سے مرادعین ثابتہ ہو۔ جوخارج میں وجود کے ظہور کا سبب ہے۔ اس طائفہ کی اصطلاح میں عین ثابتہ کومادرسے تعبیر کرتے ہیں۔ کسی نے فرمایاہے۔

 بیت           ولدت أمى أباھا                               إن ذا من أعجبا 

نرالا کام یہ کیا ہوا ہے مری ماں نے پدراپنا جنا ہے ۔

مادر سے مراد عین ثابتہ ہے اوراس مادر کا پدراس اسم الہی سے مراد ہے جس اسم کاظل اورعکس اور پرتو عین ثابتہ ہے۔ چونکہ خارج میں اس اسم کا ظہور ین ثابتہ کے زریعے ہوا ہے اس لیے اس ظہور سے ولادت کی تعبیر کر کے مادر کہتے ہیں اور عین ثابتہ مرادر کھتے ہیں۔ اس عین ثابتہ کوتعین وجوبی بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس طائفہ کے نزدیک تعینات پائے ہیں۔ جن کو تنزلات خمسہ اور حضرات خمس بھی کہتے ہیں۔ ان میں سے دو تعین مرتبہ وجوب میں ثابت کرتے ہیں اور تین تعین مرتبہ امکان میں کہتے ہیں۔ وہ دوتعین جو مرتبہ وجوب میں ہیں۔ ایک تعین  و حدت ہے، دوسرے تعین واحدیت۔ جو دونوں مرتبہ علم میں ہیں۔ ان میں فرق صرف کی اجمال وتفصیل کا ہے اور تین تعین جو مرتبہ امکان میں ثابت کرتے ہیں وہ تعین روحی اورتعین مثالی اور تعین جسدی ہے۔ چونکہ عین ثابتہ مرتبہ واحدیت میں ہے۔ اس لیے اس کا تعین وجوبی ہوگا اور جب اس شخص ممکن کی حقیقت بھی عین ثابتہ ہےتو تعین وجوبی رکھتا ہے اور یہ شخص اس عین کے ظل کی طرح ہے۔ پس اس شخص کی ماں عالم وجوب سے ہوگی۔ جس نے اس کو عالم امکان میں ظاہر کیا ہے اور ماں کے ساتھ جفت ہونے کے یہ معنی ہیں۔ کہ اس شخص کا یہ تعین امکانی اس تعین وجوبی کے ساتھ جو اس کی حقیقت ہے۔ متحد ہو جاتا ہے۔ 

بیت چو ممکن گرد امکاں برفشاند بجز واجب درو چیزے نماند

 ترجمہ بیت: دور جب ممکن سے ہو جاتی ہے گر دامکاں کی  کچھ نہیں رہتاسواواجب کے اس میں اے اخی

یعنی اس کا تعین امکانی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے اور اپنی اناکوتعین وجوبی پر اطلاق دیتا ہے۔ نہ اس طرح پر کہ تعین امکانی واقعی تعین وجوبی کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ محال ہے اور اس سے الحاد و زندقہ لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ اس جگہ کا معاملہ شہود   پر ہے۔ اگر تعین کا زوال ہے تو شہود   سے تعلق رکھتا ہے اور اگر اتحاد ہے تو وہ بھی شہود سےمتعلق ہے۔

 بیت نہ آں ایں گردد نے ایں شودآں ہمہ اشکال گردد بر تو آساں 

ترجمہ نہ وہ یہ اور نہ یہ وہ ہو مری جان تمامی مشکلیں ہوں تجھ پر آسان جب اس شخص نے اپنے اس تعین کو اس تعین کے ساتھ متحد پایا تو اس بات کا امیدوار ہو  گیا کہ امکان کی آلودگیوں سے صاف ہوجائے گا اور مرتبہ وجوب کے اسلام اور انقیاد کی دولت سے مشرف ہوجائے گا۔ جاننا چاہیئے کہ تنزلات خمسہ جو صوفیاء نے بیان کیے ہیں۔ وجود میں صرف اعتبارات ہی ہیں اور کشف شہود   سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ یہ کہ در حقیقت تنزل اور تغیرو تبدل ہے۔ فسبحان الله من لا يتغير بذاته ولا بصفاته ولا في اسمائه بحدوث الأکوان (پاک ہے وہ اللہ تعالی جو کون و مکان کے حدوث سے اپنی ذات و صفات واسماء  میں متغیر نہیں ہوتا) صوفياء اپنی دید کے اندازہ کے موافق سکر(مستی)  اور غلبہ حال کے وقت اس قسم کی بہت سی باتیں زبان سے نکالتے ہیں۔ ان کو ظاہر پرمحمول نہ جاننا چاہیئے، بلکہ ان کی توجیہ میں مشغول ہونا چاہیئے کیونکہ مستوں کی کلام ظاہر سے پھیر کر توجیہ سے معلوم کی جاتی ہے۔ والله سبحانہ أعلم بحقائق الأمور كلها (تمام امور کی حقیقتوں کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے چونکہ آپ نے یہ بیقرار کرنے والی باتیں ایک بزرگ سے نقل کی تھیں۔ اس لیے ان کے حل میں کچھ لکھا گیا۔ ورنہ یہ فقیر اس قسم کی مخالف باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتا اوران کے ردو بدل میں زبان نہیں 

کھولتا۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ‌وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ یا اللہ تو ہمارے گناہوں اور کاموں میں زیادتی بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھا اور کافروں پر ہمیں مدد دے) الحمد لله أولا و آخرا والصلوة والسلام على رسوله دائما و سرمدا و على اله الكرام و صحبہ العظام إلى يوم القيام (اول و آخر اللہ تعالی کی حمد ہے اور اس کے رسول اور ان کی آل بزرگ اور اصحاب کبار پر قیامت تک الله تعالی کی طرف سے صلوۃ وسلام ہو۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ114ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں